پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ۔۔۔۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے یہ توقعات وابستہ کر لی گئی تھی کہ اس کے آنے سے معاشرے میں انقلاب آجائے گا ۔حقیت اور سچ عوام کو دیکھایا جائے گا ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں ،جرنیلوں میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔اب تو عوام بھی ان نیوز چینلز سے اس قدر تنگ آگئے ہیں کہ کہتے پھرتے ہیں پی ٹی وی کا زمانہ اچھا تھا ۔نیوز چینلز کو جب بھی آن کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم لگی ہوئی ہے اور انسانیت دنوں میں تباہ ہو نے والی ہے۔ہمارے نیوز چینل کی سنسنی خیزی نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا ہے ۔نیوز چینلز کی نیوز کا اہم حصہ عوامی ایشوز سے مزین ہونا چاہیئے۔عوام کے معاملات اور مسائل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیئے ۔اس کے علاوہ معاشرے کے خوبصورت انسانوں مثلا شاعروں ،پینٹرز اور مصنفین وغیرہ کو اہمیت دی جائے ۔ان کا تعارف کرایا جائے،ان کی پروجیکشن کی جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں شعور،بصیرت اور آگہی پیدا ہو ۔سیاستدانوں اور جرنیلوں کی خبروں اور بیہودہ بیانات ضرور آن ائیر کئے جائیں لیکن نیوز بلیٹن کے آخر میں ان کی جگہ ہونی چاہیئے ۔یہی سیاستدان ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام مصائب اور تکلیف میں ہیں ۔لیکن نیوز چینلز کی نیوز بلیٹن کی ابتداء ہی انہی سیاستدانوں کے فضول بیانات سے کی جاتی ہے جو سب سے بڑا المیہ ہے ۔یہ صحت مندانہ جرنلزم نہیں ہے ۔سیاستدان ہی الیکٹرانک میڈیا کا فوکس ہیں ۔اس کے علاوہ سنسنی خیزی سے بچنے کے لئے سب سے پہلے مثبت پہلووں کو دیکھایا جائے ،اس کے بعد منفی پہلووں کی نشاندہی ہو ۔ہمارے نیوز چینلز تو ہر روز جنازہ اٹھائے رکھتے ہیں ۔منفی پہلووں پر ضرور توجہ دی جائے ،لیکن مثبت پہلووں کو بھی سامنے لایا جانا چاہیئے ۔موت اہم ہے لیکن زندگی اس سے بھی زیادہ اہم اور خوبصورت ہے ۔پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اچھی اور مثبت خبروں میں دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔یہ صرف ان خبروں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں جس میں سنسنی خیزی ہوتی ہے ۔یہ صرف سنسنی خیزی پیدا کرنا جانتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے شعور کا معیار بلند نہیں ہورہا ۔ہمارے نیوز چینلز کے صحافی صرف عوام کے زہنوں میں زہر بھرنے کا فن جانتے ہیں ۔منفی پہلووں کو ایسے اسکرین پر پیش کیا جاتا ہے ،جیسے اس ملک میں سب غلط ہی غلط ہو رہا ہے ،کہیں کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کی نظر میں وہ خبر ہی نہیں جس میں اچھائی ہے ۔پاکستانی نیوز چینلز کے صحافیوں کو سمجھنا چاہیئے کہ وہ آزاد ہیں کسی سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیئے ۔وہ صحافی ہی نہیں جو سچائی کو سامنے لانے سے خوف زدہ ہو ۔صحافی ان لوگوں کو رپورٹ کریں جو معاشرے میں غیر مقبول ہیں اور غیر مقبول مقاصد کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں ۔وہ مقاصد جو عوام میں اور خواص میں غیر مقبول ہیں ،ان کو زیادہ سے زیادہ رپورٹ کیا جانا چاہیئے کیونکہ وہی مقاصد ہی ہماری انسانیت کا روشن مستقبل ہیں ۔اور جو مقبول مقاصد ہیں وہ ہماری تہذیب و کلچر کی گندگی سے پیدا ہوئے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے اسی گندگی کو بار بار دیکھایا جاتا ہے ۔جرنلزم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو ۔کسی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا اس پر کنٹرول نہ ہو ۔میڈیا عوام کے لئے فائدہ مند تب ہے جب وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو ۔اور اس پر کسی قسم کا کنٹرول نہ ہو ۔پھر ہی میڈیا کے صحافیوں کے لئے یہ ممکن ہوگا کہ وہ ان افراد کے لئے کسی قسم کی آواز اٹھا سکتے ہیں جو طاقتور نہیں لیکن معاشرے کی خوبصورتی کے لئے ان کی بڑی اہمیت ہے ۔لیکن یہاں تو ہر نیوز چینل پر ایک لیبل لگا ہوا ہے ۔کسی پر یہ لیبل ہے کہ یہ PRO ESTABLISHMENT ہے ،کسی پر یہ کہ یہ ANTI ESTABLISHEMNT ہے ۔کسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عمران خان کی پروجیکشن کرتا ہے ۔ہر نیوز چینل پر کوئی نہ کوئی لیبل لگا ہوا ہے ۔نیوز چینلز سنسنی خیزی اس لئے پیدا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام یہی ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔جو عوام کو چاہیئے وہی دیکھاؤ۔یہ سنسنی خیزی کا مطالبہ معاشرے کے انتہائی بے شعور طبقے سے آرہا ہوتا ہے ۔کیا ایسے مطالبے کو صرف ریٹنگ کی وجہ سے پورا کردینا چاہیئے؟نیوز چینلز کی زمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اعلی شعور اور آگہی مہیا کریں اور خود ڈیمانڈ پیدا کریں ،یہ نہیں کہ ان کی ڈیمانڈ کو پورا کرتے جائیں ۔جو بے شعور طبقہ چاہتا ہے وہ درست نہیں ،بلکہ اسی وجہ سے تو ان کا استحصال ہورہا ہے ۔نیوز چینلز کی صحافت صرف بزنس نہیں ہے ،یہ ایک عظیم زمہ داری ہے ۔ایسی صحافت کو کاروباری منافع سے بہت بلند ہونا چاہیئے ۔لیکن ہمارے نیوز چینلز کے صحافی اور میڈیا مالکان کاروباری مفادات کی خاطر صحافت کو کرپٹ کررہے ہیں ۔یہ ایک عظیم جرم ہے جو انسانیت کے خلاف ہے ۔نیوز چینلز کی صحافت کو منافع اور ریٹنگ کو قربان کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے ۔اس طرح سے ہی میڈیا اور عوام کے بنیادی مسائل حل ہوں گے ۔ورنہ ہمیشہ نیوز چینلز کی اسکرینوں پر یہ تیسری جنگ عظیم چلتی رہے گی اور ایک دن ہم سب وحشی اور درندے ہو جائیں گے ۔میری نگاہ میں صحافی بھی ایک عظیم انقلابی اور باغی کی طرح ہے جو انسانیت کو بہتر بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔صحافی وہ ہوتا ہے جو حقیقی اور درست مقاصد کے لئے طاقتور قوتوں سے الجھتا رہتا ہے ۔صحافت کو ہمیشہ انقلابی ہونا چاہیئے ،لیکن ہمارے صحافی اسے صرف ایک پروفیشن کی طرح ڈیل کرتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