دنیا کی رنگینی بڑی دلچسپ اور پر کشش ہے۔ یہ اپنے اندر بسنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس میں کھو جائے، اور انسان بھی اس کی چاہ میں دل لگا بیٹھتا ہے۔ وہ اس میں موجود اشیاء کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جیسے یہ مستقل قیام کی جگہ ہے۔ وہ اپنے مال و دولت اور اسٹیٹس بڑھانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ اسے یاد نہیں رہتا کہ دنیا میں جو آیا ہے، اسے ایک دن واپس جانا ہے۔
انسان اگر اس جذبے کو دل میں پیدا کر لے اور اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ میرا دنیا میں قیام چند لمحوں کا ہے اور اس کے بعد آنے والی زندگی لامحدود ہے تو معاشرے کے تقریبا تمام مسائل ختم ہو جائیں۔ انسان اس خیال کو اپنے اندر راسخ کر لے کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کا سب کچھ مٹ جانے والا ہے تو اس کے اندر کی حرص و ہوس اور لالچ ختم ہو جائے اور وہ ہمہ دم اپنی آخرت کی فکر میں لگ جائے۔ قرآن میں زمین کی سیرکرنے کے حوالے سے ترغیب دی گئی ہے۔ اس پیغام کی بے شمار حکمتیں ہوں گی لیکن ہو نہ ہو ایک حکمت یہ بھی ہے انسان زمین کی سیر کرتے ہوئے گزرے ہوئے بادشاہوں کے محلات دیکھے جو اب کھنڈر بن چکے ہیں، مٹ جانے والے قوموں کے آثار دیکھے جو اب اس صفحہ ہستی میں موجود نہیں، گزشتہ اقوام کی تہذیب و تمدن دیکھے تاکہ اس کے اندر یہ چیز ترقی پائے کہ انسان خود بھی فانی ہے اور اس دنیا نے بھی مٹ جانا ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے، اللہ کی مان کر، اللہ سے دل لگا کر، اور اللہ ہی کی دی ہوئی زندگی کو اللہ کی اطاعت میں گزارنا چاہیے۔
احادیث میں موت کو کثرت سے یاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس عارضی دنیا کو مستقل گھر نہ سمجھ بیٹھے، بلکہ یہاں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارے۔ بلکہ ایک مثال سے واضح کیا گیا کہ ایک مسافر جو اپنی منزل کی جانب گامزن ہوتا ہے اور راستے میں کسی اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رک جاتا ہے تو یہ جو تھوڑی دیر کے لیے رکنے والا عمل یعنی اسٹیشن ہے، یہ ہی “دنیا” ہے۔ اس مثال سے ہم پر یہ بات عیاں ہو جانی چاہیے کہ انسان کا اس دنیا میں صرف اتنا ہی قیام ہے جتنا ایک مسافر کا راستے میں کسی اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رکنے کا۔
دنیا میں جو لوگ سخاوت کرتے ہیں، عبادت و ریاضت کرتے ہیں، خدمتِ خلق کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں بناتے ہیں، حرام سے بچتے ہیں، کسی کو دکھ نہیں دیتے، کرپشن سے وہ بھاگتے ہیں اور ظلم سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ان کے دل و دماغ میں بھی یہ بات موجود ہوتی ہے کہ ہمیں اس دنیا سے کچھ وقت کے بعد رخصت ہو جانا ہے،
یہاں راقم (اظہار احمد گلزار) نے قبروں کے کتبوں سے ایک تاریخ کے ساتھ دنیا کے عارضی ؤ مختصر ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ۔کہ کیا کیا ارمان لے کر یہ مشاہیر کل کے میدان سخن کے بادشاہ مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئے ۔۔یہی قانون فطرت اور زندگی کی اصل ہے۔ ۔ان کے لواحقین نے ان کے کلام سے منتخب اشعار ان کی قبور پر درج کر کے اپنے دل کی تشفّی کے ساتھ ساتھ ان مرحومین اہل قلم کی خواہش کا احترام کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ ۔۔۔اس دنیا سے سبھی کو ایک نہ ایک دن چلے جانا ہے۔ ان میں سے جن شعرا کا کلام ان کی زندگی میں ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجانے والوں کے کتبوں پر سجا، خود ان شعرا کی موت کے بعد وہی شعر ان کے لوحِ مزار پر بھی لکھ دیا گیا۔ یا پہلی بار لکھا گیا۔ ۔۔ یہاں ہم چند شاعروں کا ذکر کررہے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں مدفون ہیں اور ان کے لوحِ مزار پر انہی کا شعر لکھا ہوا ہے۔
*اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں محوِ خواب ہیں۔
ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:
سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہوگئے
بارِ امانتِ غمِ ہستی اُتار کے
*نام وَر نقاد اور شاعر سلیم احمد کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، ان کی قبر کے کتبے پر ان کا یہ شعر کندہ ہے:
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
*اردو کے معروف اور صاحبِ طرز شاعر سراج الدین ظفر کراچی میں گورا قبرستان کے عقب میں مسلح افواج کے قبرستان میں دفن ہیں.
