پاکستانی میڈیا انڈسٹری پر حقیقت پسندانہ تبصرہ
بہت سارے صحافی نیوز روم میں بیٹھ کر آجکل ایک بات بہت زور و شور سے کرتے ہیں کہ نیوز چینلز پر کرنٹ آفئیرز پروگرام اسٹیبلشمنٹ کی دی گئی لائن کے مطابق چل رہے ہیں ،بعد میں وہی صحافی اسی لائن پر اپنے ٹاک شوز بھی کررہے ہوتے ہیں ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کا صحافی منافق ہوگیا ہے ۔اسٹوڈیو میں کچھ اور بات کرتا ہے اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کچھ اور بات کررہا ہوتا ہے ۔صحافی اگر اس منافقت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ سماج ،معاشرے اور افراد پر بات کریں ،معاشرے کے پسے ہوئے محروم طبقات کے مسائل کی بات کریں ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کے اندر سے خوف اور منافقت کا خاتمہ ہوجائے گا ۔اس سے ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ جس سماج اور محروم طبقات پر یہ صحافی بات کریں گے ،انہیں حوصلہ ملے گا اور وہ خود بولیں گے اور سوال کریں گے ۔پاکستان کی موجودہ میڈیا انڈسٹری مچھلی بازار جیسی ہے ،ہر نیوز چینل ایک دکان جیسا منظر پیش کررہا ہے ،اس دکان کا جو مالک ہے ،اسی کی اتھارٹی چل رہی ہے ،نیوز چینل میں بیٹھا صحافی صرف اشاروں پر رقص کرتا نظر آرہا ہے ۔اسے یہ کہا گیا ہے کہ جیسے تیسے کرکے ریٹنگ لاو ،تاکہ ان کا مال فروخت ہو جائے ۔نیوز چینلز کے مالکان کو چاہیئے کہ وہ ریٹنگ کے علاوہ بھی سوچیں ،جب کسی بھی ٹاک شو کا ایجنڈا خود صحافی سیٹ کرے گا ،تو پھر کہیں نئی بات اور نئے بیانیئے پر بات ہوسکتی ہے۔اس لئے مالکان کو چاہیئے کو وہ ٹاک شوز کا ایجنڈا صحافیوں کو ہی طے کرنے دیں ۔اس کے ساتھ ساتھ مالکان کی زمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کا حوصلہ بڑھائیں کہ وہ جو کہنا چاہتے ہیں کہیں ،کوئی نتائج برآمد ہوئے تو وہ خود دیکھ لیں گے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔المناک بات یہ کہ آزادی اظہار اور ہمارے معاشرے کا لیول بہت نیچے گر گیا ہے ۔اب صحافی ہوں یا عوام نارمل بات کرنے سے بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں ،ڈر جاتے ہیں کہیں کچھ برا نہ ہوجائے ۔صحافی جرات اظہار کی بجائے مچھلی بازار جیسے دکانداروں جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ،بھیا بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں ،معاشرہ ان باتوں کو برداشت کرنے کے لئے بھی تیار ہے ،ریاست ،اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بھی بہت سی باتیں سننے کے لئے تیار ہے ،لیکن صحافی کی طرح بات کریں۔لطیف پیرائے میں بات کریں ،تخلیقی رویوں کا استعمال کریں ۔دنیا کی تلخ سے تلخ اور سخت سے سخت بات بھی اگر لطیف پیرائے میں کی جائے تو آپ جن کے خلاف بات کری گے وہ بھی ان باتوں کو سنیں گے اور برداشت کریں گے ،لیکن کیا ہمارے اینکرز اس انداز میں بات کرتے ہیں ،چوہدری غلام حسین ،عامر لیاقت ،شاہد مسعود ،مبشر لقمان جیسے عالی مقام صحافی کیا لطیف پیرائے میں بات کرسکتے ہیں ؟