آج میں مینہیٹن میں ہوں ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کے
world moves from Manhattan ۔ یہاں سورج نکلا ہوا ہے لیکن سردی انتہا کی ۔ کافی شاپ میں جب میں جیکٹ اتار کر کیش رجسٹری پر چیک ان کرنے لگا تو لڑکی نے کہا ، sir please wear jacket کوئ نقصان نہ ہو جائے ۔ موت کا خیال آیا اور آئ ایس آئ یاد آئ ۔ کیا آئ ایس آئ کے ہاتھوں موت کتے کی موت ہے یا سردی سے ٹھٹھر کر مرنے والی ۔ میرے خیال میں ساری اموات ہی کتے کی موت ہیں ، اگر آپ اپنا دنیا میں آنے کا مقصد پورا کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔
آج کچھ دل کی باتیں ہو جائیں ۔ پاکستانی فوج اور آئ ایس آئ کا مسئلہ ہے کیا ؟ میرا ان سے اختلاف ہے کیا ؟ میرا بچپن ، جوانی اور کنوارا بڑھاپا ، لاہور چھاؤنی میں ہی گزرا ۔ ۱۹۷۵ میں لاہور کے کور کمانڈر کو ملنا آسان تھا اور لاہور کے کمشنر کو ناممکن ۔ ۱۹۷۶ کی گرمیوں میں ایک فورٹریس اسٹیڈیم میں نمائش لگتی ہے اور میں ایک تصویر کا فوجیوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہے ؟ اس نے کہا یہ ہمارا آرمی چیف ہے اور اس کانام ضیاءالحق ہے ۔ میں نے کہا کیا یہ چار ستاروں والی گاڑی استعمال کرتا ہے ۔ اس نے کہا جی ۔ میں نے پھر کہا ہمارے گھر سے تھوڑے دور اکثر چار ستاروں والی گاڑھی کھڑی ہوتی ہے ، کیا یہ جنرل ضیا کی ہی ہوتی ہے ۔ اس نے جواب دیا جی ان کے بہنوئ ادھر رہتے ہیں ۔۲۰۰۴ میں میری بیٹی مجھے ایک پتہ بتاتی ہے کہ ابو مجھے یہاں سے لے لو میں اپنی سہیلی کی سالگرہ پر آئ تھی اور وہ وہی گھر ہوتا ہے جہاں چار ستاروں والی گاڑی اکثر کھڑی ہوتی تھی ۔ اسی بہنوئ کی نواسی میری بیٹی کی گرامر اسکول میں کلاس فیلو ہوتی ہے ۔ ۱۹۸۹ میں جب میں ایس ڈی ایم سجاول تھا پہلی دفعہ فوج سے سرکاری طور پر پالا پڑا ، میری ان سے بہت بنتی تھی کیونکہ میرا اور ان کا ہدف ایک تھا ، امن قائم کرنا ۔ گو کہ ان کے کچھ افسروں کی کرپشن سے تب بھی میں بہت نالاں تھا ۔ میرا ڈپٹی کمشنر میرے سے اس بات پر شدید تنگ تھا ۔ ۱۹۹۹ میں جب مشرف نے آرمی مانیٹر بنائے تو میں ان کا لاڈلا بن گیا ۔ میں نے بُچہ گارڈن بچانا تھا اور کچھ افسروں کا قبلہ درست کروانا تھا ۔ معاملہ اتنا اچھا چلا کہ مجھے نیب پنجاب میں بہت با اختیار افسر لگا دیا گیا ۔ سوائے اپنے ضمیر ، قانون اور اخلاقیات کے میں کسی کی نہیں سنتا تھا ۔ جنرل صابر کو مجھے پالنا اور سنبھالنا ایسے تھا جیسے کسی اتھرے گھوڑے کو لگام ڈالنا ۔ خیر بلی آنکھوں والے جنرل کو میرا سیلوٹ ، برداشت کیا اُس نے ۔ انہی دنوں آئ ایس آئ سے بھی قربت بڑھی اور کچھ معاملات میں اکٹھے کام کیا ۔ اس ے پہلے بھی کراچی اور سجاول میں ملٹری انٹیلیجینس اور آئ ایس آئ کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا لیکن یہ اشتراک بہت مختلف تھا ۔ لیکن ایک دم حالت نیں پلٹا کھایا ۔ مشرف کے سیاسی ہیٹ پہننے کے فیصلہ نے نقشہ ہی بدل دیا ۔ سارے مشن فیل ۔ وہی نیب ، وہی آئ ایس آئ اور وہی ملٹری انٹیلیجینس راتوں رات میری دشمن ۔ ان کا قبلہ ہی تبدیل ہو گیا لیکن میرا وہی ، وفاداری بہ شرط استواری ، اخلاقیات اور سچ ۔ نیب کا نیا جنرل آ گیا اور اسی نیب کے باہر میرا نیب پنجاب میں داخلہ پر پابندی کا باقاعدہ بورڈ آویزاں کر دیا گیا ۔ میری خدمات مزید رگڑے کے لیے اس وقت کے وزیر اعلی پرویز الہی کے سپرد کر دی گئیں اور بریگیڈئیر اعجاز ، جی ایم اسکندر اور یوسف کھوکھر کو مجھ پر زہنی تشدد کرنے کے احکامات جاری ہوئے ۔ میں نے استعفی دے دیا ۔ کچھ دیر کالا کوٹ پہنا کہ شاید اس طرح بچت ہو جائے ۔ پھر ملک چھوڑ دیا اور صرف ماں کی خاطر گاہے بگاہے پاکستان آتا تھا ۔ ۲۰۰۸ میں شہباز شریف کو شوق چڑھا میری خدمات کا ، پھر قومی خدمت کا عزم ٹھان لیا ۔ پھر انہی سول اور ملٹری بابوؤں اور سیاستدانوں سے لڑائ اور جنگ و جدل ۔ اس وقت کے ڈی جی آئ ایس آئ شجاع پاشا کے بیچ میٹ اور دوست کے خلاف اوپر نیچے آٹھ کیس اینٹی کرپشن کے محکمہ میں ۔ اللہ بھلا کرے رئیس المنافقین ناصر سعید کھوسہ کا وہ چیف سیکریٹری بنا اور طارق باجوہ کے ساتھ ملکر مجھے اس MP1 پر کنٹریکٹ سے راتوں رات فارغ کروا دیا باوجود شہباز شریف کی مرضی کے ۔
فیملی کو فورا امریکہ بھیج دیا اور سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی ۔ کچھ پاکستان میں اہم امور نمٹانے کے بعد ۲۰۱۶ میں خود بھی امریکہ منتقل ہو گیا ۔ اس دوران بھی قومی خدمت سے باز نہ آیا ۔ رشوت مکاؤ ڈاٹ کام بنائ ، راشی سرکاری افسروں کو ننگا کیا ۔ ۲۰۱۲ میں لیپ ٹاپ شہباز شریف کو ۱۷۰۰۰ میں دینے کی آفر لگائ ۔ نیب میں کیس بُگھتے اور ۲۰۱۶ میں سپریم جیوڈیشل کونسل میں فرخ عرفان کے خلاف اس وقت کیس دائر کیا جب تمام وکلا اور جرنلسٹز کی ٹانگیں کانپتی تھیں فرخ کی طاقت اور پیسہ کی وجہ سے ۔ جس میں اسماء جہانگیر سر فہرست تھیں ۔ آج بھی حامد خان جیسے فرخ کے وکیل ہیں ۔
میں نے یہ سب کچھ اس لیے بتایا کہ آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ پاکستان میں اصل خرابی ہے کہاں ؟ یہ کون سچا کون جھوٹا والا معاملہ نہیں بلکہ بہت ہی سادہ ہے ۔ پاکستان میں کوئ شخص ، کوئ ادارہ ملک سے مخلص نہیں ۔ جب میری تصویر پاغفور نے غداروں میں لگائ اور باقاعدہ اس کی تشہیر کی گئ ، میری بہن ساری رات روتی رہی ۔ میرے دوست پریشان اور میرا دل اداس ۔