ان کے لوحِ مزار پر ان کا یہ شعر رقم کیا گیا ہے:
ظفر سے دُور نہیں ہے کہ یہ گدائے الست
زمیں پہ سوئے تو اورنگِ کہکشاں سے اٹھے
*استاد قمر جلالوی کا شمار اردو غزل کے چند نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ کلاسیکی رنگ میں شعر کہنے کے فن کے استاد تھے، ان کا ایسا ہی ایک شعر ان کی قبر کے کتبے پر بھی کندہ ہے جو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں واقع ہے۔
وہ شعر یہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتّوں پر جَلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے، بجلی گری تھی جب گلستاں پر
*اطہر نفیس جدید اردو غزل کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں دفن ہیں۔
ان کی لوح مزار پر انہی کا شعر تحریر ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ساغر صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19 جولائی 1974ء کو اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی لاہور میں وفات پاگئے۔ ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمر سے شعر و شاعری سے شغف تھا۔ ابتدا میں ناصر حجازی تخلص کرتے تھے۔ پھر ساغر صدیقی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ ساغر صدیقی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ بڑے زودگو تھے۔ کئی فلموں کے نغمات بھی لکھے مگر پھر درویشی کو اختیار کیا۔ وہ عموماً کسی قبرستان میں یا کسی مزار پر مجذوبوں کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ اسی ماحول میں انہوں نے گھٹیا نشے بھی کرنا شروع کردیے جس کے باعث ان کی صحت بہت جلد جواب دے گئی اور وہ فقط 46 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ساغر صدیقی کی شاعری کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں خشت میکدہ، لوح جنوں‘ شب آگہی‘ شیشہ دل‘ غم بہار‘ مقتل گلی اور زہر آرزو کے نام شامل ہیں۔ ان کا مدفن لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں ہے ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* نور محمّد نور کپورتھلوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ممتاز شاعر، ادیب ، ماہر لسانیات ، مؤرخ اور دانشور نور محمد نور کپور تھلوی نے ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء جمعہ کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے فیصل آباد (لائل پور) پاکستان میں اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے پناہ وادیوں کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ علم و ادب کا خورشید جہانِ تاب جو ۵/اگست ۱۹۱۷ء کو ہندوستان کے ضلع جالندھر کی ریاست کپور تھلہ کے ایک گاؤں نور پور راجپوتاں میں طلوع ہوا اور ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء کو فیصل آباد پاکستان میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ فیصل آباد کے نواح میں واقع ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب بابے دی بیر (براہ ڈجکوٹ) کی بے آباد زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ فرشتۂ اجل نے اس فطین، فعال، مستعد اور زِیرک تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ سات عشروں سے تخلیق ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کے دم سے ہمارے دل کی انجمن میں اُجالا ہوتا ہے۔ جب زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے پناہ وادیوں میں غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتیں اور جان لیوا سناٹے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں۔نورمحمد نور کپور تھلوی کے بچھڑنے سے شہرِ ادب ایک بزرگ اور کہنہ مشق شاعر کے وجود سے محروم ہو گیا ہے۔ بلاشبہ وہ خیر کی قدروں کے نقیب تھے اور بری قدروں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اور یہی ایک اچھے اور کھرے ادیب کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور غیروں کی خیر چاہے۔۔۔۔خیر ،امن اور سلامتی کے گیت گاتا چلا جائے’ یہی اُس کے اخلاص کی نشان دہی کرتی ہے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی کے فن آگاہ اور مزاج آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے ہر عہد اور ہر دور میں یہی رنگ بکھیرے اور اسی خوشبو کو عام کیا ۔ یہی دولت تقسیم کی اور اسی نور سے ظلمتوں کے خاتمے کی تمام تر کوششیں کیں۔ان کی ایک مشہور پنجابی نظم ’’دو نور جہاناں‘‘ (ملکۂ ہند تے ملکۂ ترنم) کا بڑا چرچا تھا۔ شعری نشست ہو یا کوئی نجی محفل۔۔۔۔یہ نظم ان سے فرمائش کر کے بار بار سنی جاتی۔ اوپر سے ان کے پڑھنے کا انداز اور بھی مزا دوبالا کر دیتاتھا۔
نور محمّد نور کپور تھلوی ایک ایسے کہنہ مشق اور قد آور شاعر ہیں جن کی شاعری خوش گوئی و دلآویزی اور متانت فکرو نفاست خیال کا جہان رنگ و نور ہے۔انصاف اور انسانیت کے لیے نور کپور تھلوی کی وابستگی کا شعلہ بے حد تابناک رہا ۔۔وہ ہمیشہ مرد مجاہد بن کر مردانہ وار ظلم کے خلاف لکھتا رہا۔
ان کے لوح مزار پر ان کا اپنا ہی شعر رقم ہے ۔۔۔
*ہیں سب نور ہم منتظر اس گھڑی کے
