کورونا وبا نے جہاں انسان کی زندگی درہم برہم کررکھی ہے وہیں اس کی آمدنے دنیا کی آمد و رفت پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کی مجال جو میڈیا اور سوشل میڈیا کے آڑے آسکے ۔کورونا ایک خطرناک بیماری ضرور مگر میڈیا بھی کسی سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ۔ اسی لیے شایداس نے اپنی موجود گی کا معاون تسلیم کرتے ہوئے اس پر کسی بھی قسم کا حملہ کرنے سے گریز کیا۔فی زمانہ ہماری زندگی تو میڈیا کی نذر ہوگئی ہے۔میڈیا پرگردش کے دوران پاکستانی سیریل جسے اہل پاکستان ’ڈرامہ‘کہتے ہیں،کا شوق بیدار ہوگیا۔ میں نے’ شخص دیگر‘ کی فرمائش پرایک ڈرامہ کو اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل میں جگہ دے دی ۔مجھے کیا علم تھاکہ یہ ڈرامے اتنا بڑے ڈرامہ باز ہوتے ہیں کہ بارباراپنے دیدار کی خواہش کو ابھارتے رہتے ہیں۔ ایک روز علی الصبح ، کسی کام سے فارغ ہوکر یوں ہی دل میں خیال آیا کہ دیکھیں’ منافق ‘ ہے کیا۔۔۔۔؟اس سے پہلے تو کبھی مجھ پر کسی سیریل کا بھوت نہیں سوار ہواتھا چوں کہ میں خود کسی کو اہمیت دینے کا قائل نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہوں مگر اس دن تو عجیب قصہ ہوگیا۔صبح پہلی قسط تمام کی تو دل نے ذرا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کچھ اور دیکھ لو ۔ دیکھوتو آگے ہوتا کیا ہے؟خیر میں نے بھی دل کی مان لی۔اب جو بات چلی سو چلتی ہی رہی ۔ درمیان راہ میں خیال امڈاکہ اب بس کیا جائے ،بہت ہوگیا ہے مگر گذشتہ قسطیں اس خیال کو مات دی جاتیںاور کاناپھوسی کردیتیںکہ یوں بھی لاک ڈاؤن ہے ، کوئی کام وام نہیں ہے۔ممکن ہے اس سے اردو کی اصلاح ہی ہوجائے ۔ اردو کی اصلاح کا خیال یوں آیا کہ ہمارے دوست یہی کہہ کے مجھے ورغلاتے تھے کہ پاکستانی ڈرامے دیکھ لو ، ان کی اردو بہت نپی تلی ہوتی ہے ۔سو میں جال میں آہی گیا۔
’منافق‘رواں سال۲۷؍ جنوری ۲۰۲۰میں جیو ٹی وی پر نشر ہونے والا ایک پاکستانی فیملی ڈرامہ ہے جو ساٹھ قسطوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔یہ ڈرامہ حنا ہمانفیس کی لکھی اسکرپٹ پر مرکوز ہے۔ اجالا ، ارمان ،صبیحہ بیگم ، حمزہ اور صوبیہ اس کے مرکزی کردار ہیں۔ اداکارہ اجالاایک نجیب اور متوسط گھرانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے والد اور بھائی دونوں ارمان کی فیکٹری میں ملازم ہوتے ہیں ۔ ایک روز ایک گیس حادثہ میں ان دونوں کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اجالا کا یقین کامل تھا یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے جبکہ ارمان اسے محض ایک حادثاتی موت قرار دینے پر مصر تھا۔اجالاایک بیٹی اور بہن کے روپ میں اپنے باپ اور بھائی کے قاتل سے انتقام لینے کی ٹھان لیتی ہے ۔ مکمل عزم و ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے مگرایک متوسط گھرانہ کی تنہا لڑکی کب تک انتقام کی جنگ لڑتی ۔۔۔۔!؟