پاکستانی برآمدات اور معیشت کی تباہی ۔
کل یہاں مجھے امریکی دوست جن کے پاس ایک عدد ۲۰۱۱ کی Lincoln کار ہے بتا رہے تھے کہ جب سے اس کار کے پرزے امریکی کمپنی Ford نے بنانے بند کر دیے بہت مشکل پیش آ رہی ہے ۔ لیکن کل میرے میکینک نے ہندوستان سے آٹو پارٹ کی چائنہ کی مناسبت سے بہت تعریف کی ۔ بلکہ اس نے بتایا کہ ہنڈا اور ٹیوٹا بھی انڈیا سے اب پارٹس بنوا رہی ہیں جو امریکہ آ رہے ہیں اور ان کا معیار چین سے قدرے بہتر ہے ۔
کل ہی میں Bloomberg پر مضمون پڑھ رہا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ دراصل انڈیا اپنی سبزیوں اور پھلوں کی بر آمد ات کے زریعے one belt one road کا تمام ملکوں سے سب سے زیادہ فائیدہ اٹھائے گا ۔ بلکہ اسی مضمون میں یہ بیان تھا کہ پاکستان اس وقت جن شدید مالی مسائیل میں گھرا ہوا ہے شاید اس سے کوئ بھی فائیدہ نہ اُٹھا سکے بلکہ دیوالیہ ہو جائے ۔ چین اس ضمن میں شدید پریشان ہے ۔ قرض ۹۰ بلین ڈالر پر پہنچ گئے ہیں ، فارن ایکسچیمج زخائر ۱۱.۵ بلین ڈالر پر ہیں اور اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہ دیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت قدر مزید کم نہیں کی جائے گی ۔ انہی کہ ایک عدد بڑے بھائ ریٹائر ہو کر پاکستان کی Bureau of Statistics کے تا حیات سربراہ ہیں ۔ ماشا ء اللہ ہر سال پرانے اعداد شمار چھاپ دیتے ہیں ۔ ۱۹۰۲ کا سافٹ ویر ہے جس پر یہ سب data ہے ۔ ایک Bill Gates کے پاکستانی شاگرد نے ماڈرن کرنے کے لیے اپنی سروسز آفر کیں تو نہ صرف ٹھکرا دیں گئیں بلکہ نالائق کہ کر جھڑک دیا گیا ۔
ڈاکٹر توقیر پر شہباز شریف کا بوٹ پالیشیا اور ۱۴ قتل کا الزام تو بے شک ہے اور درست بھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر بابو کریسی اسے جب سے تقریباً ۵۰ سال پہلے کامن ٹریننگ شروع ہوئ بہترین بابو گردانتے ہیں ۔ مہا کلا کار ۔ فنکار ۔ اتفاق سے وہ آجکل پاکستان میں ہی ہیں ان سے درخواست کی جائے کہ وہ ایک پریسر کریں اور بتائیں پچھلے دو سال سے WTO میں پاکستان کے ایمبیسڈر ہونے کہ ناطے پاکستان کے ٹریڈ کے لیے کیا کیا ؟یا زیادہ وقت بچوں کی تعلیم اور جینیوا کی جھیل پر گزار دیا ۔
پاکستان کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے یہاں performance evaluation نامی چیز ہی کوئ نہیں ہے ۔ ۲۰۰ ارب میں سے پنجاب کی کمپنیوں نے ۱۰۰ ارب غیر ترقیاتی خرچوں پر لگا دیا اور تمام CEO نادم ہونے کی بجائے سپریم کورٹ میں دانت نکال رہے تھے ۔ اور چیف جسٹس پوچھ رہے تھے چیف سیکریٹری سے کِہ کوئ ایک بوند بھی صاف پانی کی ملی ؟ اوہ بھئ کیسے ملتی میرے بھولے چیف جج ، اس ے تو بلٹ پروف گاڑیاں خرید لیں ، چیف منسٹر کے داماد کا لاکھ روپے والا فلور کروڑوں کرائے پر لے لیا ۔
اس پاکستان کو آپ ٹھیک کرنے کا سوچ رہے ہیں ؟ اور وہ بھی عمران خان جیسے کے ہاتھوں ؟
پھر مجھے علامہ اقبال یاد آتے ہیں ۔ ضرب کلیم میں فرماتے ہیں ۔
“تھا جو نہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر”
اس کی پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی صاحب نے بہت خوبصورت الفاظ میں تشریح کچھ یوں کی۔
“غلامی کی حالت میں قوموں کی اچھائ اور برائ کے معیارات بھی بدل جاتے ہیں، اور وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر آقاؤں کے ہی پیمانے اختیار کر لیتی ہیں ۔ غلام شخص یا گروہ ہمیشہ آقا سے مر غوب رہتا ہے اور زندگی کے بیشتر شعبوں میں اسے ہی معیار سمجھتا ہے ۔ اس زہنی غلامی کے نتیجے میں اسے بہت سی ناپسندیدہ باتیں اور معاملات بھی آہستہ آہستہ درست اور بہتر لگنے لگتے ہیں “
کیا ہم اس زہنی غلامی سے نکل پائیں گے ، ؟ جس طرح ہمارے میڈیا نے ہوا کا رخ دیکھ کر ایک دم نواز شریف کے خلاف پلٹا کھایا لگتا ہے یہ غلامی ہماری genes میں ہے ۔
لیکن مجھے جس بات کا فکر ہے وہ اس سے بھی خطرناک ہے ، کہ کیک ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ جب کیک ہی نہیں بچے گا تو پھر مغلیہ شہزادوں کی طرح چھتوں پر چڑھ ، کر چنگھاڑ چنگھاڑ کر موت مانگنے کے سوا کوئ چارہ نہیںُ ہو گا ۔ چیف جسٹس صاحب ، کافی اور بسکٹ کھلانے سے بابو اور سیاستدان پیسا نہیں نکالے گا ۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ مسئلہ کھائے ہوئے پیسہ کا ہے ، معاشی نیئئیا ڈوب رہی نہیں ڈوب گئ ہے ۔
Titanic بنانے والوں نے بھی یہی کہا تھا کہ یہ ایسی تخلیق ہے جو کبھی نہیں ڈوبے گی مگر قدرت کا اپنا نظام ہے ۔ جس میں کائنات کا معاملہ ہے چند لوگوں کی بدمعاشی کوئ معنے نہیں رکھتی ۔ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہر کر رہتا ہے ۔
جیتے رہیے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