کسے موت سے اس جہاں میں مفر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*کوثر نیازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا کوثر نیازی فروری 1934ء میں موسی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ھوئے- ان کے والد کا نام فتح خان نیازی تھا- انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کانام محمد حیات خان رکھا- سکول کے زمانے میں محمد حیات خان کو شاعری کا شوق لاحق ھؤا تو انہوں نے اپنا قلمی نام کوثر نیازی رکھ لیا- اخبار کوثر کی ملازمت کے دوران جماعت اسلامی سے وابستہ ھو گئے- مولانا مودودی کے بہت قریب رھے- کچھ لوگوں کی سازشوں کی وجہ سے جماعت اسلامی سے استعفی دینا پڑا- اس اثنا میں وہ چوٹی کے صحافی کی حیثیت میں ملک بھر میں معروف ھو چکے تھے- بھٹو صاحب نے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تو پیپلز پارٹی سے وابستہ ھوگئے- بھٹو کی کابینہ میں چار سال تک وزیر مذھبی امور رھے- اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رھے- کوثر نیازی نے لاھور میں شام نگر اور راج گڑھ کے سنگم پر اپنا گھر بنا لیا تھا- تقریبا بیس سال اس گھر میں رھے- جب وفاقی وزیر بنے تو اسلام آباد میں گھر بنا کر وھاں منتقل ھوگئے-
کوثر نیازی کی شاعری کے تین مجموعے اور نثر کی چھوٹی بڑٰی چوبیس کتابیں شائع ھوئیں- ان کی سب سے مقبول کتاب “اورلائین کٹ گئی“ جنرل ضیاء کے مارشل لاء نافذ کرنے کی سنسنی خیز داستان ھے-
مرحوم زبردست خطیب بھی تھے-
19 مارچ 1994ء کو اپنی زندگی کا سفر مکمل کرکے اسلام آباد میں اس دنیا سے رخصت ھوگئے-
١٩٧٤ سے ١٩٩٧ کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ طاقت ور وفاقی وزیر تھے۔وہ اسلام آباد میں مدفن ہیں ۔۔ان کے لوح مزار پر ان کا اپنا نعتیہ شعر درج ہے ۔۔۔۔
کوثر ہے دل میں ایک ہی اعزاز کی ہوس
کہہ دیں وہ حشر میں کہ ہمارا غلام ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*پروین شاکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر اردو کی معروف شاعرہ ٢٢نومبر ١٩٥٢ کو کراچی مسن پیدا ہوئیں ۔۔”خوشبو ” سے “خود کلامی ” تک کا پروین شاکر کی شاعری کا سفر کتنے متنوع تجربات،سوچ کی کتنی دیدہ جہتوں اور حسن اظہار کے کتنے تیوروں سے آراستہ ہے ۔۔29 دسمبر ١٩٩٣ کی ایک دھندلی صبح ٹرافک کے حادثہ کا شکار ہو گئیں ۔۔وہ اسلام آباد میں ہی مدفن ہیں ۔۔۔۔ان کے لوح مزار پر ان کے اپنے اشعار رقم ہیں ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھولا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر تو جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*احمد فراز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد فراز (1931-2008)پاکستان کے ایک ممتاز و معروف شاعر ہیں۔ ان کی ہم رنگ و ہمہ گیر طبعیت نے کسی خاص رنگ سخن پر قناعت نہ کر کے مشاہیر شعراءے متقدین و متاخرین میں سے ہر ایک کے انداز سخن کا پسندیدہ نمونہ پیش کیا ۔۔ان کی شاعری غم دوراں اور غم جاناں کا حسین سنگم ہے ۔۔وہ اسلام آباد میں آسودہ خاک ہیں۔ ۔ان کی لوح مزار پر یہ شعر رقم ہے ۔
میں کہ صحراے محبّت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
….
*ہادی مچھلی شہری کے لوح مزار کے لئے خود ان کے اپنے لکھے ہوئے شعر
اک کھلونا ٹوٹتے جس کو نہیں لگتی ہے دیر
زندگی کیا ہے فقط ترکیبِ آب و گلِ کی بات
عہدِ پیری تک تھیں جتنی منزلیں سب آگئیں
رہ گئی ہے اب تو ہادی آخری منزل کی بات
…….
* حفیظ ہوشیار پوری کی قبر کا کتبہ ہے:
سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہو گئے
بارِ امانتِ غم ہستی اُتار کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*احمد ندیم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء)
زندگی سے بھرپور ہمہ جہت ادبی شخصیت، احمد ندیمؔ قاسمی بیک وقت ایک عظیم شاعر بھی ہیں اور بے حد معروف، بلند مرتبہ ادیب بھی۔ اُن کی غزلوں، نظموں، نعتوں، قومی و ملی نغموں، افسانوں، ناولٹ، شخصی خاکوں، فکاہی، ادبی و معاشرتی کالموں، بچوں کا ادب (نظمیں، کہانیاں، ڈرامے)، تبصروں، مختلف نوعیت کے مضامین، انٹرویوز، اداریوں، ادارتوں کو اُردو ادب میں منفرد حیثیت اور اعلی مقام حاصل ہے۔ ندیمؔ کے فن پاروں کی بڑی پہچان اُن کی انسان دوستی، روشن خیالی اور نیک نیتی پر مبنی پُرخلوص، ہمدردانہ سچی تڑپ کی انفرادیت میں ہے۔ اُن کے یہاں احساس کی گہرائی اور مربوط و مستحکم فکر کی وسعت بھی ہے۔ یوں وہ نفیس احساس اور مضبوط افکار کا دلکش اور پرکشش سنگم، متاثر کن انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ ندیمؔ رومانوی انقلابی آرزومندی سے آغاز کرتے ہوئے حقیقت و صداقت پسندی کو اپنا لیتے ہیں۔ طرزِ ادا ایمائیت و اشاریت کے باوجود واضح ابلاغ کی حامل ہے۔ پُرتاثیر اندازِ بیان میں بے ساختگی، سادگی، روانی اور تازگی ہے۔ جبکہ جراتِ افکار و اظہار کی گہری معنویت نمایاں وصف ہے۔ ندیمؔ مجموعی طور پر زندگی کی روشنی، عقل و دانش، جرات و صداقت اور اُمید و جستجو کے شاعر اور ادیب ہیں۔ اُن کی شاعری اور افسانوں میں موضوعات کا حیران کن اور بے مثال تنوع ہے۔ وہ سبھی انسانوں کیلئے خیر و خوبی کے خواہاں ہیں اور ہمیشہ مثبت امکان سے وابستہ رہتے ہیں۔ اُن کے فن میں جدت پسندی بھی ہے جبکہ مشرقیت و وطنیت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔ انسان اور اُسکی انسانیت سے محبت اُن کے فن پاروں کو عالمگیریت و آفاقیت دے دیتی ہے۔ اُن کی ڈکشن اپنے ہم عصر شعراء سے مختلف ہے۔ان لوح مزار پر ان کا یہ شعر رقم ہے۔
* میں مر بھی جاؤں تو تخلیق سے نہ باز آؤں
بنیں گے نت نئے خاکے میرے غبار سے بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*قیس سہارنپوری :
اے قیس میری قبر کسی کی عطا نہیں
دے کر متاعِ زیست ملا ہے یہ گھر مجھے
…..