ڈرامہ میں بھی ایسے ہی مشاہدات سامنے آئے ۔ اس نے چند روز سر توڑ کوشش کی لیکن یک و تنہا اور افلاس و مصیبت کی ماری لڑکی کہاں تک لڑتی ،وہ بھی ایک امیر زادہ سے۔ آخر کار حالات نے اسے جنگ بندی پر مجبور کرہی دیااور باپ وبھائی کے قاتل سے جبراً اور سیاسی مفاد کے پیش نظر اس کی شادی رچادی گئی ۔آتش انتقام کی کو محض سرد کرنے کی غرض سے کی گئی شادی تو بہرحال کوئی رشتہ نہ تھالیکن یہاں اجالا کا کردار مکمل طور پرمحبت میں بدل جاتا ہے۔ ایک مظلوم لڑکی جو اپنے مقتول کے انتقام میں اللہ پر اتنی یقین رکھتی تھی، محض ایک کاغذی نکاح کے بعدقاتل پر جان کیسے چھڑکنے لگی۔چلئے کسی حد تک اسے قبول کرلیتے ہیں مگر جب شوہر کا اصل چہرہ سامنے آگیا کہ یہ نکاح محض ایک سیاسی کھیل تھا پھر بھی اس کے لیے اپنی زندگی قربان کرناچہ معنی دارد۔۔۔!؟کیا کوئی اتنا زیادہ مثبت ہوسکتا ہے ۔۔۔؟قاتل شوہر کے لیے دل و جان نچھاور کرنا احمقانہ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسا نہ تو سماج میں ہوتا ہے اور نہ ہی اندھی محبت میں ۔
اجالا دنیا کی نگاہ میں ایک محل میں زندگی گزاررہی ہے جو کہ در حقیقت ایک سونے کا پنجڑہ ہے ۔ میں تو ’سونے کے پنجڑہ ‘ کی تعبیر کا بھی قائل نہیں۔اس میںکم ازکم پرندہ کوبر وقت غذا اور محبت میسر ہوجاتی ہے مگر یہاں تومحبت کا نام ہی معدوم تھا۔ہاں !یہاں صبر اور مثبت کردار کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ جس گھر میں پہلے ہی اتنے مصائب بسیراکئے ہوں ،اس میں مزید مصائب کا اضافہ سوہان روح ثابت ہوسکتا ہے۔اتنی ساری مشکلات پرگلہ نہ کرنا بہرحال ایک مثبت پہلو ہے۔اسی سبب جب اجالا کو ارما ن کی دنیا سے نکال کر حقیقت دکھادی گئی تو اس نے اپنے گھر میں سکونت کے بجائے آنسو اور صبر کا سہارا لیا۔یہ عظیم اور اٹل سچائی ہے کہ آنسو بہت بڑی طاقت کا نام ہے ۔ غم و آفات کو کم کرنے کا بہترین راستہ آنسو ہے ۔ جب بچہ پریشانی میں ہوتا ہے تو رونے لگتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اس سے زیادہ کارآمد اسلحہ نہیں ہوتا ۔
تاریک شب میں شہر کی دربدر ٹھوکریں کھانا کس کوپسند ہے؟حالات مجبور کرتے ہیں ۔ ڈرامہ میںاس کڑوی حقیقت کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ درمیان راہ حمزہ آجاتا ہے اور سیاہ شب میں امید کا اجالااپنے ہمرالے جاتا ہے ۔ حمزہ کے گھر میں اجالا ہے جبکہ اس کی زندگی میں کشمکش ۔ اسے گھر کی چہاردیواری میں قید اجالاسے بے تحاشہ محبت ہوگئی تھی ۔اس نے ایک طویل مدت تک اجالا کی خدمت کی اور اس دوران اس کی سسرال سے ہمدردی کا ایک پیغام بھی نہ آیالیکن ابھی بھی اجالا کا اندھا اور ایک طرفہ عشق جاگ رہاتھا۔یہ الگ بات کہ ارمان کے دل میں اس کے لیے کبھی جگہ تھی ہی نہیں ۔ یہ بات اس کو بھی معلوم تھی مگر اسے حقیقت بدلناتھا۔ اس کا ماننا تھا کہ اس واجب الوجود کے سامنے ممکن کا تصور بھی محال ہے۔ وہ ’کن ‘کہتا ہے ’فیکون‘ ہوجاتا ہے۔اس کو اپنے پروردگار پر بے حد بھروسہ تھا مگر ڈرامہ میں اس کو مکمل اور واضح طور پر ثابت نہیں کیا گیا۔ اس کو یقین تھا کہ اسے اپنے باپ اور بھائی کا انصاف ملے گا مگرایسا ہوا نہیں ۔
