پاکستانی برائے فروخت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کون واقف نہیں کہ اس ملک میں " لاپتا افراد" کی روز افزوں تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔۔ وہ میرے آپ جیسے عام فیملی والے انسان تھے جو "اچانک" غایؑب ہوتے گئے۔۔وہ نہ جادوگر تھے نہ بھوت۔۔وہ میرے آپ جیسے لوگ تھے جو شفیق باپ تھے۔۔ وفادار شوہر۔۔خمت گزار بیٹے۔۔جو ہر روز معاش کیلئے کسی نہ کسی کام پر جاتے تھے اور لوٹ بھی آتے تھے۔کبھی منی کیلئے گڑیا لے کر کبی منے کیلئے چابی کی کار لے کر۔۔ ۔۔دیر سویرکی کوئی بات نہیں۔۔لیکن پھر ایک روز وہ جیسے لوٹ کے آنا بھول گئے۔۔منتظرآنکھیں کسی راستے کو تکتی رہیں اور کان کسی دستک پر لگے رہے مگر مایوسی کے گھپ اندھیرے میں نا امیدی پکارنے لگی۔
۔اپنے بےخواب کواڑوں کو مقفل کرلو
۔۔اب یہاں کویؑ نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
۔کسی نے ان کے انتظار کا کرب نہیں دیکھا۔۔ آنسو نہیں دیکھے اورعذاب کونہیں دیکھا۔اور فریاد نہیں سنی۔۔ ۔نہ ظل الہی نے۔۔نہ دستار و قبا کے ساتھ منبر انصاف پر فروکش قاضی القضا نے۔۔ وہ دربدر پھرے ۔فریاد کے جرم میں معتوب ہوئے۔۔کوچہ و بازار میں جبر و تشدد کا نشانہ بنے ۔۔۔ لیکن
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جاےؑ گا۔۔
بالاخر ان کی سنی گئی۔ کچھ لوٹ آئے۔۔پھر کچھ اور بھی لوٹ آئے۔۔کسی نے کچھ بھی نہیں بتایا کہ وہ کس دیس چلے گئے تھے کہ لوٹ کے گھر نہ آئے
یہ ایک جنرل نے بتایا۔
۔جو کمانڈو بھی تھا۔۔ فاتح کارگل بھی اورغاصب بھی اور صدر مملکت بھی دس سال رہا مگر اب امتداد زمانہ کے باعث مستند "غدار" پے اور مفرور ہے۔۔۔ اس نے ڈینگ مارنے کو اپنی خود نوشت لکھنے کی ٹھانی کیونکہ اس سے پہلے ایک فیلڈ مارشل عیوب خان لکھ چکا تھا اور 'توزک بابری" کے وقتوں سے ہر شہنشاہ کا دستور رہا تھا۔۔ تلاش پر قرعہؑ فال شاہی مورخ کیلئے "ہمایوں گوہر" ( پسر الطاف گوہرآف ناینتھ ایوینیو فیم) کے نام نکلا۔ دروغ بر گردن راوی مشاہرہ 52 ڈالر فی گھنٹہ (علاوہ دفتری سہولیات ایوان صدر میں ) مقرر ہوا ۔۔
اس پتنگ باز سجنا۔۔ سنگر اینڈ ڈانسر۔ کتون کو انسانون سے زیادہ پیار دینے والے پرویز مشرف نے اس آپ بیتی میں اعتراف کیا کہ اس نے "متعدد" پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرکے ملک کیلئے زر مبادلہ کمایا
تعداد ان کی کل جاوید اقبال ریٹایرڈ جج سپریم کورٹ اف پاکستان نے کل بتایؑ جو 4000 کے لگ بھگ بنتی ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ زیادہ تر امریکہ کو دئے گئے اور ان کے بدلے ڈالر وصول ہوئے لیکن یہ نہیں معلوم کہ کتنے۔۔تفصیل اس کی آپ روزنامہ " ٹریبیون" کے ادارےؑ میں صفحہ 16 پر دیکھ سکتے ہیں
Missing in Muddy Water
کیا ہم اپنی دن رات انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والی عدلیہ سے یہ پوچھنے پر "توہین عدالت" کے نجرم تو نہیں ہوں گے کہ مائی لارڈ۔۔جب چند سال قبل اعتراف جرم پر مبنی یہ کتاب شایؑع ہوئی تو آپ کیوں خاموش رہے تھے؟
آپ نےاس بردہ فروش سے کیوں نہیں پوچھا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی کے عوض کتنے ڈالر وصول کئے تھے؟
مجموعی رقم کتنی تھی اور کس کھاتے میں گئی؟ اس کے ذاتی اکاونٹ میں؟
بیت المال میں گئی تو کس قانون کے تحت؟ کس ہیڈ آف اکاونٹ میں؟۔۔۔
کیا یہ "بیرون ملک پاکسانیوں کی ترسیل" میں شمار ہوئی؟
اس قوم فروش غاصب کا یہ ننگ انسانیت جرم معزز عدالت کے علم میں تھا تو اس کی فردجرم میں شامل کیا گیا؟
اس کی قانون میں کوئی سزا ہے؟کسی ملک کے نظام انصاف میں اس کی نظیر ہے؟
کیا کوئی جے آئی ٹی یہ معلوم کرنے کیلئے بنائی جائے گی کہ یہ زر مبادلہ کمانے کی قومی خدمت جاری ہے توآج کل ایک مطلوب پاکستانی کا ریٹ کیا ہے؟
یہ کسی ایرے غیرے کا نہیں سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کا بیان ہے جو "لا پتا افراد کے کمیشن"کا سربراہ تھا۔۔۔۔اور فی زمانہ نیب کا سربراہ ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