میں بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
(وفات :8نومبر 2002ء قبر ،جون ایلیا )
…….
کہتا ہوں __ ایک بات بڑی مختصر سی ہے
جھک کر چلو حیات بڑی مختصر سی ہے
(وفات: 1987ء قبر: سید محمد حسن نقوی ،شاعر)
…….
اک پتنگے نے یہ اپنے __ رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
( قبر: سلیم احمد ،ڈرامہ نگار، شاعر)
……
جاتے ہوئے کہتے ہوقیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
(وفات: 27اکتوبر 1968ء قبر: سید رئیس احمد جعفری)
……………….
شاید ہی ہم سا کوئی پرستارِ حسن ہو
خود ہم بکھر گئے تیری زلفیں سنوار کے
(وفات :29مئی 1986 ء قبر: ابومسلم صحافی ادیب)
………………..
جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے
حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
……..
ہندوستان کے بادشاہ جہانگیر کی بڑی صاحبزادی اور ممتاز محل کی شہزادی جہان آراء بیگم جنکی آخری آرام گاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کےاحاطے میں ہے ۔ ایک فارسی گو شاعرہ اور مصنفہ تھیں ۔انکی قبر کی لوح پر یہ شعر درج ہے ۔
بغیر سبزہ نپوشد کسی مزارمرا
کہ قبر پوش غریباں ھمین گیاہ بس است
یعنی ،
صرف سبزہ ہی میری قبر کی چادر ہو
ہم غریبوں کے لیئے یہ بھی بہت کافی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام رسول مہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام رسول مہر معروف ادیب ، صاحب طرز انشا پرداز، مؤرخ، مترجم ،نقاد اور غالب شناس تھے۔13 اپریل 1895ء کو پھول پور جالندھر میں پیدا ہوۓ ۔انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ شروع میں زمیندار اخبار اور پھر مولانا عبد المجید سالک سے مل کر روزنامہ انقلاب کا اجراء کیا ۔روزنامہ انقلاب کے بند ہونے کے بعد انھوں نے ساری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی ۔مولانا غلام رسول مہر نے مذہب، تاریخ، سیاست، تہذیب اور سیرت نگاری پر سو سے زائد کتب چھوڑی ہیں ۔خصوصا غالب اور اقبال کے حوالے سے ان کی ادبی حیثیت تسلیم کی جاتی رہی ہے ۔انھوں نے غالب پر ایک اہم کتاب لکھی جس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔اس کے علاوہ انھوں نے ” بانگ درا “، بال جبریل “، ضرب کلیم “، کے محتویات پر گہری تجزیاتی نظر ڈالی ہے ۔مولانا غلام رسول مہر ایک اچھے صحافی ، ماہر غالبیات اور فدآئے اقبال تھے ۔انھوں نے 16/ نومبر 1971ء کو لاہور میں وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوۓ ۔ان کے لوح مزار پر ان کے اپنے یہ اشعار کندہ ہیں ۔
بهروسا تو ہے اے جان کریمی
نہ ٹوٹے تیرا پیمان کریمی
جہاں میں دو سمندر بیکراں ہیں
میرے عصیاں تیری شان کریمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ناصر کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر جدید کہلانے والےعہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ آٹھ دسمبر سن انیس سو پچیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنی سینتالیس سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سنساتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا۔ اُن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔ ان کے لوح مزار پر ان کا یہ شعر رقم ہے۔
* قائم آباد رہے گی یہ دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتیل شفائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتیل شفائی پاکستان کے نامور شاعر اور نغمہ نگار تھے ان کا اصل نام اورنگزیب تھا ۔وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ہری پور ہزارہ میں 24 دسمبر 1919ء کو پیدا ہوئے اور 11 جولائی 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔فلمی نغمہ نگاری میں انہوں نے ایک معتبر مقام حاصل کیا۔ پاکستان کی پہلی فلم “تیری یاد” سے نغمہ نگاری کا آغاز کیا اور اڑھائی ہزار سے زائد نغمے لکھے ۔وہ اگرچہ غزل کے شاعر تھے مگر ان کی پہچان نغمہ نگاری ٹھہری ۔ان کی شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے جن میں ہندی ،گجراتی، انگریزی ، چینی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔قتیل شفائی کو 1994ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے “پرائیڈ آف پرفارمنس” ایوارڈ سے نوازا گیا۔ان کی بیس تصانیف شائع ہو چکی ہیں ۔ہریالی ، گجر ، جلترنگ ، روزن ، جھومر ، مطربہ ، چھتنار ، گفتگو ، آموختہ ، ابابیل ، برگد ، گھنگرو ، سمندر میں سیڑھی ، پھوار ، صنم ، پرچم اور گھنگرو ٹوٹ گئے(آپ بیتی) شامل ہیں ۔وہ علامہ اقبال لاہور کے کریم بلاک کے قبرستان میں مدفون ہیں ان کے لوح مزار پر ان کا شعر کندہ ہے ۔
