پاکستانی سیاحوں سے خوف
ہمارے بڑے بڑے کالم نگار اس مقولے پر بڑے فخر سے عمل کرتے ہیں کہ ’’بندہ چلا جائے مگر کالم نہ جائے‘‘، یعنی اگر کسی کالم سے کسی کا کسی قسم کا نقصان بھی ہو تو کوئی پرواہ نہیں۔ نقصان بھی ایک خوب صورت کالم کی نذر۔ میں اس مقام پر سیلف سینسرشپ کا حامی ہوں۔ ایسے کئی کالم میرے ذہن میں کسی راز کے طور پر پوری طرح محفوظ ہیں کہ اگر اُن کو سپردِقلم کردوں تو نہ صرف ایک بے بدل کالم کہلائے بلکہ اُس میں شامل معلومات سیاست کی سرخی بن جائیں ۔ ان کا تعلق ملکی وقومی مفاد سے ہے۔ اس میں ایک موضوع ہماری اندرون ملک سیاحت بھی ہے۔ میری زندگی میں سیاحت اسی طرح اہم ہے جیسے مطالعہ۔ ساری عمر میرے بنیادی اخراجات میں ایک بڑا خرچ سیاحت رہا ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد،متعدد احباب نے کوشش کی کہ وہ ہمارے نقش قدم پر چل سکیں۔ لیکن خواہش اور کوشش کے باوجود وہ اس لیے ایسا کرنے سے قاصر یا ناکام ہوئے کہ دل گردہ چاہیے اپنی خون پسینے کی کمائی کو خدا کا جہان پانے کے لیے خرچ کرنے کو۔ ہمارے ہاں تو کتاب کو بھی ایک فضول خرچی سمجھا جاتا ہے یا یہ بہانہ پیش کیا جاتا ہے کہ پڑھنے کا وقت نہیں۔ اسی طرح حقیقی جہاںگردی مشاہدے کا ایک کٹھن علمی سفر ہے جس میں محنت کی کمائی پانی کی طرح بہانی پڑتی ہے اور یہ ایک ایسی مشقت ہے جس میں معاوضہ ملتا نہیں بلکہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پتھروں، گارے، سیمنٹ اور لوہے سے گھربنا لو یا پھر علم، معلومات، خدا کا جہان پانے کے لیے اپنی زندگی بھر کی آمدن لٹا دو۔ سوشل میڈیا پر پیش کی گئی تصاویر اور تحریروں سے یہ جہاں گردی بڑی خوب صورت لگتی ہے، لیکن جب عملی طور پر یہ مشقت کرنا پڑے تو ’’لگ پتا جاتا ہے‘‘۔
میں اس جہاںگردی میں اندرون ملک جو سفر کرتاہوں، اس پر لکھنے سے اس لیے احتراز کرتا ہوں کہ میں اس مقولے کی مخالف سمت چلنے والا ہوں کہ ’’بندہ چلا (ختم) جائے مگر کالم نہ جائے۔‘‘میں ایمان داری سے عرض کررہا ہوں کہ مجھے ان مقامات کو اپنی تحریروں کا حصہ بنانے سے ڈر لگتا ہے، جہاں میں اپنے ملک کی سرزمین کی تلاش وجستجو میں گھومتا ہوں۔ اس خوف سے نہیں لکھتا کہ ہمارے ہاں ابھی سیاحت کا ذوق جنم ہی نہیں لے سکا۔ کئی سال قبل منوبھائی اور جاوید شاہین کو لے کر میں ایسے ہی مقامات پر گیا ۔ منوبھائی مرحوم اس قدر خوش ہوئے کہ ان قریب ہی موجود ’’پوشیدہ سرزمین‘‘ پر کالم لکھا مارا۔ بس پھر کیا تھا، شہریوں کے غول کے غول اس Virgin Land کو سیاحت کے نام پر برباد کرنے چلے گئے۔ اس کے بعد نہ میں خود اس ’’پوشیدہ سرزمین‘‘ پر لکھتا ہوں اور نہ ہی اپنے قریبی اہل قلم دوستوں کو لکھنے کی اجازت دیتا ہوں۔ شہروں میں دولت حاصل کرلینے والے ان نام نہاد سیاحوں نے شمالی علاقہ جات کی جھیلوں، سرسبز وادیوں کا جو براحشرکیا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اگر ’’پوشیدہ مقامات‘‘ کے بارے میں مَیں کالم لکھنا شروع کردوں تو مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ’’شہری سیاح‘‘ ان مقامات کے قدرتی حُسن کو تاتار کرنے کے ساتھ وہاں موجود قدیم آثار کو بھی مسخ کرنا شروع کردیں گے۔ اس کی ایک مثال کلرکہار کی جھیل اور وہاں پر موجود چند ایک آثار کی بربادی کے ساتھ، اس ڈائنوسار کا ڈھانچا ہے جو تقریباً تیس سال قبل ایک غیرملکی آرکیالوجسٹ کو کہون وادی سے ملا اور ڈائنوسار کے اس ڈھانچے کو کلرکہار کے ریسٹ ہائوس میں رکھ دیا گیا۔ میں جب بھی وہاں گیا، دنیا کا یہ نایاب آثار، ’’شہری سیاحوں کے ذوق‘‘ کی نذر ہوتے دیکھا، اور اب وہ وہاں موجود ہی نہیں۔
