کہیں پڑھا تھا کہ دنیا میں دو طرح کے انسان بستے ہیں۔ایک وہ جو صرف اپنے گناھوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔دوسرے وہ جو اوروں کے گناؤں کا بوجھ بھی ڈھوتے ہیں۔اور اصل گنہ گار یہی لوگ ہیں۔جو دوسروں کے گناؤں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔دیش کی عدلیہ کو دیکھ کر یہ خیال مزید راسخ ہوتا ہے۔۔
24اکتوبر1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی برخاست کردی۔وجہ صدارتی اختیارات کو محدود کرنا تھا۔احمد محمود،ممتاز دولتانہ،محمود قصوری اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اسکا خیرمقدم کیا۔مگر سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے حکم کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔
مولوی تمیزالدین کوکیس کی سماعت کیلئے برقع پہن کر گھر کے پچھلےدروازے سےرکشے میں بیٹھ کر عدالت جانا پڑا۔وجہ خفیہ ایجنسیوں کا انکی جاسوسی کرنا تھا۔انکے وکیل منظرعالم کو سندھ ہائیکورٹ کےدروزاے سے گرفتار کر لیاگیا۔مولوی صاحب کیلئے رحمت کافرشتہ روشن علیشاہ تھے۔جو رجسٹرار ہائیکورٹ تھے۔
روشن علیشاہ سابق چیف جسٹس سجادعلیشاہ کےوالد تھے۔آپ نےمولوی تمیزکیس کو کازلسٹ میں لگایا۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جارج کونسٹن ٹائن نےسماعت کیلئے چاررکنی بیچ بنایا۔جس میں چیف جسٹس،جسٹس ویلانی،جسٹس محمدبخش اور جسٹس بچل میمن شامل تھے۔بیچ نےمتفہ طورپرگورنر جنرل کےاقدام کوکالعدم قراردیا۔
گورنرجنرل غلام محمد نے فیصلہ فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا۔جسکےچیف جسٹس محمد منیر تھے۔یاد رھے جسٹس منیر کو سٹیارٹی کے خلاف چیف جسٹس بنایاگیا۔عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بننے کی باری ایس۔ایم۔اکرم کی تھی۔جو مشرقی پاکستان سےتعلق رکھتے تھے۔مگرغلام محمد نے منیرکو چیف جسٹس بنایا۔
مولوی تمیزکیس سننے کیلئے جسٹس منیر نے پانچ رکنی بنچ بنایا۔جس میں جسٹس منیر،جسٹس شریف،جسٹس اکرم،ایس۔اے۔رحمان اور کارنیلس شامل تھے۔کیس کی سماعت کےدوران غلام محمد کےسیکرٹری فرخ امین انکے پیغامات کوڈ ورڈ میں جسٹس منیر تک پہنچاتا تھا۔ایک بار گورنر جنرل رات گئےخود منیر سے ملنے گئے۔
جسٹس منیر نےتمیز کیس میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر جمہوریت پر وار کیا۔1958میں ایف۔سی۔آر کے خلاف دائر مقدمے میں جسٹس منیر نے ایف۔سی۔آر کو قانونی تحفظ دیا۔اسکے ساتھ جنرل ایوب کے مارشل لا کوقبولیت بخشی۔اسکندر مرزا کی طرف سے آئین سازی کی کوشش کو منیر نے ٹالے رکھا۔
بھٹو صاحب کومعزول کرنے کے بعدنواب احمد رضا قتل کیس کی سماعت شروع ہوئی لاھور ہائیکورٹ کےچیف جسٹس مولوی مشتاق،جسٹس زکی الدین پال،گلبازخان،جسٹس ایم۔ایچ۔قریشی اور جسٹس آفتاب حسین نےشروع کی۔18مارچ1978کوبھٹو صاحب کو پھانسی دی گئ۔عجیب بات یہ ہےکہ بھٹو صاحب نےعدالت کابائیکاٹ کر رکھاتھا۔
مئ1978میں نصرت بھٹو نے لاھور ہائیکورٹ کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلج کیا۔جسٹس یعقوب علیخان جو انصاف پسند جج تھے۔انکو ضیا آمریت نے زبردستی ریٹائر کیا۔مولوی انوار کو چیف جسٹس بنایاگیا۔مولوی انوار باقاعدہ جج نہیں تھے۔نو رکنی بنچ میں پانچ ججوں کی رائے بھٹو سے متفق تھی۔
ضیا دورسخت تھا۔مگر ججز بھی ڈٹنے والےتھے۔یب یہ آثار نظرآئےکہ بھٹو رہاہوجائیں گے۔مولوی انوار نےطویل عرصے کیلئے سماعت ملتوی کردی۔اس دوران بنچ میں شامل قیصر خان ریٹائر ہوگئے۔جسٹس وحیدالدین احمد بیمار ہوئے۔اب ضیاکےحامی ججز تھے۔سو سماعت بلا کر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئ۔یہ انصاف ہے۔!
بھٹوبینچ میں شامل جسٹس صفدرشاہ جنہوں نےبھٹو کی سزائےموت سےاختلاف کیا۔ان کوضیا آمریت میں ملک چھوڑ کر باھرجانا پڑا۔صفدر شاہ افغانستان کےراستے باھر گئے کہ ایجنسیاں انکو قتل کرنے کے درپےتھیں۔انہوں نےسب سے پہلے بھٹو کیس کابھانڈا پھوڑا تھا۔اسکےبعد نسیم حسن شاہ نے اس بات کا اعتراف کیا۔
12اکتوبر1999کےآمرانہ اقدامات کو سپریم کورٹ میں ظفرعلیشاہ نے چیلنج کیا۔کیس کی سماعت ارشاد حسن کی سربراھی میں بارہ رکنی بینچ نے کی۔جس نےمشرف کوآئین میں ترمیم کرنےکی غیرقانونی اجازت دی۔ارشاد حسن بعدمیں چیف الیکشن کمشنر بنےاور 2002کے دھاندلی زدہ الیکشن بھی کروائے۔مہربان کیسے کیسے!
ہم پانامہ کیس کی بابت کچھ نہیں کہیں گے۔مگر 10-20سال بعد پھر کسی نسیم حسن شاہ کا ضمیر جاگ گیا۔اور اس نے کچھ یقینی اعترافات کئے تو اس وقت کی عدلیہ کے لئے شاید مزید بدنامی کا سبب رھے۔شاید اس وقت بھی ہم آزاد عدلیہ کا خواب دیکھے رھے ہونگے۔۔!