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ڈاکٹر شوکت علی قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی زبان کے ممتاز شاعر ، محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر نے 8/ اپریل 2016ء کو زینہ ٔ ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی تحقیق و تنقیدکی درخشاں روایات کا علم بردارفطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیااُٹھا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔۔ 4/ نومبر 1950ء کو ملک رمضان علی امرتسری اور معراج بی بی کے گھر لائل پور (فیصل آباد ) کے محلہ خالصہ کالج ، پرانی آبادی میں شوکت علی کے نام سے ایک ایسا آفتاب جہان تاب طلوع ہوا جس نے عالمی ادبیات کو اپنی خوبصورت تحریروں ، پر فکر سوچوں اور خیالوں سے روشن کر کے 2016ء کو عدم کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔۔محلہ شریف پورا فیصل آباد کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسماں کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے جس نے کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے عام ورکر سے ترقی کر کے علم و ادب کی دنیا میں ایک نام پیدا کیا۔ڈاکٹر شوکت علی قمر کامیابیوں کے زینے چڑھتے گئے ۔۔۔اسسٹنٹ پروفیسر کے بعد ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر انھوں نے پنجابی زبان و ادب کے لیے بھر پور کام کیا ۔۔ان کی محنت بار آور ثابت ہوئی اور اللہ رب العزت کے فضل سے ان کو پروفیسر کے عہدہ پر ترقی دی گئی اور اس لحاظ سے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی میں پنجابی کے پہلے پروفیسر اور
چیئر پرسن ہونے کا اعزاز بھی انھی کے حصہ میں آیا ۔۔۔۔
شوکت علی قمر ایک ہمہ وقت متحرک رہنے والے ادیب تھے ۔روزانہ کے حساب سے وافر مقدار میں ان کے خطوط ادبی شماروں کے ایڈیٹر وں کو جاتے اور روزانہ کی بنیاد پر خطوط آتے تھے ۔
معروف محقق اور نقاد ڈاکٹر شبّیر احمد قادری ان کی شخصیت اور فکر و فن پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔
“ڈاکٹر شوکت علی قمر کے ساتھ برسوں گورنمنٹ کالج فیصل آباد پھر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں وقت گزارنے کا موقع ملا ،سٹاف روم ،ٹی کلب اور ان کے دفتر شعبہ پنجابی میں بہت طویل رفاقتیں رہیں ،مرنجاں مرنج شخص تھے ، لطیفے سنتے سناتے ۔ مجھ سے برسوں پہلے روزنامہ” عوام” فیصل آباد کے پنجابی صفحے کے انچارج تھے ،مدیر عوام قمر لدھیانوی کے شاگرد تھے ،بانی عوام خلیق قریشی مرحوم کے بہت مداح تھے ،نادر جاجوی مرحوم سے بھی اصلاح لیتے تھے ۔ان سے انٹرویو بھے لیے اور ان کی کتابوں بر اپنے تاثرات قلم بند بھی کیے ۔پنجابی زبان کے سچے محب تھے۔غزلوں نظموں کے ساتھ ساتھ نثر بھی بہت لکھی ، جی سی یو فیصل آباد سے انھوں نے ان گنت نئے چراغ روشن کیے اور نسلِ نو میں اپنی ماں بولی سے محبت کا شعور اجاگر کرنے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ان کی پنجابی تخلیقات کے دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔”
ان کے لوح مزار پر ان کے پنجابی کے یہ اشعار کندہ ہیں ۔
* بکلاں چپ چپیتیاں مار کے تے
خبرے اوہ لوکی کیہڑے دیس ٹر گئے
کنجی نرم زبان دی لا کے تے
جیہڑے دلاں دے جندرے کھول دے سن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بشیر حسین ناظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشیر حسین ناظم پاکستان کے نامور عالم ، محقق، نقاد، شاعر، دانشور، مصنف، صحافی، مترجم اور نعت خواں 25 اکتوبر 1932ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں وہ میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کے برادرِ خرد میاں غلام اللہ ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے برصغیر کے عظیم محدث سید البرکات علیہ الرحمہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ مختلف زبانوں میں ایم۔اے کے امتحانات پاس کئے، قانون کی ڈگری حاصل کی اور اعلیٰ نمبروں سے پی سی ایس کا امتحان پاس کیا۔
بشیر حسین ناظم کو اردو، فارسی، عربی، انگریزی ، پنجابی، سرائیکی اور ہندی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ نعت گوئی اور نعت خوانی انکا خاصا تھا۔غالب نعت ، اقبال شناس ، پنجاب کا سچل سر مست ، بلبل ہزار داستاں جیسے القابات بھی بشیر حسین ناظم کے حصہ میں آئے ۔17 جون 2012ء بمطابق 26 رجب المرجب 1433ھ شب معراج کی نورانی رات کو انتقال فرما گئے ۔سی ڈی اے کے قبرستان واقع سیکٹر ایچ- 11 میں بشیر حسین ناظم کے حصہ میں پلاٹ نمبر 22 کی قبر نمبر 118 آئی ۔۔۔۔۔۔ان کے لوح مزار پر یہ شعر کندہ ہے ۔