میں یہ بات بڑے دکھ سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے واقعی ڈر لگتا ہے، شہروں میں بسنے والے ان ’’سیاحوں‘‘ سے جو اپنی آبادیوں کو ہجوم میں بدلنے میں فخر محسوس کررہے ہیں کہ ہم دنیا کی چھٹی بڑی قوم (آبادی کے حوالے سے) ہیں۔ میرے ایک نہایت اہل علم دوست جناب شکور طاہر نے میرے اس خوف کی تصدیق یوں کی کہ کئی سال قبل انہوں نے اسلام آباد سے چند کلومیٹر باہر بارہ کہو میں ایک ندی کنارے گھر بنانا شروع کیا۔ وہاں پر معروف ادیب ممتاز مفتی کے صاحبزادے عکسی مفتی نے پہلے ہی گھر بنا رکھا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اُن کے گھر کے ساتھ ہی زمین کا ایک ٹکڑا لے کر اپنا گھر بنا ڈالا۔ متعدد بار انہوں نے عکسی مفتی سے کہا کہ اس آبادی کی گلی پختہ کروا لیتے ہیں۔ عکسی مفتی نے ہمیشہ ہی اس تجویز کی حوصلہ شکنی کی اور اس خوب صورت وادی میں گھر بنانے کے لیے دیگر ’’شہریوں‘‘ کی بھی حوصلہ شکنی کرتے رہے کہ بابا میں تو یہاں گھر بنا کر پچھتا رہا ہوں، نہ جانے رات کو کیسی عجیب وغریب آوازیں آتی ہیں، خونخوار جانوروں کی بلکہ پُراسرار آوازیں بھی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ وادی شہری آبادی میں بدل گئی اور اب یہ وادی بھی ’’شہری ہجوم‘‘ کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ یہ اس قوم کے متعدد المیوں میں سے ایک المیہ ہے۔
چند ماہ قبل میں ایک ایسی ہی وادی میں جا پہنچا، جہاں پہنچ کر میں حیران رہ گیا، اس کے قدرتی حُسن کے حوالے سے اور وہاں پر موجود چند قدیم آثارات کی تاحال موجودگی پر۔ مگر اپنے اندر کے کالم نگار کو میں نے جہاںگرد کے ہاتھوں زیر کر رکھا ہے جو اس جہاںگرد کو گھومتے گھماتے پنجاب کی اس ایک جنت نظیر وادی میں لے گیا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں ایک دو کالم اس وادی کے قدرتی اور تاریخی حُسن پر لکھ دوں تو مجھے تو جو داد ملے گی سو ملے گی، لیکن جو حشر اس وادی کا ہوگا، اس کے بارے میں سوچ کرہی خوف آتا ہے۔ پہلے ’’شہری سیاح‘‘ پہنچیں گے، وہ اسے برباد کریں گے، پھر ہمارے نام نہاد سیاحتی ادارے اور وہ اس کی ڈویلپمنٹ کے نام پر اسے حتمی طور پر برباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ میں نے ایک چوٹی کے سیاح کو اپنے اس خوف سے آگاہ کیا کہ آئندہ اپنے کالم دفن کردینا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جس میں آپ یہ لکھنے کے درپے ہوں کہ پنجاب کی فلاں بستی میں سات سو سال قدیم مجسمے موجود ہیں اور آج بھی اس بستی میں چند ایسے فنکار رہتے ہیں جو ان مجسموں کو بنانے کا فن جانتے ہیں۔ کیونکہ پھر نہ مجسمے رہیں گے اور نہ ہی مجسمہ ساز۔
آج کل ہمارے ہاں ترکی جانے کا بڑا فیشن ہے۔ میں نے ان سیاحوں میں سے چند ایک کا غیرمحسوس انداز میں انٹرویوکیا، یہ جاننے کے لیے کہ انہوں نے وہاں جودیکھا اس حوالے سے انہوں نے ترکوں کو کیسا پایا۔ کسی کو بھی میں نے یہ کہتے نہیں سنا کہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔ وہ جس نظریے سے گئے اسی نظریے سے واپس آئے۔ کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ترکوں نے اس سرزمین کی تاریخ اور یہاں پر برپا تہذیبوں کو کس طرح محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ اپنا قرار دے رکھا ہے۔ عثمانی یا سلجوقی ہی نہیں بلکہ بازنطینی، یونانی، رومی، لیسین اور اناطولین آثارات کو۔ یہی تو وہ Attractions ہیں جو مغرب کے سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتی ہیں۔ ترکی میں ہر سال ساڑھے تین کروڑسیاح آتے ہیں جس کی اپنی آبادی ا ٓٹھ کروڑ ہے۔ سیاحت سے سالانہ آمدن 36ارب ڈالرز ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ سارا ترکی یعنی تقریباً تمام ترک، اندرون ملک سیاح بھی اپنی وادیوں، نظاروں، ساحلوں اور قبل ازاسلام تاریخی اور تہذیبی آثارات کی سیاحت کرتے ہیں۔ اسی ذوق وشوق سے جیسے بیرون ملکی سیاح۔ اور میں نے پچھلے پینتیس سالوں میں کسی وادی کو اندرون ملکی سیاحوں کے ہاتھوں نابود ہوتے نہیں دیکھا اور نہ ہی قدیم آثارات کو کفر قرار دے کر مٹاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وادیاں نہ صرف مزید پروان چڑھتے دیکھ رہا ہوں اور اسی طرح قبل از اسلام آثار کی مزید تلاش اور ان کی نگہبانی۔ اگر برا نہ مانیں تو قارئین کی اجازت سے میں لکھنا چاہوں گا، ہم تماش بین قوم ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہم ٹاک شوز میں مزے لے لے کر دیکھنے سے لے کر پپو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دینے تک دیکھتے ہیں،جنرل ضیاالحق کے دور میں پپو کے قاتلوں کو جب سرعام پھانسی دی گئی تو یہ نظارہ اسی طرح تھا جیسے برازیل کا کارنوال۔ اسی طرح ہماری سیاحت اندرون ملک ہو یا بیرون ملک، زیادہ تر لوگ تماش بینی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بنکاک کے شعلے ہوں یا استنبول کی سیاحت کے بہانے توپ کاپی محل کے اُن اندھیرے کمروں کو دیکھنے کے لیے پاکستانی سیاحوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے جنہیں عثمانی ترک حرم کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ دنیا بھر سے اکٹھی کی گئی کنیزوں کا قیدخانہ تھا یہ حصہ، توپ کاپی محل کے تاریک ترین کمرے۔ ان کو دیکھنے کا سبب وہ ترک ڈرامے ہیں جو کمرشل مفاد کے تحت بنائے گئے۔ اس حرم میں وہ حُرم سلطان کی تلاش میں جس طرح بے چین گھوم رہے ہوتے ہیں، وہ انداز دیکھنے والا ہے۔
پچھلے تیس سالوں میں سندھ اور خصوصاً پنجاب کے جن خطوں اور گم نام قصبات میں جو جہاں گردی کی ہے، اگر اُن کے بارے لکھ دوں تو مجھے یقین ہے کہ تاحال کسی نہ کسی طرح محفوظ یہ وادیاں ، خطے، تاریخی آثار و قصبات، ہمارے ’’شہری سیاحوں‘‘ کی چیرہ دستیوں کی نذر ہوجائیں جو کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو اس مقام کے حُسن سے لطف اندوز ہونے کا ذوق رکھنے کی بجائے اپنے ہمراہ بڑے بڑے دیگچوں میں لائی نام نہاد بریانی کھانے کے لیے پَل پڑتے ہیں۔ کھانے کے بعد پلاسٹک کے لفافے، خالی بوتلیں اور ایسا کچرا وہاں پھینک کر چلے جاتے ہیں جن کے بارے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کچرا صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہے گااور یہ کچرا اس مقام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بانجھ کردے گا۔چند سال قبل میری نہایت قابل احترام دوست اور ملک کی معروف ادیبہ سلمیٰ اعوان صاحبہ نے مجھ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’فرخ، مجھے فلاں وادی میںاپنے ہمراہ لے چلو۔‘‘ میں نے کہا، مگر اس شرط پر کہ آپ اس پر نہ کوئی کتاب لکھیں گی اور نہ ہی کالم۔ انہوں نے کہا، بالکل ایسا ہی کروں گی۔ اس لیے کہ مجھے ڈر لگتا ہے، اپنی سرزمین کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں نیست ونابود ہوتے دیکھ کر۔