امی جان سے یہ سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ پاکستان نے ہمیشہ مثالی,با مقصد اور سبق آموز ڈرامے و فلمیں بنانے میں اپنا لوہا پوری دنیا میں منوایا ہے۔ پاکستانی فلمیں اور ڈراموں کی کہانیاں معاشرے کے ہر پہلو اور ہر کردار کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان کہانیوں میں گھریلو پن بھی ہوتا تھا تو رومانوی داستانیں بھی ۔ ڈراوؑنا عنصر بھی تھا تو ثقافت کو اجاگر کرتی لوک داستانیں بھی ۔ پر تجسس واقعات بھی ہوتے تھے اور کامیڈی ایسی کہ شائقین کو ہنسنے پر مجبورکرتی تھی۔ غرض ان میں ہر قسم کی اور ہر عمر کے لوگوں کے لئے تفریح ہوتی تھی
پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے روزانہ اور ہفتہ وار ڈراموں سے ہر عمر کا انسان لطف اندوز ہوتا تھا ۔ جوانوں میں رات آٹھ بجے والا ڈرامہ اس قدر مقبول ہوتا تھا کہ جب وہ آن ایئر آنے والا ہوتا تھا تو بازار اور محلے کی گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں ۔ اماں حضور کے مطابق محبوب عالَم اور اورنگزیب لغاری کے ڈرامے" وارث" نے تو انسانوں کو اپنے سحر میں قید کر دیا تھا ۔ وہ سحر اس ڈرامے کی کہانی کا تھا جو لوگوں کے دماغ پر نہ مٹنے والے اثرات چھوڑ گئی اور لوگ آج بھی اسے یاد کر کے اپنے بچوں کو اس ڈرامے کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ نور الہدیٰ شاہ کے قلم سے نکلنے والی داستان "ماروی" میں غزل سلام اور مرحوم حسّام قاضی نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔
اسی طرح ایک لمبی فہرست ہے پاکستانی ڈراموں کی جس میں دھوپ کنارے, دن, ان کہی, دیواریں, دھواں, الفا براوو چارلی اور ایک محبّت سو افسانے سر فہرست ہیں۔ بچوں میں کم دورانیے والے ہارر, سائنس فکشن اور مزاح پر مبنی ڈرامے خاصے مقبول تھے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی ڈرامے تھے جو بڑوں اور بچوں میں یکساں مقبول ہوئے جن میں انکل سرگم, گیسٹ ہاؤس, عینک والا جن, مس روزی اور جیدی کے کردار آج بھی ہمیں ذہن نشین ہیں اور ان کی آوازیں آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں ۔ یہ شکوہ بھی بچپن سے گھر میں سنتے آتے تھے کہ پڑوسی ملک ہمیشہ ہمارے ڈراموں اور فلموں کی کہانیاں یہاں تک کہ گانے بھی چوری کرتا ہے جن میں پوری ایمانداری سے چوری کی ہوئی دو فلمیں دہلیز (انڈین ورژن اونچے لوگ), آئینہ (انڈین ورژن پیار جھکتا نہیں) اور متعدد گانے ہیں ۔ یہ کمال ان سکرپٹ رائیٹرز کا تھا جنہوں نے پڑوسیوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ کہانی اور گانے چوری کرنے پر مجبور ہوئے ۔
پاکستانی ڈرامے نہ صرف ہندوستان بلکہ بنگلہ دیش,افغانستان, نیپال, برطانیہ, ناروے, امریکا, کینیڈا اور ترکی میں بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان نے 1980 سے پاکستانی ڈرامے دھوپ کنارے, داستان, ان کہی اور وارث نشر کیے پھر Zee TV نے پاکستانی ڈراموں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ وہ کمال سنہری دور بظاہر لازوال نظر آ رہا تھا لیکن یہ قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے لہٰذا پاکستانی فلم انڈسٹری تو سالوں پہلے زوال پذیر ہو چکی لیکن ڈرامہ انڈسٹری میں ابھی ہلکی سی سانس باقی ہے جو کہ مستقبل قریب میں نکلتی نظر آ رہی ہے ۔
ڈرامے ہمیشہ معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں افسوس کہ آج پاکستانی ڈراموں کو دیکھ کر ہم یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا واقعی آج ہمارا معاشرہ اس ذہنی, اخلاقی اور معاشرتی پستی کا شکار ہو چکا ہے جس طرح کی عکاسی ڈراموں میں کی جا رہی ہے ۔ سازشی ماحول, رشتوں میں دم توڑتی انسانیت, لیوش لائف سٹائل, میک اپ کا بے دریغ استعمال, آرائش و زیبائش کے نام پر گھروں میں بت, شارٹ کٹ میں پیسے کمانے کے طریقے, مقدس رشتوں کی توہین, نیم عریاں لباس, سماجی بے راہ روی, دین سے دوری, طلاق کی کثرت,والدین کی نا فرمانی یہاں تک کہ منشیات کا سر عام استعمال بھی دکھایا جاتا ہے۔
اس بے اخلاقی اور بےہودگی کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ "ہم لوگوں کو وہی دکھا رہے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں " ۔ یہ دلیل تب تک قابل قبول تھی جب تک پاکستانی میڈیا پر صرف مثالی اردو ڈراموں کا راج تھا لیکن 60 کی دہائی سے پاکستانی میڈیا پر دوسرے ممالک کے ڈراموں کو نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جن میں امریکا, کوریا, اسپین اور ترکی شامل ہیں ۔ ترک ڈرامے جیسا کہ نازلی, پیار لفظوں میں کہاں, آبرو, کوسم سلطان, میرا سلطان اور فاطمہ گل خاصے مقبول ہوئے لیکن جس ترک ڈرامے نے پاکستان میں عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اور پاکستانی ڈراموں کی شہرت کو ماند کیا۔ وہ ہے خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کے والد ارطغرل غازی کی زندگی پر مبنی تاریخی سیریز دیریلز" ارطغرل غازی"۔ ارطغرل ڈرامے نے اس کمزور دلیل کو ختم ہی کر دیا کہ "ہم لوگوں کو وہی دکھا رہے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں "۔ سارے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ لوگ اصل میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈراموں کے شائقین گزشتہ چند سالوں سے مقامی ڈراموں میں معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ, میک اپ سے لدے چہرے,نیم عریاں لباس,دھوکہ و فریب کی داستانوں, کمزور اداکاری, بےجان اسکرپٹس اور غیرمعیاری پروڈکشن دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں ۔ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے عوام کبھی یہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی ڈرامہ کبھی زوال پذیر ہو ۔ لوگ آج بھی بے تاب ہیں کہ وہی ڈرامے بنیں جو ہوتے تو 13 سے 14 اقساط پہ مشتمل تھے لیکن سالوں تک اپنی چھاپ چھوڑ جاتے تھے ۔ وہ اداکار اپنے اصلی نام سے نہیں بلکہ کردار کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور ان کی ادا کاری اتنی جاندار ہوتی تھی کہ لوگ ان کہ ساتھ ہنستے اور روتے تھے۔ کاش! وہ دور پھر واپس آئے ۔