تا ابد سید عالم کی ثناء میں ناظم ہو گی
مٹی بھی میری نعت سرا میرے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*دلشاد احمد چن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلشاد احمد چن ( 1944۔۔ 2013) کا تخلیقی سفر ایک جہد مسلسل ہے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ قریب سے دیکھا، پڑھا اور محسوس کیا اُسے اُسی شدت سے پڑھنے والے تک پہنچا دیا۔ اُن کے شعروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھا اور سچا شعر وہی ہوتا ہے جو اُس لمحے کو گرفت میں لے لیتا ہے جب وہ نازل ہوتا ہے۔ دلشاد احمد چن نے ایسے کتنے سینکڑوں لمحات شعروں میں گرفتار کر رکھے ہیں۔ یہ لمحے اُس عہد کی کہانی پیش کرتے ہیں جو دلشاد احمد چن کا عہد ہے۔ آپ کا عہد ہے۔ میرا عہد ہے۔ جنہیں ہم کمزور اور بے بس طبقہ کہتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے کہتے ہیں۔ جنہیں بے زمین کہا جاتا ہے۔ دلشاد احمد چن نے اِن محروم طبقے کو تاریخ کے اوراق میں مزین کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ہم نہیں ہوں گے یہ عہد نہیں ہو گا تو دائم آباد رہنے والی دُنیا اور ہم جیسے کئی دلشاد احمدچن کے شعروں میں ہمیں اپنے شُعلے برساتی آنکھوں اور تمتاتے چہروں کے ساتھ سجے دیکھیں گے۔غلام۔ محمّد آباد فیصل آباد کے قبرستان میں مدفن ان۔ کی قبر کے کتبے پر ان۔ کے اپنے پنجابی اشعار رقم ہیں۔
*اوھنے حشر وچ آونا اے کم تیرے
بھٹھ نیکیاں دا جیہڑا پتھ جانا
اوسے پیا نے رکھنی لاج تیری
پا کے جیھدے سہاگ دی نتھ جانا
نشہ دولت دا پل دو پل دا اے
اینے وانگ شراب دے لتھ جانا
چن کجھ وی نہیں جانا نال تیرے
خالی ہتھ آئیوں خالی ہتھ جانا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*نادر جاجوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد سے متعلق جدید اردو شاعری میں نادر جاجوی ایک مضبوط ، پختہ فکر اور جانی پہچانی آواز تھی ۔ان کے ہاں استادانہ شکوہ اور کلاسک کی سی رفعت خیال پائی جاتی تھی ۔بندش الفاظ و تراکیب کے ماہر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی غزل کا خمیر میر درد ، میر تقی میر ،سودا، مصحفی ،داغ ،ذوق، اور مرزا غالب کی روایت سے اٹھایا ہے ۔جانشین مرزا ، داغ دہلوی اور علامہ نوح ناروی کے لائق ترین تلامذہ میں سے ہیں ۔ہر صنف سخن پر مہارت نامہ رکھتے تھے ۔ان کے ہاں مضامین آفرینی کے بہت نادر نمونے ملتے ہیں۔ دلکش اور دل موہ لینے والے انداز میں بلند پایہ مضامین بیان کرتے تھے ۔زبان کی نزاکتوں سے مکمل واقف و آشنا اور الفاظ کی نشست و برخاست سے مکمل آگاہ تھے ۔۔قدرت نے انھیں زبان کی مہارتوں کا خاص ملکہ عطا کیا ہوا تھا ۔۔
نادر جاجوی 6/ ستمبر 1934ء پنجاب کے ایک قدیم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ (پاکستان) میں چودھری غلام محمّد کے گھر پیدا ہوۓ ۔
انسانی کردار اور عظمت کا پیکر یہ مخلص ،درد آشنا اور وضع دار انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ایسے نایاب اور وضع دار لوگ مُلکوں مُلکو ں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے
۔ علم و ادب کی یہ قندیل 15 مارچ 2013ء کو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ۔۔آپ کو منصور آباد ، فیصل آباد کے شہر خاموشاں نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔آپ کی مرقد پر یہ اشعار کندہ ہیں۔
*جو سمجھ سکے نہ کوئی وہ مقام مصطفی ہے
وہ بشر تو ہے یقینا ہر بشر سے ماورا ہے
میں غریب شہر نادر تری اس عطا پہ خوش ہوں
وہی کیف کا بدن ہے، وہی درد کی دوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بری نظامی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بری نظامی (1937-1997)گیت نگاری کے حوالے سے ایک معروف نام ہے۔
بری نظامی کے لکھے ہوئے نغموں نے نصرت فتح علی خان کے فن کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا- وہ خود تو غریب تھا، غریب ہی مرا، لیکن اس کانام اس کے گیتوں کے باعث امر ہو گیا- اس کے دلگداز گیت ’’کسے دا یار ناں وچھڑے ‘‘نے تو سارے پاکستان کو رلا دیا تھا- بے پناہ درد ہے اس کے الفاظ میں بھی اور نصرت فتح علی کے انداز میں بھی- عطا اللہ خان عیسی خیلوی کی آواز میں بھی بری نظامی کا ہر گیت بے پناہ مقبول ہوا-۔قوالی ۔۔مست مست دم مست مست کو نصرت فتح علی خان نے گا کر گیت اور گیت نگار دونوں کو امر کر دیا ۔کدی کدائیں دنیا اتے بندہ کلا رہ جاندا اے اپنے غیر وی بن جاندے نیں بس اک اللہ رہ جاندا اے۔ فیصل آباد میں سمن آباد کالجز روڈ کے خموشاں میں ان کی قبر پر ان قوالی اور ایک گیت کے بول درج ہیں۔
