پاکستانی مسائل اور حل کرنے والے
-ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کوئی بھی مسئلہ ہو اور مسئلہ تو تقریباً ہر روز ہوتا ہی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو مسئلہ حل کرنا آتا ہے۔ مگر اپنے طریقے سے۔ میں اسکو پاکستانی سینڈروم کا نام دیتا ہوں جس کا استعمال ہم ہر مسئلے کو ڈسکس کرنے اور حل کرنے میں کرتے ہیں۔ جیسے ہی سوشل میڈیا، پارلیمنٹ، ملکی سطح یا عالمی منظر نامے پر کوئی مسئلہ نمودار ہوتا ہے ہمیں بھی اس سینڈروم کی "چھپاکی" نکل آتی ہے۔
۔
آئیے اس "پاکستانی سینڈروم” کی کچھ علامات پر غور کرتے ہیں۔
۔
یہ کیوں کریں وہ کیوں نہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ اس سینڈروم کی بہت بنیادی علامت ہے۔ آپ دنیا کا کوئی بھی کام لے آئیں۔ جو باقی ممالک میں اپنی مثال آپ ہو۔ پاکستان میں ہم اس کا متبادل پیش کر دیں گے۔ یا اس سے بہتر نکال لائیں گے۔ آپ کہیے کہ ہمیں وقت کی پابندی کرنا چاہیے۔ لوگ آپ کو بتانا شروع ہو جائیں گے کہ وقت کی پابندی سے زیادہ ضروری ہے آپ پانچ وقت نماز کی عادت ڈال لیں، یا پھر اصل مسئلہ وقت کی کمی ہے۔ یا پھر وقت کی بات کرتے ہو، وقت تو صرف امیروں کے پاس ہوتا ہے۔ یا پھر وقت کی پابندی جیسے فضول کاموں کے لیے وقت کس کے پاس ہے، اس سے بہتر ہے کہ آپ سیلابی پشتے بنانے کی مہم چلاؤ۔
۔
یہ کوئی سازش ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری بڑی علامت اس بیماری کی۔ ہر بات کو کسی سازش سے ملادو۔ کالا باغ ڈیم ہو، بجلی کی کمی ہو، بھارت سے کشمیر لینا ہو، ہمیں ہر بات میں سازش ڈھونڈنے کی خو ہے۔ یار لوگ ایسی ایسی سازشی تھیوریاں لاتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ ہیری پاٹر کی محترمہ رولنگ ایویں بدنام ہیں۔
ایسے نہیں ویسے کرنا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تیسری علامت اس سینڈروم کی یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے انداز اور اپنی سمجھ سے کام کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ بعض نابغے تو صرف اس لیے معترض ہو جاتے ہیں کہ یہ کسی اور کا خیال ہے تو وہ اسکو سپورٹ کیوں کریں۔ پھر ایک سے بڑھ کر ایک ترمیم شروع کی جاتی ہے۔ اسکو اس طریقے سے کرتے تو اچھا ہوتا۔ موسم ، وقت، انداز، اطوار، سلیقہ، نمائندگی، کیمپین، ان کو ایک ایک بات پر اعتراض ہوتا ہے۔ مقصد محض ایک اچھے کام کو زرا پٹڑی سے ہٹانا ہوتا ہے۔ شائد لاشعوری طور پر خود کو ڈرائیونگ سیٹ پر نہ پا کر یہ علامت شدت سے ظاہر ہونے لگتی ہے۔
۔
بھانڈ پنے کے جراثیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چوتھی علامت جو ایسے سینڈروم میں ظاہر ہوتی ہے وہ ایسے حضرات میں نظر آتی ہے جن کو بظاہر کوئی اعتراض نظر نہیں آتا مگر وہ اپنی سی کوشش سے اس چلتی بارات میں نمایاں ہونا چاہتے ہیں۔ وہ جگتوں اور لطیفوں سے اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں۔ بظاہر وہ غیر جانبدار لگتے ہیں مگر حقیقت میں انکی دل سے خواہش ہوتی ہے کہ خوب ٹھٹھا اڑے ان لوگوں کا جو ایسے مایوسی کے دور میں زرا رجائیت کی بات کرتے ہیں۔
۔
اعداد و شماری و تفصیلاتی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ احباب کے لیے یہ اپنی اسٹیٹسٹکس کی کتابیں جھاڑنے کا وقت ہوتا ہے۔ وہ ایسے ایسے اعدادوشمار سے لوگوں کا دل برا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عام آدمی بےچارہ پریشان ہو جاتا ہے کہ اس سے اتنے ملین لوگوں کا بیڑا غرق ہونے جارہا تھا بس انہی کے جدول کر پڑھ کر اس کی بچت ہو گئی ہے۔
۔
ملی جلی کیفیت
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ شریف لوگ ایسے میں ملی جلی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک کی سنتے ہیں تو اسکی بات ٹھیک لگتی ہے تو دو پہر اس کی حمائت میں لگے رہتے ہیں۔ سہ پہر کو دوسرے کی بات اچھی لگتی ہے تو ادھر کو ہو جاتے ہیں اور پوری شام پہلے والے کی مخالفت میں گذرتی ہے ۔ معصوم علامت ہے مگر بندے کو خجل و خوار کروا دیتی ہے۔
حرف آخر ۔ ۔ یوں اس سینڈروم کا شکار ہماری قوم ہر مسئلے کو ایسے "حل" کرتی ہے کہ وہ مسئلہ قیامت تک کے لیے ایک معمہ بن کر ہماری اگلی نسلوں کے لیے پیک ہوجاتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“