پاکستانی اچھے لوگ ہیں
کل کراچی سے لاہور آنے والی شالیمار ایکسپریس سندھ میں محراب پور سے آگے ’’گوٹھہ نوں پوترا‘‘ کے قریب سے گزر رہی تھی کہ اس کا اکانومی کلاس کا ایک ڈبہ پٹری سے اتر گیا۔ حادثے کی جگہ دو ریلوے سٹیشنوں کے درمیان ایسی جگہ پر تھی جہاں دور دور تک آبادی نہیں تھی۔ سخت گرمی میں مسافر سخت پریشان، گرمی سے بے حال، ہر طرف بچوں کے رونے کی آوازیں۔
ٹرین کے عملے نے بتایا کہ امدادی کارروائیوں میں چھہ گھنٹے لگ سکتے ہیں.
اچانک درختوں کے بیچ کھیتوں کے درمیان نہ جانے کہاں سے لوگ قطار اندر قطار آنا شروع ہوگئے ۔ کسی نے پانی کا کولر اٹھایا ہوا اور کسی نے گھڑا. کوئی جگ اٹھائے ہوئے اور کوئ دودھ کا برتن ۔ اپنی پگڑی میں کوئی بزرگ برف کا تحفہ لا رہا ہے اور کچھہ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں. ہر ایک کی یہ خواہش کہ مسافر اسے خدمت کا موقع دیں.
تھوڑی دیر میں چنے پلاؤ کی بھری ہوئ دیگ ایک رکشہ پر لے آئی گئی۔ غریب لوگوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے تو چاول کھلانے کے لیے مٹی کی بنی ہوئی تھالیاں لے آئے۔ آتے ہی کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں. ایک عمر رسیدہ شخص ٹھنڈے پانی کی بوتلیں کپڑے کی گٹھڑی سی بناکر لایا۔
دیہات کے نوجوان گرمی کی شدت سے بے نیاز تمتماتے چہروں کے ساتھہ ایک جنونی انداز میں امدادی کام میں لگے تھے.
کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ جس کی مدد کر رہا ہے وہ کس صوبے، کس ذات برادری، کس مذہب ، کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں؟
کئی دوستوں کی فراہم کردہ اطلاعات اور تصاویر ۔۔۔ سب کا شکریہ
جس دوست نے سب سے پہلے رپورٹ کیا اور تصاویر بنائیں انہیں شاباش !
(کافی تلاش کے بعد میرا خیال ہے کہ یہ محمد دین صاحب ہیں۔ شکریہ)
وفاقی یا صوبائی حکومت یا پاکستان ریلوے اس علاقے میں ضرورت کے مطابق کوئی سکول یا ہسپتال بنا کر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرے۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"