یہ لوگ تو سیدھی سادھی بات کو سازشی رنگ دے دیتے ہیں ،نفرت ،تعصب ان کے لہجے میں چھلکتی نظر آتی ہے ۔ان کو مالکان یا کسی اور قوت کی جانب سے کہا ہی یہی گیا ہے کہ منہ سے آگ نکالیں ۔گالیاں بکیں ،اور زہر اگلیں ۔متبادل بیانیئے کی بات کرنا ایک آرٹ ہے اور صرف تخلیقی صحافی ہی اس آرٹ کا استعمال کر سکتا ہے ۔لوگوں کے حقوق کی بات کریں ،انسانی حقوق کی بات کریں ۔یہی متبادل بیانیہ ہے ،ہر وقت اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کے طاقتور اداروں کے خلاف یا حق میں بات کرنا متبادل بیانیہ نہیں ہے ۔سیاست ،ریاست ،فارن پالیسی اور سیکیورٹی ایشوز پر ہی صرف متبادلہ بیانیہ بیان نہیں کیا جاسکتا ،انسانی حقوق اور شہریوں کے حقوق پر کھل کر بات کرنے کا نام ہی متبادل بیانیہ ہے ۔وہ تلخ باتیں جو ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کی جاتی ہیں ،وہ ٹی وی اسکرین پر بھی کی جاسکتی ہیں ۔پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مالکان ایڈیٹر بن گئے ہیں ،وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ آج کے شو میں اینکرز کیا بات کریں گے ،کس کو بدنام کریں گے اور کیسے کسی کے خلاف پروپگنڈہ کریں گے ۔اب تو مالکان پروگرام اینکرز کو سوال بھی لکھ بتا دیتے ہیں کہ یہ سوال کرنا ہے اور پورے پروگرام کی اینگلنگ اس طرح ہو گی ؟پاکستان میں میڈیا انڈسٹری پر عوام کا اعتماد تیزی سے ختم ہورہا ہے ،اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب عوام جان چکے ہیں کہ فلاں چینل مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل ہے،فلاں اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتا ہے ،فلاں پی ٹی آئی کا چمچہ ہے۔ڈاکٹر شاہد بھائی اور ڈاکٹر عامر لیاقت بھائی تو وہ عالیشان صحافی ہیں کہ جن کا کام صرف سنسنی پھیلانا ہے ،سنسنی خیزی بھی ایسی کہ جیسے آج ہی دنیا ختم ہورہی ہے ۔پانچ جولائی انیس سو ستتر کے بعد جو بیانیہ نافذ کیا گیا تھا ،اس کو کاونٹر کرنے کے لئے جو بیانیہ سامنے آیا ،اسے متبادل بیانیہ کہا جاتا ہے ،کیوں اس متبادل بیانیہ پر بات کرنے سے صحافی ڈرتے ہیں ؟اس پر سوچنے کی ضرورت ہے؟جب مالکان کی مداخلت نیوزروم اور پروگراموں میں بند ہو جائے گی تو پھر صحافی بھی متبادل بیانیہ بیان کرسکیں گے ۔اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مالکان کی مداخلت نیوز روم اور پروگرام میں ختم ہو نی چاہیئے ۔ایسے ڈائریکٹرز پروگرام نیوز چینل کا حصہ بنیں جو سمجھدار اور پڑھے لکھے ہوں اور پالیسی بنانے کا ڈھنگ سمجھتے اور جانتے ہوں ۔اس طرح کے تعلیم یافتہ ڈائریکٹر پروگرام ہی مالکان کی مداخلت کو روک سکتے ہیں ۔