آئ ایس آئ جو ایجینٹ کاموں کے لیے رکھتی ہے وہ ان کا تو کام کرتے ہیں ہوں گے لیکن معاوضہ بہت بھاری ۔ پوری قوم کی مت مار دیتے ہیں ۔ جائیدادوں پر قبضہ کرتے ہیں، بلا جواز لوگوں کو اٹھاتے ہیں ، تشدد کے بعد قتل کرتے ہیں ۔ پیسہ بٹورتے ہیں ۔ یہ بدمعاش یہاں نیویارک اور نیوجرسی میں بھی سرعام پھرتے ہیں اور ان حرکتوں میں ملوث ہیں ۔ نیو یارک سے ایک میرے جیسے سر پھرے پاکستانی عادل انصاری نے ان کے خلاف امریکی عدالتوں میں باقاعدہ کیس کیے ہوئے ہیں ۔ یہی گماشتے پاکستان کے سفارت خانے چلا رہے ہیں اور یہی ملیحہ لودھی جیسی رنڈیوں کو پال رہے ہیں ۔ میرے پاس ان سب چیزوں کے شواہد موجود ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ جو لوگ فوج اور آئ ایس آئ کو رگید رہے ہیں وہ خود انتہا کے گند کے ڈھیر ہیں ، ان فوجیوں سے بھی بدتر ، حسین حقانی ، رضا رومی ، طحہ صدیقی ، وقاص گورایہ ، اقبال لطیف، طلعت حسین وغیرہ وغیرہ ۔ ان کی بھی پلیتی اور گناہوں کہ ثبوت میرے پاس موجود ہیں ۔
تو پھر ہو کیا ؟ پہلا کام ، پاکستان سے پیار اور محبت ، دوئم ہر ادارے میں پاکستان سے مخلص ایماندار لوگ اور تیسرا خدا کا خوف ۔ فی الحال تو ان تینوں چیزوں سے ہم عاری ہیں لہٰزا شکست ہمارا مقدر ۔
فرخ عرفان میرا بہت قریبی دوست اور فیملی فرینڈ ۔ جب فرخ کا باپ فوت ہو گیا تو فرخ وغیرہ بچے تھے ۔ میرے باپ نے فرخ کی والدہ کا ساتھ دیا ۔ تپتی دھوپ میں ان کا گھر بنوایا ۔ فرخ کی بہن اور میری بہن ایک ہی کالج میں بہت سال پروفیسر رہیں ۔ فرخ کی اہلیہ ڈاکٹر افشاں کو میں نے میرٹ پر ایک خالی آسامی پر متعین کیا جب میں ڈپٹی سیکریٹری ہیلتھ تھا ۔ کوئ لڑائ نہیں کوئ جھگڑا نہیں صرف مسئلہ یہ کہ میرا وطن پہلے ، اصول میرے لیے مقدس اور آنے والی نسلوں کا حق میرے پر قرض ۔ آج بھی فرخ بتا دے ک ہاس کے علاوہ کسی ایک بات پر ہمارا اختلاف ہو میں سپریم جیوڈیشل کمیشن سے درخواست نہ صرف واپس لوں گا فرخ کا وکیل بن جاؤں گا ۔ میں نے اپنے سگہ بھائ اقبال چوہان کو نہیں بخشا ، جب وہ سیکریٹری ماحولیات ہوتے ہوئے سات سرکاری گاڑیاں استعمال کرتا تھا ۔ میں نے لندن سے عامر نزیر کے اقبال چوہان کے خلاف مضمون کو نہ صرف اسپورٹ کیا بلکہ اپنے پیج پر لفٹ کیا ۔ اوقاف کی زمین ماں سے سرینڈر کروا کر بھائیوں سے دشمنی مول لی ۔
یوسف کھوکھر سے میری کیا لڑائ ہے ؟ وہ میرے گھر رہتا رہا ، میرا دوست ہے ، میرا بیچ میٹ ۔ لڑائ ہے تو پاکستان کے لیے ، آنے والی نسلوں کے لیے ۔ یہ جنگ جاری رہے گی جب تک میری رگوں میں میرے حلال باپ کا خون دوڑ رہا ہے ۔ موت تو آنی جانی ہے اس کی تو کوئ بات نہیں۔
مجھے پاکستان سے محبت ہے ، اور ہر اس شخص سے جو پاکستان سے پیار کرتا ہے اور سخت نفرت ہے ہر اس فرد سے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے ۔ لہٰزا میری فوج اور آئ ایس آئ سے کوئ لڑائ نہیں بلکہ دونوں اداروں کے گندے انڈوں سے ، جن کے زاتی مفاد پاکستان کو لے بیٹھے ۔ بہت خوش رہیں ۔
پاکستان پائیندہ باد ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...