ایک مدت ہوئی حمزہ کے گھر قیام کئے ہوئے ۔حمزہ نے شادی کا اظہار بھی کیا مگر جواب منفی ملا۔ ڈرامہ کایہ عجیب کردار تھاکہ ارمان فیملی کی حقیقت برملا ہوجانے کے بعدبھی اسے نیکی کی امید تھی۔ کیا واقعا ایسا ہوتا ہے؟ ایک انسان پر سب کچھ واضح ہوجانے کے بعد محض ایک کاغذی نکاح پر اتنا بھروسہ کہ دنیا و مافیہا کی کچھ نہ سنے ۔
اب ارمان کی صوبیہ سے شادی ہوچکی ہے ۔ ڈاکٹربھی خلاصہ کرچکے ہیں کہ صوبیہ ماں نہیں بن سکتی ۔سواندھیرے میں اجالا کی ضرورت محسوس ہے ۔ارمان آتا ہے تاکہ اجالا کی گھر واپسی ہوسکے لیکن عدم یقین دہانی کے باعث ارمان،اجالا سے محروم رہتا ہے۔ اب صبیحہ بیگم آتی ہیں ۔انہوں نے ہلکا سا نفساتی جال پھینکااور ناراض محترمہ راضی ہوگئیں ۔ایک جملہ پر مہینوں بھر کے دکھ درد سب قربان ۔۔۔!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایسی لڑکی جوہر عملی اقدام سے پہلے دسیوں دفعہ اس کے پہلوپر نگاہ کرتی ہے ،جھٹ ایک نفسیاتی جملہ پر اپنے ہرے زخم فراموش کرجائے ۔ شاید یہ اندھی محبت کی آخری حد ہے!
ارمان کے دل میں جگہ بنانے کی حسرت بس دعا اور مناجات تک ہی محدو د رہ گئی ۔ اجالا کا شب و روز عبادت میںبسر کرنا کس کام کا ۔۔۔؟ دعا تو قبول نہیں ہوئی ۔ یہ منفی کردار کی جانب بھی ایک قدم ہوسکتا ہے اور مثبت کردا ر کی طرف بھی کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ بہترہی کرتا ہے لیکن یہاں تو بہتری کا تصور ہی معدوم ہے۔ آنکھ کھلنے اور حقیقت آشکار ہوجانے کے بعد سچائی کے خلاف دعا کرنا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
اجالاکی اولاد ہوجاتی ہے ۔ اسے ورغلاکر ارمان نومولودکو بیرون ملک لے چلاجاتا ہے ۔ ماں کو مردہ بچہ کی خبر دی جاتی ہے ۔یہ جھوٹ پورے ڈرامہ میں پس پردہ ہی رہا جبکہ اس کا پردہ فاش ہونا ضروری تھا ۔ اب اسپتال میں اس اجالا کی مدد کرنے کو صرف وہی حمزہ آتا ہے۔ سارے مشکلات میں اس کا سہارا صرف وہی اس کا عاشق ہوتا ہے۔ وہ اپنے سسرال آتی ہے اور مایوسانہ زندگی کی شام و سحر کاٹنے لگتی ہے۔ ارمان کی آمد نے اسے خوش تو کیا مگر نومولود کے دیدارنے اس کے دل میں شکوک پیدا کردیئے ۔ اس نے یہاں حمزہ کا سہارا لیا اور تفتیش کے بعد حقیقت کھل گئی کہ نومولود تو درحقیقت اسی کا خون ہے۔ماںاپنی ممتا ثابت کرنے کی راہیں فراہم کرتی ہے ۔ ڈی ۔این۔ اے کراتی ہے اور حقائق ثابت ہونے کے بعد اپنے بچہ کو راتوں رات گھر سے اٹھا کر جانب شہر بھاگ جاتی ہے۔ اجالا کی والدہ کے موبائل پرآئی کال کو ٹریس کرکے ارمان اجالا سے اس کا ارمان چھین لیتا ہے ۔ یہاں آخر تک اجالااور حمزہ کے درمیان غلط فہمی بنی رہتی ہے کہ ارمان کو اجالا کی موجودگی کا علم حمزہ کے باعث نہیں بلکہ اس کی والدہ پر آئی کال سے ہوا تھا۔ یہ بات واضح ہوجاتی تو اجالا کے دل میں حمزہ کے لیے بہرحال جگہ بن جاتی۔
