پاکستانی معاشرہ سچ پر کھڑا ہی نہیں ہے ۔
کل پاکستان سے میرے ایک مداح نے مجھے بہت عجیب سوال کیا ، فرمانے لگے مجھے سچ کا کوئ سِرا نہیں مل رہا آپ میری مدد کریں ۔ میں نے کہا جناب پاکستان میں سچ ہے ہی نہیں تو کیسا سِرا اور کیسا اس کا پھیلاؤ ۔ہم معاشرہ میں clouds کی صورت میں رہتے ہیں ۔ جیسے WiFi کا cloud ہوتا ہے جو سب شئیر کرتے ہیں ۔ ہم سارے جھوٹ کے cloud میں رہ رہے ہیں ۔ کل میں سعد رفیق کو دیکھا اس نے اربوں کی کرپشن کی ، معصوم سی شکل بنا کر ٹی وی پر کہ رہا تھا یار یہ سرکل دھندہ چلنے دیں ۔ نہ روکیں ہمیں ۔ اگلے دن عظمی فاروقی کے لیے بڑے زور شور سے ٹویٹر پر restore uzma کا hashtag چل رہا تھا اور چیف جسٹس کو غلیظ گالیاں بکی جا رہی تھیں ۔ جناب زرا اس کا کیس تو دیکھیں ایک تو اس نے PhD اس مضمون میں کی ہے جس والا VC نہیں بن سکتا غالبا اردو یا اسلامیات میں ۔ دوسرا وہ ۱۵ سال پروفیسر نہیں رہی جو ایک اہم eligibility کا criteria ہے وی سی کے لیے ۔ یہاں امریکہ کی کوئ بھی یونیورسٹی اٹھا لیں مجال ہے بنیادی eligibility نہ پورا کرنے والے کی درخواست بھی کوئ رکھ لے، بننا تو دور کی بات ۔ وہ چیف جسٹس کو چیلنج کر رہی ہے ۔ زرا holders of public office کا مزاج دیکھیں ۔ بش اور الگور کی ووٹوں کی گنتی کے معاملہ پر الگور نے کیسے سر خم تسلیم کیا سپریم کورٹ کے سامنے حالنکہ وہ جیت گیا تھا ۔ پاکستان میں فوج اور سپریم کورٹ اب پِٹ رہے ہیں ان گماشتوں کے ہاتھوں ۔
کل میں بیچارے اپنے one and only کلاسرا صاحب کو جسٹس تصدق کی فیملی کی طرف سے صفائیاں سناتے سن رہا تھا جو محض کان کا اس طرف سے نہ پکڑیں دوسری طرف سے پکڑ لیں کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ بہتر تو ہوتا فیملی زرائع کہتے کہ وہ وزیر اعظم بننا ہی نہیں چاہتے ۔ ہمیں معاف کر دیں ۔ مگر کہاں ، قبر منور کرنے کے شوق میں موت تک پیچھا کرتے ہیں ان عہدوں کا ۔ میں جب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا ایک لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ میں تصدق جیلانی کے پاس کیس لگوا رہی ہوں کام ہو جائے گا ۔ اور ہو بھی گیا ۔
امریکہ کا معاشرہ سچ پر کھڑا ہے ۔ میں نے ایک امریکی سے کہا کہ میں امریکہ آ گیا تو پیچھے میرے گھر پر کسی نے قبضہ کر لیا ۔ تو یہاں امریکہ میں بھی ایسا ہوتا ہے ۔ وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا ?are you in senses ، وہ جیل جائے گا ساری عمر کے لیے بدنام ہو جائے گا ۔ معاشرہ زلیل و خوار کر دے گا ۔ اس کی creditworthiness ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ۔ ہاں امریکہ کے لیڈر یا کارپوریٹ ورلڈ اپنے تئیں بر بربریت کرتی ہے جھوٹ بھی بولتی ہے اب تو امریکی main stream میڈیا پر ٹرمپ نے fake news کا الزام لگایا ہے جو کچھ معاملات میں نے سچ بھی پایا ۔ آسانجے کا gagging order بھی غلط ہے ۔ لیکن معاشرہ اپنی سچائ اور اخلاقی اقدار پر قائم و دائم ہے ۔ ایک دوسرے پر ٹرسٹ کرنے کا ماحول ہے ۔ اسی لیے بے پناہ ترقی کر رہا ہے اور میرے جیسا آدمی اسے جنت سے کم نہیں سمجھتا ۔
پاکستان میں سچ کا ماحول بنانا پڑے گا ۔ پھر بات آگے بڑھے گی ۔ یہی بات نواز شریف کر رہا ہے کہ مجھے ۳۵ سال سے کسی نے نہیں پوچھا اور اب وہ پوچھ رہا ہے جو خود جسٹس قیوم جیسوں کے چیمبر میں پلا اور میں نے جج بنایا بغیر قواعد و ضوابط ۔ جج بنانے کا پاکستان میں تو کوئ قانون قائدہ نہیں مرضی چلتی ہے ۔
میرے جیسے بہت سارے پاکستانی ملک سے باہر اس انتظار میں ہیں کہ کوئ سچ کا cloud create کرے پھر جس کی چھتری تلے ہمارے جیسے ملک کے لیے جان دینے کو بھی تیار ہیں ۔ لیکن ہم سب کسی جھوٹ کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ پاکستان میں احتساب چاہیے اور ریفارمز نہ کہ الیکشن ۔ یہ میرا اپنا نظریہ ہے آپ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ۔ الیکشن تو سعد رفیق چاہتا ہے وہ کہتا ہے یہ دھندہ چلنے دہ یارا۔
جیتے رہیں آپ سب لوگ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