تحریر لکھنے کی وجہ بیان کرنے سے پہلے آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہُوں ۔ ابھی جب دسمبر جنوری میں ناچیز پاکستان گیا تھا تب ایک کزن کی شادی پر راولپنڈی سے سرگودھا جانے کا اِتفاق ہُوا ۔ میری عُمومی عادت یہ ہے کہ نوے منٹس ڈرائیو کرنے کے بعد دس پندرہ منٹس کی بریک لازمی لیتا ہُوں کیونکہ نوے منٹس سے زیادہ مُسلسل سڑک پر توجہ مرکوز رکھنا میرے لئے مُشکل ہوجاتا ہے ، ہر بندے کی اپنی کیپیسٹی ہے کِسی کی کم تو کِسی کی زیادہ ۔ موٹروے پر چکری سروسز پر گاڑی روکی اور وہاں سے چائے وغیرہ پی ۔ واپس جانے سے پہلے وہاں سے پانی کی چند بوتلیں خرید کر پیسے دیے اور بوتلیں واپس جاتے ہُوئے کاؤنٹر پر ہی بُھول گیا ، وہاں سے چند منٹس بعد واپسی ہوگئی اور ہم لوگ اپنے سفر پر نِکل لئے ۔ راستے میں پیاس لگنے پر پانی مانگا تب معلوم ہُوا کہ پانی کی بوتلیں تو ہم وہیں چھوڑ آئے ہیں اب بھیرہ سروسز سے پانی لینے کا طے کِیا اور وہیں سے لِیا ۔
شادی اٹینڈ کرنے کے بعد واپس پنڈی آگئے ۔ ایک آدھ ہفتے بعد مُجھے چکوال جانا تھا تو دوبارہ موٹروے سے ڈرائیو کرتے ہُوئے دورانِ سفر چکری سروسز پر رُکا ، چائے پِی اور کاؤنٹر پر موجود شخص کو بتایا کہ پچھلے ہفتے میری پانی کی چند بوتلیں جِن کے پیسے میں نے ادا کئے تھے وُہ بوتلیں یہیں رِہ گئی تھیں ۔ اب وُہ ایک سو پچاس روپے واپس کردیں ۔ وُہ شخص ایک اچھا اور ایماندار اِنسان تھا اُس نے کہا کہ جی مُجھے یاد تو نہیں لیکن آپ ہرگِز جُھوٹ نہیں بول رہے ہوں گے تو آپ پانی کی بوتلیں لے لیں یا پیسے کوئی مسئلہ نہیں ۔ بہرحال وُہ پیسے واپس لے لیے گئے ۔
اب ایک بات سمجھیں یہ میں کوئی بڑائی نہیں بیان کر رہا نہ میرا مقصد ہے لیکن میں اپنے دوستوں پر لاکھوں بھی خرچ دیتا ہُوں ، ایک مہینے میں ایک اچھی خاصی رقم ایک خاص شوق کی نظر ہوجاتی ہے ، پاکستان جاتے ہیں تو لاکھوں روپے کی ٹکٹس ، لاکھوں کے تحائف اور دیگر ہزار ہا اخراجات ہوتے ہیں ، سال میں دو دفعہ پاکستان اور ایک دو دفعہ کِسی دُوسرے مُلک بھی جانا ہوتا ہے تو کیا میں یا میرے جیسے دوست جِن کی ایک ماہ کی اِنکم پاکستان میں اکثر اچھی تنخواہ پانے والوں کی دو سال کی کمائی سے بھی زیادہ ہے وُہ کنجوس ہیں ؟ کیا ہمیں پاکستان کی حکومت کی مدد یا فنڈ دینے پر اعتراض ہے ؟ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہُوں ۔
پہلی بات ؛ آپ اپنے آپ سے پُوچھیں کہ ہم پاکستانی جو دُنیا بھر میں خیرات ، صدقات و عطیات دینے میں مشہور ہیں ہم اپنی حکومت چاہے وُہ کِسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو اُس کو ٹیکس دینے میں کیوں ہچکچاتے ہیں ؟ گو ٹیکس چوری پُوری دُنیا میں لوگ کرتے ہیں لیکن اپنے ہاں ٹیکس نہ دینے کی سب سے بڑی وجہ حکومتی نظام یا ریاست پر ککھ اعتماد نہ ہونا بھی ہے ۔ ہمارے دِل میں یہ بات بیٹھی ہُوئی ہے کہ ہمارا دِیا گیا ٹیکس ہمارے یا ہمارے لوگوں کے کام نہیں آنے والا ۔
دُوسری بات ؛ میں آپ کو مغربی ممالک میں سیٹلڈ افراد کے بارے میں سمجھانا چاہتا ہُوں ، دیکھیں ہم میں سے زیادہ تر افراد ایک خاص طرح کا مائینڈ سیٹ رکھتے ہیں ، ایک خاص رویہ اور ایک لگے بندھے اصول ہماری زِندگی کا حِصہ ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں اور انداز ہمیں اِن ممالک میں گُزارے برسوں نے سِکھایا ہے اور اِن بُہت ساری باتوں میں سے ایک بات یہ ہے کہ اپنی مرضی سے لاکھوں روپے لگا دو لیکن ناجائز طریقے اور زور زبردستی سے آپ ہم سے ایک سِکہ بھی نہیں نِکلوا سکتے ۔