اب سارا جھگڑا بچہ کی ذات سے ہے ۔ وہ ارمان کے پاس رہے گا یا اجالا کے پاس۔ یہاں بھی حمزہ سہارا بنتا ہے ۔ اس کردار میں بھی اجالا اپنے رب پر یقین کامل کا مظاہرہ کرتی ہوئی خود کیس لڑتی ہے مگر یہاں بھی اس کی مراد پوری نہیں ہوتی ۔ہاں! اسے اپنا بچہ مل جاتا ہے۔اگر چہ یہ کردار(کیس ہارجانا) منفی اثر رکھتا ہے لیکن حقیقت میں دولت بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔
جب حمزہ اپنا وعدہ پوراکردیتا ہے تو اس کے حسرت بھلے کلمات کہ اب مجھے کوئی جھوٹی تسلی مت دینا میں مر جاؤں گا۔ تب اجالا اسے اپنا بچہ دیدیتی ہے ۔یہ ڈرامہ کااختتام ہے ۔ میری نگاہ میں اس کی تکمیل ادھوری سی ہے۔ پورے ساٹھ قسطوں کے ڈرامہ میں ایک شخص اپنی محبت کے لیے جانے کیا کیا زحمتیں اٹھاتا ہے ۔یہ انصاف نہیں کہ اس کے اظہار محبت کے لیے محض رضایت کی ایک ہلکی سی جھلک پر اختتام کردیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تھا کہ کم از کم شان و شوکت سے شادی ہوتی اور دونوں کے مابین جو باتیں ابھی تک واضح نہ ہوسکی تھیں ، سب سے پردہ اٹھتا۔ صبیحہ بیگم ایک نیک عورت کی صورت میں توبہ کرتیں اور سب مل جل کر ایک متحدانہ زندگی گزارتے ۔ اس طرح ڈرامہ کا اختتام مثبت کردار پر ہوتا تونہایت عمدہ اختتام ہوتا ۔ڈرامہ کا عجیب خلاصہ ہے آغاز بھی قتل سے اور اختتام بھی قتل پر اوردرمیان کے ساری قسطیں محبت کے گرد گھومتی ہیں ۔
اس ڈرامہ میں کچھ سین غیرواضح رہے ہیں جن کا سب پر عیاں ہونا ڈرامہ میں چار چاند لگا سکتا تھا۔
ڈرامہ کا نام ’منافق‘بجا سہی لیکن منافقت سے زیادہ خود غرضی کو دکھایا گیاہے۔ اگرچہ اجالا کا کردار ایک مومنہ کی صورت عیاں کیا گیا ہے لیکن کہیں نہ کہیں اس کی مطلب پرستی کی جھلک دکھ ہی جاتی ہے۔ اب چاہے وہ مجبوری ہی کیوں نہ رہی ہو۔ دوسری دفعہ ارمان کے گھر میں اس کی آمد ہوتی ہے اور وہ صرف ایک دکھاوے کی محبت کی خاطر اپنے محسن حمزہ کی کال پر یوں برہم ہوجاتی ہے کہ گویا دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں جبکہ وہ توصرف حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کررہا تھا۔دراصل صوبیہ بچہ جننے سے قاصرتھی ۔ یہ حقیقت بھی ہمیشہ کے لیے پس پردہ ہی رہی۔ اگر یہ نیم تشنہ موضوع اجالا کی آگاہی میں آجاتاتو اس کے دل میں حمزہ کے لیے ضرورمحبت جاگ جاتی۔مان لیتے ہیں کہ ایک غیر مرد سے بات کرنا غلط ہے مگر وقت ضرورت اسے استعمال کرنا بھی توٹھیک نہیں ۔
