پاکستانی صحافت پر میرا نقطہ نظر
آج کی انسانیت عالمی دنیا کا حصہ ہے,اس گلوبل ورلڈ میں ہر طرف عالمی معلومات کی بھرمار ہے,انسان کچھ نہ کچھ پڑھ رہا ہے،جو نہیں پڑھ رہا ،وہ ٹی وی پر کچھ نہ کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے ۔اور جو دیکھ نہیں رہے, وہ کچھ نہ کچھ سن رہے ہیں ۔دنیا اس وقت معلومات کی جھنم میں غرق ہے۔ان معلومات ،خبروں ،تجزیوں ،تبصروں ،ٹی وی شوز اور افواہوں سے کوئی محفوط نہیں ہے ۔اگر آج کی جرنلزم کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ جدید دنیا کی جرنلزم میں حقائق کو افواہوں کی شکل میں اور افواہوں کو حقائق کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ۔جرنلزم کمرشل اور منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اور یہ کاروبار پاکستان میں دن دگنی رات چگنی ترقی کررہا ہے ۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بیمار اور جاہل جرنلزم کا دور دورہ ہے، صحت مندانہ صحافت تقریبا انتقال کر چکی ہے۔جب صحافت منافع بخش کاروبار بن جاتی ہے تو پھر اس سے کسی قسم کی بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے ۔جب جرنلزم بزنس بن جائے تو پھر وہ ملک کے لئے ایک عظیم کردار ادا نہیں کرسکتی ،اب یہ ایک بزنس ہے اور ہر کوئی اسے بزنس کی طرح ڈیل کررہا ہے ۔جس کی ریٹنگ اچھی وہی نمبر ون ۔جب سے صحافت نے بزنس کا روپ دھاڑا ہے تب سے یہ ادارہ پاکستان میں سب سے بدعنوان ادارہ بن چکا ہے ۔پاکستان میں سب سے بدعنوان کوئی پروفیشن ہے تو اس کا نام صحافت ہے ۔جاہلوں نے پاکستان میں اس مقدس پروفیشن کو بدکردار بنادیا ہے، جرنلزم ایک عظیم انقلاب کا نام ہے ۔یہ صرف پروفیشن نہیں ۔اور جرنلسٹ ایک باغی اور انقلابی ہوتا ہے ۔جو دنیا کو بہتر اور باشعور دیکھنا چاہتا ہے ۔صحافی اسے کہا جاتا ہے جو کرپشن ،بے ایمانی ،جہالت اور غربت وغیرہ کے خلاف قلم ،زبان اور علم و فکر سے لڑتا ہے، اس ملک میں کئی منافع بخش کاروبار ہیں ،کم از کم صحافت کو تو کاروبار نہیں بنایا جانا چاہیئے تھا ۔میں نے کہا بابا ،صرف صحت مندانہ جرنلزم کی وجہ سے انسان کی نشوونما ہوتی ہے ۔صحت مندانہ صحافت کی وجہ سے انسان کے جسم ،دماغ اور روح کو انقلابی اور باغیایہ کیفیت نصیب ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے انسان بے انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھرا ہوتا ہے ۔جرنلزم کی تمام تشویش یہ ہوتی ہے کہ بہتر اور ترقی یافتہ انسانیت کس طرح پیدا کی جائے ۔لیکن یہاں پاکستان میں اس کا مقصد یہ ہے کہ کس طرح انسانیت کو جاہل ،بے وقف ،گھٹیا اور تماش بین بنایا جائے ۔جرنلزم کسی رپورٹ ،کسی نیوز پیکج کا نام نہیں ہے ۔صحافت تو ایک خوبصورت لٹریچر ہے ۔ایسا ادب جس کی وجہ سے معاشرے اور ملک میں صحت مندانہ رویہ پیدا ہونا چاہیئے ۔لیکن جب سے یہ بزنس میں تبدیل ہوئی ہے اس وقت سے اس کی شکل بدل گئی ہے ۔اب صحافت میں ادب کی جگہ بے ادبی نے لے لی ہے اور علم و فکر کی جگہ جہالت اور کمینگی نے لے لی ہے ۔اب جرنلزم لمحاتی ہو گئی ہے ۔جرنلزم کا پیٹ یہاں ایسی خبروں اور رپورٹوں سے بھرا جاتا ہے جس مین زہر ،درندگی ،افواہیں ہوتی ہیں ۔غیر ضروری اور ثانوی خبروں کو اہم بناکر کاروباری فوائد کی خاطر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔بھائی اس ملک میں شاعر ہیں ،پینٹرز ہیں ،رائیٹرز ہیں ،روحانیات کے مفکرین ہیں ،لبرل عالم ہیں ،کیا کبھی ان کو میڈیا نیوز چینلز یا اخبارات یا میگزین وغیرہ میں نمایاں انداز میں متعارف کرایاجاتا ہے ۔کیسے ان کو سپیس دی جائے ،ان سے ریٹنگ نہیں آتی ،یہ بزنس کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔ریٹنگ تو ریپ کی خبر کی آتی ہے ،سنسنی خیزی سے آتی ہے ۔