مطالعہ پاکستان اور اسلامیات دو ایسے مضامین ہیں۔ جو پاکستانی نوجوان نسل سے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں، اور دماغ کو زہانت سے پاک کردیتے ہیں۔ یہ وہ رٹو نسل ہے، جو کروڑوں کی تعداد میں عام سے اسکولوں اور کالجوں سے نکلتی ہے۔ ان بے چاروں کوا بس اتنا پتا ہے کہ پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد، اسلام زندہ باد۔ ان کے پاس اٹھائے گے سوالوں یا تنقید کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔۔ چنانچہ ان کے کچھ اس طرح کے سادہ لیکن اشتعال انگیز ردعمل ہوتے ہیں۔ پہلے تو وہ شک کریں گے، یہ اپنے نام سے مسلمان ہے، زبان اور بیان سے پاکستانی ہے۔ یہ ' فیک آئی ڈی' ہے۔ یہود و ہنود کا ایجنٹ ہے۔۔ جعلی پاکستانی اورمسلمان بنا ہوا ہے۔ اگر پاکستانی مسلمان مان بھی لیں تو کہیں گے، ' تم کو پاکستان اچھا نہیں لگتا، تو چھوڑ کر انڈیا چلے جاو"۔ " تم کو اسلام اچھا نہیں لگتا۔۔ تو مسلمانوں والا نام کیوں رکھا ہوا ہے"
اب ان دولے شاہ کے چوہوں کو کیسے بتایا جائے، کہ تنقید کے بغیرانسان جانوروں کی سطح پرآجاتا ہے۔ سوچنا سمجھنا غورکرنا، اپنی اصلاح کرنا، اپنے عمل اور غلطیوں سے سیکھنا، انسان کا شرف ہے۔ دوسرے ملک اور وطن پر سب شہریوں کا یکساں حق ملکیت ہوتا ہے۔ خواہ کسی بھی مذہب سے ہو یا کسی بھی نظریہ و خیال کے۔ اس سے وطن بدری نہیں ہوسکتی۔ انسان گروہوں اور طبقات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ان کے درمیاں تضادات اور اختلافات ہوتے ہیں۔ لیکن اکٹھے ساتھ بھی رہنا ہوتا ہے۔۔ وطن کوئی خریدا ہوا پلاٹ نہیں ہوتا۔۔ نہ والدین کی وراثتی جائداد۔۔ کہ دوسرے کو کہا جائے، نکلو یہاں سے۔۔۔ یہ میرے باپ کا وطن ہے۔۔ وطن کسی کی پرسنل جائداد نہیں ہوتا۔ لیکن ان دولے شاہ کے کروڑوں چوہوں کو نہ کوئی فہم ہے ، نہ کوئی علم، نہ کوئی تہذیب۔
پھر ان کا دوسرا ردعمل یہ ہوتا ہے، اوئے تم کو اسلام پسند نہیں، تو مسلمانوں والا نام کیوں رکھا ہوا ہے۔۔ اپنا نام بدلو۔۔ اس پر ہمارے ایک دوست خالد عمر صاحب نے انگریزی پوسٹ لگائی ہے۔ اس کا کچھ ترجمہ حاضر ہے:
" برصغیرکے مسلمان خاص طورپراتنے بند دماغ ہیں، کہ اٹھائے سوال پرکوئی دلیل دیں، کہیں گے، اپنا نام بدلو۔۔۔ ان کو یہ بھی پتا نہیں، کہ نام عربی اوریجن رکھتے ہیں، ان کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔۔ نام اسلامی اور غیراسلامی نہیں ہوتے۔ نام ہرعلاقے کے اپنے اور زبان سے متعلق ہوتے ہیں۔ ' علی، عثمان، عمر، عبداللہ، زید، عائشہ، خدیجہ، یہ مسلم یا اسلامی نام نہیں ہیں۔۔ جب اسلام نہیں تھا، یہ نام اس وقت کفار کے تھے۔ اور جب یہ لوگ مسلمان ہوگے، تو کوئی اپنا پہلے ' کافروں والا ' نام نہیں بدلتا تھا۔۔ ہم نے انہوں کو 'اسلامی نام' سمجھ لیا۔۔ دولے شاہ کے چوہوں اتنی معمولی سے بات ہی سمجھ لو۔
دوسرے نام ماں باپ رکھتے ہیں۔ وہ ہماری شخصی شناخت ہوجاتا ہے، اور اسے لے کرچلتے ہیں۔ پھر مختلف مذاہب میں ہونے کے باوجود ایک علاقے اورزبان کے لوگوں کے ناموں میں یکسانیت بھی ہوتی ہے۔ کئی ہندووں کے بچوں کے نام ، نور، آرزو، اظہر، تمنا، بانو۔۔وغیرہ ہیں۔۔ پاکستان میں مسیحیوں کے زیادہ تر نام نہاد 'اسلامی نام' ہوتے ہیں۔۔ نہ مذہب کو ہم نے شعوری طورپراپنایا ہوتا ہے نہ اپنے نام کو۔ یہ پیدا ہونے کے بعد والدین اور ماحول نے دیا ہوتا ہے، جسے ہم باقی زندگی اٹھائے رکھتے ہیں۔ اگر آج ہم نئے شعور اور نئی دنیا کی فضا میں نام خود رکھیں، تو روائتی ناموں سے بہت مختلف ہوسکتے ہیں۔۔ اور آجکل بڑے تجریدی قسم کے نام رکھے بھی جارہے ہیں۔
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے۔ کہ مسلمان ایکڑوں نے نام نہاد ' ہندو نام ' رکھ کرمشہور ہوئے۔۔ یوسف خان دلیپ کمار ہو جانتا ہہے، ممتاز جہاں مدھو بالا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ہندو سمپورن سنگھ ۔۔۔ گلزار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خاص طورپرقبائلی اور قدرت کے قریب بسنے والے قدرتی مظاہر اور اشیا کے نام پراپنے نام رکھ لیتے ہیں۔
پاکستانی نسلوں کو 'عسکری بنیاد پرست ریاست ' نے اتنا تنگ نظربنا دیا ہے۔ بچارے اپنی ناک سے آگے دیکھ اورسوچ نہیں سکتے۔۔ ہم پھر کہتے ہیں، ہندو بڑے متعصب ہیں۔۔۔!! حیرت ہوتی ہے۔ ہم پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ متعصب وتنگ نظر بھی دنیا میں کوئی اور ہوسکتا ہے؟ کم از کم برصغیر میں تو ہم یہ تمغہ بڑی آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ بس اپنے نیچے ' ڈانگ پھیرنے' کی ضرورت ہے۔ جن کا دین و ایمان نام پرمنحصر ہے ان کی عقل کے بارے کیا کہنا۔
“