ایک بات جو ویکی پیڈیا پر تحریرہے کہ یہ فیملی ڈرامہ ہے۔جبکہ بعض ایسے مشاہدات ہیں جسے ایک شریف انسان کبھی بھی دیکھنے سے راضی نہیں ہوگا۔ عدیل کا اجالا کی تنہائی کا فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کرنا۔اسی طرح حمزہ کا ابتدائی قسط میں اجالا کو گھر پہنچانے کے بہانہ کسی گھر میں بند کرنے، موبائل چھین کر اسے پریشان کرنے اور ذرا سی جسمانی قربت ہونا۔نیت صاف تھی یا دھندلی ،اس سے کوئی مطلب نہیں لیکن پیغام غلط جاتا ہے ۔
اجالا کو اتنازیادہ صابر، شریف اور مجبوردکھایاگیا کہ وہ اپنے ’مافی الضمیر ‘کی ادائیگی سے بھی قاصر نظر آتی ہے کہ کم از کم اپنے حق کا دفاع تو کرسکے۔ سچ ہے کہ انسان کبھی کبھی اتنا مجبور ہوجاتا ہے لیکن کب تک ۔۔۔۔؟!چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی ہے۔ اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوا وہ پھر بھی وہ اپنی بے گنا ہی ثابت نہ کرسکی ۔ ایک دفعہ ارما ن کے گھر حمزہ کاآنا تاکہ صوبیہ کے متعلق حقائق سے پردہ اٹھایا جاسکے کہ اسی اثنا ارمان و صبیحہ بیگم آگئیں ۔ اس وقت ارمان کی نگاہ میںدونوں کسی غلط کام میں ملوث تھے ، کے خیالات آگئے ۔ اس وقت بھی اجالا واضح نہ کرسکی کہ ماجرا کیا ہے جبکہ حمزہ نے تو بتایا بھی کہ اسے صوبیہ نے کسی کام کے تحت بلایا ہوا تھالیکن صوبیہ اپنی بات سے پلٹ گئی ۔ اب ماجرا کافی مشکل ساز ہوگیا تھا حقائق پھر بھی غیر واضح رہے۔
جب اجالا کودوبارہ ارمان کے گھر سے نکال دیا گیا اور طلاق نامہ بھی آگیا۔اس وقت بھی مطلقہ کا دل حمزہ سے شادی کرنے کی جانب مائل نہ ہونا بھی عجیب کردار تھا ۔اجالا کا ارما ن پر اس حد تک اندھا یقین کہ دوسری بار گھر سے بے دخل ہونے کے بعد ارمان کی ایک کال پر اتنی خوشی کہ گھر کی آرائش کرڈالی اورتحفہ میں کیا ملا وہی طلاق نامہ ۔
حمزہ کے گھر آئے مہمان عدیل کی بدسلوکی و بدتمیزی سے حمزہ کو آگاہ نہ ہونا اوراجالاکا اپنے سچ ہونے کا محکم ثبوت پیش نہ کرنا جس کے باعث حمزہ کے دل میں ذرہ برابر سی ہی سہی یہ بات بیٹھ گئی کہ کہیں اجالا بھی تو اس کام میں ملوث نہیں ہے۔ اس اہم کردار کا شفافیت سے محروم رہنابھی نا مناسب تھا۔
جب اجالا حمزہ کے ہمراہ ریسٹورانٹ میں گئی اور اچانک سے وہاں ارمان کی آمد ہوگئی ۔سو دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی ۔ یہ غلط فہمی کی خلیج بھی پر نہ ہونے پائی کہ و ہ اپنے شاگردہ کے اصرار پر وہاں آئی تھی ۔
بہرکیف، ڈرامہ کے تعلق سے لکھنے کو بہت کچھ ہے،کہاں تک ضبط تحریر میں لایا جائے لیکن ایک بات واضح کہ یہ ڈرامہ مجھے کافی پسند آیا۔اپنی نوعیت کا بہترین ڈرامہ تھا ۔ڈرامہ کا سارا کردار بہترین رہا ہے لیکن حمزہ کی اداکاری اور کردار دونوں لاجواب رہے ہیں ۔ مجھے تو اس کے کردار نے اپنا دلدادہ بنالیا ہے۔سچ تو یہ کہ میرا سارا تمرکز حمزہ کا کردارہی رہا تھا۔ ہاں! میری نگاہ میں کچھ باتیں غیر واضح تھیں جن میں سے صرف بعض کو صفحہ قرطاس کے حوالہ کیا گیا ہے ۔ تنقید، بلندی کی طرف جانے کا محض ایک راستہ ہے۔
“