*مست مست دم مست مست ۔۔۔۔اور کدی کدائیں دنیا تے بندہ کلا رہ جاندا اے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*احمد شہباز خاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شہباز خاور (1959-2019) ان ادبی شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے مختلف ادبی اصناف میں اظہار_خیال کیا۔اردو اور پنجابی زبان میں بہت کچھ لکھا۔ آپ کی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں ، شاعری کے علاوہ ، افسانہ اور ڈرامہ نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔ اردو اور پنجابی زبانوں میں نعت کہنے کی سعادت بھی میسر رہی۔۔ جامعہ سلفیہ دار العلوم روڈ فیصل آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک اس شاعر کے لوح مزار پر ان کا اپنا پنجابی نعتیہ شعر درج ہے ۔۔
*لباں تے تذکرہ ہووے سدا آقا ؤ مولا دا
اساڈی قبر دے وچ وی ضیاء سرکار دی ہووے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*سلیم بیتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد سے متعلق ممتاز شاعر سلیم بیتاب نے 1974 میں زینہ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہوکر رخت سفر باندھ لیا ۔علمی و ادبی روایات کا علم بردار فطین ادیب جواں عمری میں ہماری بزم وفا سے کیا گیا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔۔سلیم بیتاب کا شمار حریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا تھا جنہوں نے زندگی بھر حرف صداقت لکھنا اپنا دستورالعمل بنایا ۔۔ظالم و سفاک موذی و مکار استحصالی عناصر سے اسے شدید نفرت تھی ۔۔انسان کی توہین، تذلیل، تضحیک اور توقیری کے مرتکب زمین کے ہر بوجھ پر لعنت بھیجنا ان کا شعار تھا ۔۔۔سلیم بیتاب جنہوں نے صرف 34برس کی عمر میں ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا لیاتھا ۔ 1940ء کو ہندوستان کے ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے سلیم بیتاب نے بڑی فکر انگیز شاعری کی۔ ان کی شاعری میں کمال کا تنوع ملتا ہے۔ ان کا رومانوی لہجہ بھی سب سے الگ تھلگ ہے۔ ویسے تو ان کی شناخت ان کا ایک شعر ہے
*میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی
سلیم بیتاب کو زندہ رکھنے کیلئے یہی ایک شعر کافی ہے لیکن ایسا کہنا مناسب نہیں۔ اس شعر کے علاوہ بھی انہوں نے کئی خوبصورت اشعار کہے۔
سلیم بیتاب نے جتنی عمر پائی، یقین نہیں آتا کہ ان کی شاعری کا کینوس اتنا وسیع ہو سکتا ہے۔ اگر عمر وفا کرتی تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شعری عظمت میں مزید اضافہ ہوتا۔ سلیم بیتاب کی شاعری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کے بعض اشعار کا پہلا مصرعہ ہی چونکا دینے والا ہوتا ہے اور قاری واہ واہ کر اٹھتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کی قوت اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے جو اس حقیقت کا غماز ہے کہ ان کے فکر کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر عامیانہ پن کا احساس نہیں ہوتا۔کبھی ان کے خیال کی ندرت، کبھی ان کی تاثریت اور کبھی ان کا اسلوب قاری کو متاثر کرتے ہیں۔
سلیم بیتاب کی شاعری میں لطافت‘ سلاست اور سادگی ہے۔۔سلیم بیتاب اپنا پہلا مجموعہ کلام 1973ء میں ” لمحوں کی زنجیر ” کے نام سے سے منصہ شہود پر لائے جسے ملک کے ادبی حلقوں کی طرف سے بے حد سراہا گیا اور جب وہ اپنا دوسرا شعری مجموعہ ” ہوا کی دستک ” لانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ موت نے آن لیا اور یوں پاکستان رائیٹرز گلڈ کا کنوینئر اور انجمن لائل پور کا صدر ۔۔۔۔۔۔بیوی بچوں اور دوستوں کو وراثت میں ” ہوا کی دستک ” کا مسودہ دے کر 34 سال کی عمر میں 20 جولائی 1974 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا ۔۔۔۔
وہ پیپلز کالونی نمبر1 فیصل آباد کے شہر خاموشاں میں مدفون ہیں۔ان کے لوح مزار پر ایک مرحوم شاعر دوست ڈاکٹر احسن زیدی کا منظوم نذرانہ کندہ ہے۔
*آں کہ داشت فکر و طبع سلیم
یعنی بیتاب شاعر عصری
آں سراپا نیاز و خوش عصری
پیکر صدق و راحت قلبی
ناگہاں حیف بست رخت سفر
سوئے جنت شدہ بے صبری
از سر آہ آہ گفت سراج
بافت آگوش رحمت ابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ناز خیالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناز خیالوی ایک شاعر، نغمہ نگار اور ریڈیو براڈکاسٹر تھے؛ جو اپنی ایک صوفیانہ نظم “تم اک گورکھ دھندا ہو“ کی حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ یہ نظم مشہور قوال نصرت فتح علی خان کے گانے کے بعد مشہور ہوئی۔ناز خیالوی کا نام محمد صدیق تھا ۔وہ “جھوک خیالی” نامی ایک گاؤں394 گ ب میں 1947ء میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انھیں خیالوی کہا جاتا ہے۔جھوک خیالی گاؤں ضلع فیصل آباد، صوبہ پنجاب، پاکستان میں تاندلیانوالہ کے نزدیک واقع ہے۔