بُہت سارے دوستوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ موبائل فون ٹیکس کو لے کر اِتنے جذباتی کیوں ہیں ؟ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہارُون ملک یا کِسی اور دوست کے لئے تیس چالیس ہزار روپے peanuts کے برابر بھی نہیں ہیں لیکن جب میری وائیف جو پاکستان میں اپنی بیمار ماں کی عیادت کے لئے چند ماہ پاکستان میں ٹھہری اور دو مہینوں سے کُچھ دِن پہلے پی ٹی اے نے میسج بھیجا کہ فلاں تاریخ کو یہ فون جو وُہ استعمال کر رہی ہے بند ہوجائے گا اِس لئے اِس کا ٹیکس ادا کریں ؛ اُس نے پتہ کِیا تو غالباً بیالیس ہزار روپے ٹیکس بن رہا تھا لیکن میں نے سختی سے کہا کہ بھلے اِتنے پیسوں کا ایک نیا فون لے لو لیکن اِس فون کا ہم چند روپے بھی ٹیکس نہیں دیں گے ۔
کیوں نہیں دیں گے ؟ اِس لئے نہیں دیں گے کہ ہم برطانیہ کے شہری ہیں اور پاکستان کے بھی ، ہمارا پاکستان سے اُتنا ہی تعلق ہے جِتنا کِسی اور پاکستانی کا پھر جِس موبائل فون پر ہم برطانیہ میں ٹیکس دے چُکے ہیں اور وُہ ہمارا ذاتی اِستعمال کا فون ہے اُس پر ہم پاکستان کو ٹیکس کیوں دیں ؟ مُجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ باہر سے درجنوں موبائل فون لاتے تھے اور سمگلنگ جاری تھی لیکن بجائے اُس کو کنٹرول کرنے کے آپ نے عام شہریوں پر یہ “ جگا ٹیکس “ لگا دِیا تو ہم آپ کی واہ واہ کریں ؟ واقعی ؟
پاکستان میں آپ کی سرکار کہتی ہے کہ بینکنگ چینل اِستعمال کریں لیکن آپ کی پالیسیز کُچھ عجیب و غریب ہیں ۔ پُوری دُنیا میں جب پیسہ بینک میں جمع کرایا جاتا ہے تو اُس کو ویلکم کِیا جاتا ہے جبکہ واپس نکلوانے پر سوالات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ ( اِس میں کئی آراء ہیں جِس پر ابھی بات مُمکن نہیں ) میرے اور میری بیگم کے پاس کُچھ پاؤنڈز تھے جو ہم نے پاکستان میں تبدیل کروائے اور اپنے اخراجات سے ہٹ کر فالتو رقم جو کوئی بُہت بڑی رقم نہیں تھی یعنی پینتیس لاکھ روپے وُہ میں چند دِن بعد اپنے ہی اکاؤنٹ میں جمع کروانے بینک گیا تو اُنھوں نے کہا کہ آپ یہ رقم کہاں سے لائے ہیں ؟ میں بتایا کہ پاؤنڈز تبدیل کروائے تھے تو اُس نے کہا رسید دیں ۔ اب ہر بندے کی اپنی اپنی عادت ہے لیکن میں نے وُہ رسید پیسے لینے اور گننے کے بعد ضائع کردی تھی تو اُس نے کہا کہ جی ہم صرف پانچ لاکھ جمع کریں گے باقی نہیں یعنی جو پیسہ حکومتی نیٹ میں آرہا تھا اُس کو اُس نے اِنکار کردیا کہ بینک کی یہی پالیسی تھی ، سٹیٹ بینک کی جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں مُختلف بینک اپنی پالیسیز بناتے رہتے ہیں ۔ اب سیدھے طریقے سے تو اِنکار ہوگیا لیکن وہیں کھڑے کھڑے دو فون کولز نے میرا کام کرادیا اور وُہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں جمع ہوگئے ۔ یعنی سیدھے طریقے سے کام نہیں ہونا تھا لیکن سفارش سے وُہی کام جو پہلے نہایت غلط تھا وُہ اب دُرست ہوگیا تھا ۔