نیوز چینلز کی پالیسیاں وٹس ایپ کی خبروں پر نہیں بنائی جاتی ،ایسا ہوگا تو پھر شاہد مسعود ،مبشر لقمان ،عامر لیاقت اور چوہدری غلام حسین جیسے اینکرز ہی چھائے رہیں گے ۔پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو اپنا طریقہ کار بدلنا ہوگا ۔مالکان صحافیوں سے آزادی چھین نہیں رہے بلکہ خود صحافی اپنی آزادی پلیٹ میں رکھ کر مالکان کو پیش کرتے ہیں ۔عوامی مفاد کی خبریں چلائیں ،یقینا اشتہار ملیں گے ،کیا صرف حکومت کی تعریفیں کرنا ،اسٹیبلشمنٹ کو مقدس گائے بناکر پیش کرنا ہی صحافت ہے ؟یہ جو ہمارے اعلی و ادنی صحافی ریڈ لائنز ،ریڈ لائنز کی رٹ لگائے رکھتے ہیں ،یہ ریڈ لائنز کچھ نہیں ہوتی ،ریڈ لائنز صحافی خود اپنے زہن میں بناتے ہیں ۔ہر موضوع ،ہر ایشو پر بات کریں ،لیکن بات کرنے کا لہجہ اور ڈھنگ ہونا چاہیئے ،اس کے لئے تخلیقی رویہ چاہیئے جو مطالعے اور مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔پھر سوال یہ کہ کیا ہمارے صحافی مطالعے اور مشاہدے کے شوقین ہیں ؟پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ اعتماد یہاں کے عوام کو سوشل میڈیا پر ہے ۔اس لئے تو الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا کو فالو کررہا ہے ۔سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کی بنیاد پر ہی نیوز پالیسی اور پروگرام کے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔جب رسمی میڈیا ریاست ،طاقتور اداروں اور شخصیات کے اشاروں پر ناچے گا تو اس کی کریڈیبیلیٹی برباد ہو گی اور یہی پاکستان میں نظر آرہا ہے ۔اسٹییبلشمنٹ کا نظریہ ،ریاست کا نظریہ ،اشرافیہ کا نظریہ اور مالکان کے مفادات ،یہ وہ اصول ہیں جس کی بنیاد پر نیوز اور پروگرام پالیسی کھڑی کی جاتی ہے ،عوام کیا سوچتے ہیں ،ان کے کیا مسائل ہیں ،اس بنیاد پر نیوز چینلز کی پالیسیاں نہیں بنتی ،اسی وجہ سے میڈیا انڈسٹری برباد ہو کر رہ گئی ہے۔جرنلزم کا پہلا اصول یہ ہے کہ میڈیا رائے بناتا ہے ،رائے کی تلاش کے پیچھے نہیں بھاگتا ۔لیکن یہاں تو تمام نیوز چینلز ہی گھٹیا پروڈکٹ بنا رہے ہیں ،عوام ان گھٹیا پروڈکٹس میں جو چاہتی ہے ،اٹھا لیتی ہے ،اسی گھٹیا گیم کی بنیاد پر ریٹنگ سسٹم کو استوار کیا گیا ہے اور پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں ۔سوشل میڈیا اس لئے عوام میں مقبول ہورہا ہے کہ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ،الیکٹرانک میڈیا کو ہمیشہ سہارا چاہیئے ۔کاش الیکٹرانک میڈیا کو بھی کسی سہارے کی ضرورت نہ ہو ۔اب الیکٹرانک میڈیا پر سوشل میڈیا کا دباو بڑھ رہا ہے ،اسی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا پر بھی متبادل بینایئے پر کچھ نہ کچھ بات ہونے لگی ہے ۔خبریں تلاش کریں ،خبریں لائیں ،خبروں کو تجزیہ بناکر پیش نہ کریں اور نہ ہی خبروں کو سازشی نظریئے کی بنیاد پر چلائیں ۔تجزیہ تجزیہ کاروں کو کرنے دیں ،لیکن ہمارے نیوز چینلز میں خبریں نہیں تجزیوں اور تبصروں کا کاروبار چل رہا ہے ۔