وہ شاعر مزدور’ احسان دانش کے شاگرد تھے۔
ان کا ذریعہ معاش فیصل آباد ریڈیو سے نشر ہونے والا ایک پروگرام “صندل دھرتی“ تھا، جس کی میزبانی وہ 27 برس تک کرتے رہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں میں نغمے لکھے۔ ان کی کچھ نظمیں عطاء اللہ نیازی نے بھی گا رکھی ہیں۔ان کی شاعری دو مجموعوں پر مشتمل ہے
: *تم اک گورکھ دھندا ہو (اردو)’
‘* سائیاں وے (پنجابی)
انہوں نے شادی نہیں کی اور 12 دسمبر 2010ء کو ماموں کانجن (پنجاب) میں وفات پائی۔
ان کی مرقد پر ان کے اپنے یہ اشعار کتبہ کےشروع اور آخر پر لکھے ہوۓ ہیں ۔
*لئے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل
شہید ناز کی تربت کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ایک دن وہ ساتھ لے کر چند دوست
تربتیں یوں کہہ کر دکھلاتے رہے
اس میں مجنوں اور اس میں کوہ کن
عاشقان ناز تھے ، جاتے رہے
بعد اس کے پھر ہماری قبر پر
دیر تک افسوس فرماتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*رشید ہادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر اور صحافی محمد رشید ہادی 10/دسمبر 1948ء کو حافظ علی محمّد کے گھر لائل پور (فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور 6/ جون 2006ء بروز جمعۃ المبارک انتقال کر گئے۔پریمیئر ملز ملحقہ ایوب کالونی فیصل آباد کے شہر خاموشاں کی سرزمین نے نعت گوئی کے آسمان کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا لیا۔فیصل آباد کو شہر نعت کا شرف بھی رب کریم کی خاص عطا ہے یہاں لفظوں کی کان کنی کرنے والے ہر شخص کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ بارگاہ کرم اور لطف و عنایت کے بازار رحمت میں اپنے لفظوں کو اپنی ہمت و استقامت کے ہاتھوں میں پرو کر اس بازار میں پہنچ تو جائے اور یہ اسی کا کرم ہے کہ جوں کا توں ضرور جاتا ہے۔محمد رشید ہادی شہر نعت فیصل آباد کے ممتاز اور منفرد نعت گو شاعر تھے وہ ایک عرصے سے شہر مداح رسول کے مکین رہے ۔فصیح اللسان اختر سدیدی اور مداح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محمد علی ظہوری قصوری سے ان کا سالہا سال تک قریبی تعلق رہا ہے۔ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ 1984ء میں “جمال مدینہ” کے نام سے منصئہ شہود پر آیا۔پھر غم روزگار کے شکنجے میں وہ ایسا جکڑے کہ 2000ء تک چند نعتیں کہہ سکے n۔b۔۔چنانچہ ان کا دوسرا نعتیہ مجموعہ “بہار گنبد خضرا” 2000ء چپ کر منظر عام پر آیا ۔رشید ہادی کی عوامی نعت میں نعتیہ شاعری کا ہر رنگ اور ہر ذائقہ موجود ہے لیکن ان کی نعت کا غالب رنگ حاضری کی حسرتوں کیفیتوں اور مشاہدات پر مبنی ہے جو نعت کو ایک دلکش موضوع بناتا ہے۔رشید ہادی کو بہت بار حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہو چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*عادل صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل صدیقی کا اصل نام محمد شبیر صدیقی تھا۔انھوں نے 5 دسمبر 1954 کو موضع چوہان (برہان پور) تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں عبدالعظیم صدیقی کے گھرآنکھ کھولی ۔ ایم -اے پنجابی کیا اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے ۔گوجرانوالہ ڈویژن کے مختلف کالجز میں پنجابی کے استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ۔گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں صدر شعبہ پنجابی ،گورنمنٹ انٹر کالج میترانوالی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں پرنسپل، گورنمنٹ کالج سیٹیلائٹ ٹاون گوجرانوالہ اور گورنمنٹ ڈگری کالج پسرور ضلع سیالکوٹ میں بھی خدمات انجام دیں ۔2003 میں آپ نے ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کی زیر نگرانی پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھا ۔جس کا عنوان تھا”مولا بخش کشتہ،شاعر تے نثرنگار”۔
عادل صدیقی اردو اور پنجابی کے کہنہ مشق شاعر تھے۔آپ کو دونوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا ۔لیکن آپ کی وجہ شہرت آپ کا پنجابی کلام ہے۔آپ کے تخلیقی سفر کا آغاز 1975 میں ہوا۔سائیں محمد حیات پسروری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔انہوں نے جنوری 2019ء کو انتقال فرمایا ۔ان کی مرقد کے کتبہ پر یہ شعر تحریر ہے ۔
*اوہنوں ڈر نہیں آؤندا قبر دے نھیرے توں
جہنے جگ تے لو ورتائی ہوندی اے
(تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