آپ پاکستان میں بطور اوورسیز شہری اچھی گاڑی بھیجنے کی کوشش کریں جو گاڑی تین سال سے کم پُرانی ہو ، دو ہزار سی سی سے زائد ہو کیونکہ اچھی گاڑی کم از کم بائیس سو سی سی سے تین ہزار سی سی تک ہوتی ہے اب اگر وُہ یہاں پاکستانی روپوں میں چالیس لاکھ روپے کی ہے یا اَسی لاکھ کی بھی تو اُس پر تقریباً تمام ٹیکسز مِلا کر چار کروڑ روپے ٹیکس دینا پڑتا ہے یعنی نہ بھیجنے والی بات سمجھ لیں ۔ کسٹم میں اچھے دوست موجود ہیں اور وُہ بتاتے ہیں کہ جی حکومت امپورٹ کی حوصلہ شِکنی کرنا چاہتی ہے اِسی لئے اِتنا زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے ۔
گو یہ محض خان صاحب کی حکومت کا ہی نہیں بلکہ ہر ہر حکومت کا مسئلہ رہا ہے کہ سوزوکی ، ہونڈا اور ٹویوٹا جیسی کمپنیز نے اوٹوموبیل automobile انڈسٹری کو اپنے جِن جپھے میں ڈال رکھا ہے ، حُکومتیں بلیک میل ہورہی ہیں اور پاکستانی شہری مجبُور ہیں کہ وُہ ٹین ڈبے سے بنی بغیر سیفٹی فیچرز والی بے کار ترین گاڑیوں جِن کو یورپی مارکیٹس میں گُھسنے کی اجازت بھی نہیں اُن کے پندرہ بیس یا تیس لاکھ ادا کرنے پر مجبُور ہیں ۔ ابھی خان صاحب کی ایک پالیسی کاغذات میں چل رہی ہے کہ جو بندہ دو لاکھ ڈالر سالانہ بینکنگ چینل سے بھیجے گا اُس کو ایک گاڑی تین ہزار سی سی ڈیوٹی فری لانے کی اجازت ہوگی ۔ ایک تو یہ پالیسی ابھی کاغذی حد تک ہے اور دُوسرا مغربی ممالک سے دو لاکھ ڈالرز بھیجنا کِسی مصیبت سے کم نہیں یا کم از کم ہر بندے کے بس کا روگ نہیں ۔ کُل مِلا کر بات یہ ہے اِمپورٹ کی حوصلہ شِکنی والی لایعنی بات جانے دیں کہ جہاں ہر قابلِ ذکر شے آتی ہی باہر سے ہے وہاں گاڑیوں کے لیے ایسی پالیسی محض پہلے سے موجود کمپنیز کے دباؤ پر بنائی گئی ہے اور کوئی حکومت اِس کو تبدیل کرنے کا نہیں سوچتی ۔
اوورسیز پاکستانیوں پر اِس حکومت کے اور پچھلی حکومتوں کے اِتنے “ احسانات “ ہیں کہ گِنوانے بیٹھوں تو کئی مضامین بھی کم پڑ جائیں لیکن داد دیں اُن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کو جو پھر بھی دفاعی مورچہ سنبھالے بیٹھے ہیں ۔ جاننے والے دوست جانتے ہیں کہ مُجھے نہ بُھٹوز سے مسئلہ ہے ، نہ شریف خاندان سے اور نہ ہی خان صاحب سے لیکن میں اِن میں سے کِسی کا بھی اندھا مقلد نہیں بن سکتا اور نہ ہی بے جا تنقید کے حق میں ہُوں لیکن خان صاحب کی حالیہ کورونا وائرس بابت فنڈ کی اپیل کے لئے یہی کہوں گا کہ عطیات ، صدقات یا خیرات اپنی نِگرانی میں اپنے قریبی رشتہ داروں ، دوستوں اور محلے داروں میں تقسیم کرنے کی کوشش کریں ۔ حکومت پر اعتماد کرنا ہے بھلے کریں لیکن حکومتوں کا ماضی کا کردار بتاتا ہے کہ ہماری ریاستی حُکومتیں اپنا اعتماد کھو چُکی ہیں چاہے وُہ قرض اُتارو مُلک سنوارو کی سکیم ہو ، ڈیم فنڈ ہو یا حالیہ کورونا وائرس فنڈ ہو ۔ لوگ ایدھی صاحب کی ایک آواز پر اُس کی جھولی بھر دیتے تھے تو خان صاحب کا شوکت خانم بھی ہم پاکستانیوں نے ہی بنوایا ہے ۔ کاش خان صاحب آپ مُلک کے لئے فلاحی کام ہی کرتے رہتے ، ہسپتال بنواتے ، سُکولز اور کولجز بنواتے رہتے ، آپ ہیرو تھے آپ ہیرو ہی رہتے سیاستدان عِمران خان وُہ نہیں ہے جِس کو میں اپنا ہیرو مانتا تھا ۔ جِس کی بڑی تصویر ایک لمبے عرصے تک میرے انکل نے اور میں نے اپنے ڈرائنگ رُوم میں لگائے رکھی تھی ۔ خان صاحب آپ ہیرو تھے تو بُہت اچھے تھے لیکن اب آپ سیاستدان ہیں اور سیاستدان صِرف اِقتدار کا دوست ہوتا ہے عوام کا نہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...