سوشل میڈیا پر جو ایشوز سامنے آرہے ہیں ،ان کو ایمانداری اور تحقیق کے بعد نیوز بلیٹن کا حصہ بنائیں ۔ٹاک شوز صرف پروپگنڈے اور گالم گلوچ کا نام نہیں ،سازشی نظرریات کا نام نہیں ،ان ٹاک شوز میں مسائل کا حل بتائیں ۔ایک پروگرام چلتا ہے جس کا نام ہے ایسا نہیں چلے گا ،کیا ایسے پروگرام کو ٹاک شو کہا جاسکتا ہے ؟عامر لیاقت جیسے کو عوام نے نہیں مالکان اور طاقتور شخصیات نے عالی مقام دیا ہوا ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ جانبداری اور غیر جانبداری کچھ نہیں ہوتی ،میڈیا کبھی نہ غیر جانبدار تھا ،نہ ہے اور نہ ہوگا ۔زیادہ سے زیادہ حقیقت بیان کردی جائے ،اسی کا نام میڈیا ہے ۔ہر صحافی کا نظریہ ،ہر ادارے کی حقیقت ،ہر خبر کا پس منطر اور ہر صحافی کی حقیقت مختلف ہوتی ہے ،تمام صحافی مختلف آئنوں میں دیکھتے ہیں ،اس لئے جانبداری یا غیر جانبداری کی کوئی اہمیت نہیں ۔عملی طور پر حقیقت یہی ہے کہ پورا سچ میڈیا پر نہیں دیکھایا جاتا ہے ،آدھا سچ ،پونا سچ یا نوے فیصد سچ ممکن ہے ۔پورا سچ کبھی بھی میڈیا پر نہیں دکھتا اور یہی عملی صحافت ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے ۔ٹاک شوز کے تمام اینکرز کا مطالعہ اور مشاہدہ کر لیں ،ان کا علمی ،فکری اور تخلیقی رویہ دیکھ لیں ،سب کے بارے میں آپ یہی کہیں گے کہ بھیا یہ تو ابوجاہل ہیں ،ایسا کیوں ؟ایسا اس لئے ہے کہ مالکان جان بوجھ کر ایسے اینکرز کا انتخاب کرتے ہیں ۔یہ ان کے اور طاقتوروں کے مفاد میں ہے ،اس لئے جب ایک پڑھا لکھا ڈائریکٹر نیوز ہو گا تو وہ کبھی بھی عامر لیاقت یا چوہدری غلام حسین کے حوالے کوئی پروگرام نہیں کرے گا ؟اسی طرح نیوز روم کا ڈاریکٹر تخلیقی ہوگا ،تو اس کی نیوز ٹیم بھی تخلیقی ہوگی اور ا سپر کم سے کم مالک کا اثر ہوگا ۔جب تک الیکٹرانک میڈیا پڑھے لکھے لوگوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ،تب تک ایسا نہیں چلے گا جیسے ٹاک شوز ہی آن ائیر ہوں گے ۔صحافت میں جن لوگوں کو بولنا چاہیئے وہ بول نہیں رہے ،جنہیں لکھنا چاہیئے وہ لکھ نہیں رہے یا انہیں لکھنے اور بولنے نہیں دیا جارہا ،ایسا ہوگا تو پھر شاہد مسعود ،عامر لیاقت ہی کے علم و فکر کے چرچے ہوں گے ۔یاد رکھیں تخلیقی انسان کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ زمانہ جبر کا ہے یا آزادی کا ،اس کی تخلیق کا پروڈکٹ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے ،الیکٹرانک میڈیا کو ایسے طاقتور تخلیقی دماغوں کی ضرورت ہے ۔باصلاحیت تخلیق کار ایسے ایسے تخلیقی ٹرینڈز متعارف کرادیتے ہیں کہ جبر ہو یا آزادی وہ بات کر تے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان کی باتوں سے حوصلہ ملتا ہے ۔اس لئے نیوز چینلز اور پروگراموں کے چیف باصلاحیت تخلیقی ہونے چاہیئے ۔آج کے لئے بس اتنا ہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