صحافت میں جرنیلوں ،کورکمانڈرز ،چیف آف آرمی اسٹاف ،جی ایچ کیو ،سیاست اور سیاستدانوں کو سب سے آخر میں ترجیح دی جانی چاہیئے ۔لیکن پاکستان کے نیوز چینلزاور اخبارات وغیرہ ان طاقتوروں کو ہر روز خدا بناکر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔جب عمران خان ،نواز شریف ،قمر جاوید باجوہ ،زرداری کو عوام کے سامنے خدا بناکر پیش کیا جائے گا تو پھر یہ ملک جہنم کا منظر تو پیش کرے گا ۔پاکستان ان سیاستدانوں ،جرنیلوں اور مولویوں کی وجہ سے جھنم جیسا بن گیا ہے ۔ہمارا میڈیا انہی کو اہم ترین بناکر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے ۔کوئی ملک کا صدر ہے ،کوئی آرمی چیف ہے یا وزیر اعظم یہ اہم نہیں ۔سوال یہ ہے کہ وہ کتنا عظیم ہے اور اس کی کیا خصوصیات ہیں ۔یہ صحافی عوام کو نہیں بتاتے ،کیوں اس سے کاروبار کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔پاکستانی صحافت میں انسانوں کی خصوصیات پر باتیں نہیں کی جاتی،یہاں نیوزچینلز اور اخبارات وغیرہ میں شخصیات پر وقت برباد کیا جاتا ہے ۔بھائی وہ وزیر اعظم ہے ٹھیک ہے ۔اس نے ملک کے لئے کیا کیا؟اس کی کیا صلاحتیں ہیں؟یہ کیوں نہین بتاتے ؟ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے ،غربت بڑھ رہی ہے ،بے روزگاری بڑھ رہی ہے ،پانی کا بحران آنے کو ہے ،صحت اور تعلیم کا بحران ہے ۔غریب خودکشیاں کررہے ہیں ،کیوں نیوز چینلز میں ان خبروں کو نمایاں کوریج نہیں ملتی ؟عوام کے مسائل کیوں نہیں بتائے جاتے؟کیا حقائق ہیں اور کیا سچ پاکستان کی صحافت میں اس پر بات نہیں کی جاتی کیونکہ یہ بزنس کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔پاکستان میں صحافی ان لوگوں کو اہمیت نہین دیتے جو مقاصد کی خاطر لڑرہے ہیں۔جو غیر مقبول ہیں لیکن پھر بھی انسانیت کی بہتری کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔کیا ملک ہے جہاں صحافی خوبصورت اور مثبت خبروں کو منہ نہیں لگاتے ۔حقیقت پسندی پر مبنی رپورٹیں نہیں آن ائیر کی جاتی ۔بھائی منفی پہلووں کے ساتھ ساتھ مثبت اور خوبصورت پہلوو بھی ہوتے ہیں ۔پاکستان کی صحافت منفیت ،سنسنی خیزی اور پروپگنڈہ سے پیدا ہوئی ہے ۔اس لئے ہر نیوز چینل اور ہر اخبار منفی پہلو کو سامنے لاتا ہے ۔پروپگنڈے اور سنسنی خیزی پھیلانا ہر نیوز چینل کے لئے اہم ہے کیونکہ ریٹنگ تو اسی سنسنی خیزی اور بیہودگی سے آنی ہوتی ہے ۔میری پاکستان کے صحافیوں اور صحافت کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے ۔پاکستان میں صحافی غنڈے اور بدمعاش بن چکے ہیں ۔یہ پاکستان کی سڑکوں ،چوراہوں اور چوکوں پر ننگے کھڑے ہیں اورانسانیت پر پتھر پھینک رہے ہیں ۔غنڈہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ صحافی جاہل اور گھٹیا بھی ہیں ۔کیونکہ گالیاں دینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ان کا صرف ایک کام ہے عوام کے نام پر استحصال کرنا ۔یہ نقصان دہ ہیں ۔اور خطرناک بن چکے ہیں ۔،لوگوں کو ننگا کرنا ،ان کو گالیاں دینا ،اور اس ساری صورتحال کو خود بھی انجوائے کرنا اور لوگوں کو بھی انجوائے کرانا ان کا کام ہے ۔یہ صحافی نہیں ڈاکو اور قاتل ہیں ۔جنکا کام صرف سنسنی خیزی تلاش کرنا ہے ۔پاکستان کے صحافی کے لئے اگر کتا انسان کو کاٹتا ہے تو یہ خبر نہیں ہے ۔کیونکہ یہ فطری ہے ۔اگر انسان کتے کو کاٹے ۔چاہے ایسا نہ بھی ہوا ہو ۔۔لیکن اس افواہ کو سنسنی خیزی کے انداز میں عوام کے سامنے لانا یہ خبر ہے ۔حالانکہ یہ جھوٹ ہے ۔کتے نے انسان کوکاٹا تھا وہ سچ تھا ۔لیکن سچ خبر نہیں ہے ،جھوٹ خبر ہے ۔ہر چیز کو مسئلہ بناکر پیش کرو ،ہر صورتھال کو مزید گھمبیر بناکر بدصورت انداز میں عوام کے سامنے لانے کا نام پاکستانی صحافت ہے ۔ان جاہل اور تماش بین صحافیوں نے پاک کو جھنم بنا دیا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