سن 1967ء سے 1972ء تک پاکستان ٹیلی ویژن پر معلومات کا مشہور و معروف پروگرام کسوٹی چلا کرتا تھا۔ سن 1990ء کی دہائی میں یہ پروگرام کچھ عرصہ کے لئے دوبارہ بھی چلا تھا۔ اس پروگرام کے میزبان قریش پور صاحب ہوتے تھے اور دیگر دو صاحبان عبیداللہ بیگ صاحب اور افتخار عارف صاحب ہوتے تھے جو پروگرام میں مدعو کئے گئے مہمان سے بیس سوالات کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات بھی میزبان تھے۔ قریش پور صاحب کے بعد کچھ عرصہ پروگرام کی میزبانی حمایت علی شاعر صاحب نے بھی کی اور مختلف ماہرین کے زیرِ سایہ یہ پروگرام بعد میں بھی پی ٹی وی پر چلتا رہا۔ عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف دونوں صاحبان کی ٹیم اس وقت اپنے عروج پر تھی اور یہ پروگرام بہت ہی شوق سے دیکھا جانے والا پروگرام بن چکا تھا۔
ہر پروگرام میں ایک مہمان کو دعوت دی جاتی تھی، مہمان سے تھوڑی گفتگو ہونے کے بعد مہمان دنیا میں کسی بھی جگہ سے کسی ایک شخصیت، کتاب، عمارت یا کسی جانور کا نام ایک کارڈ بورڈ پر تحریر کر دیتا تھا جو افتخار صاحب اور عبید اللہ صاحب سے چُھپا کر حاضرین اور کیمرے کو یعنی ٹیلیویژن پر دکھا دیا جاتا تھا۔ پھر دونوں حضرات بیس سوالات مہمان سے پوچھ کر اُس کردار، عمارت، کتاب یا جانور کا نام بُوجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر بیس سوالات میں نہ بوجھ پاتے تو پوچھنے والے مہمان کو انعام ملتا تھا۔ مگر ایسا کم کم ہی ہوتا تھا کہ وہ بوجھ نہ پائیں۔
ابنِ صفی صاحب کے فرزند احمد صفی صاحب نے تفصیل یوں بتائی کہ ”ابو ستر کی دہائی میں کسوٹی پروگرام میں آچکے ہیں۔ ابو نے جانشینِ داغ حضرت نوح ناروی کا نام لکھا۔ دونوں ماہرین یعنی عبیداللہ بیگ صاحب اور افتخار عارف صاحب نے سوالات شروع کیے۔ جلد ہی آدھے سے زیادہ سوالات ہو گئے۔۔۔ اور پھر غالباً انیسواں سوال بھی ہو چکا تھا۔۔۔ اور دونوں ماہرین ایک دوسرے سے سر جوڑے مشورے میں مگن تھے اور صاف لگ رہا تھا کہ وہ ہار ماننے کے قریب ہیں۔۔۔ اس دوران قریش پور صاحب اور ابو (ابنِ صفی صاحب) کچھ باتیں کرتے رہے۔۔۔ بیسواں سوال بھی گزر گیا۔۔۔ اب دونوں ماہرین اب تک کے کئے گئے سوالوں کا تجزیہ کرنے لگے۔۔۔ یہ تو طے ہو چکا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے کوئی مشہور شاعر ہیں مگر بوجھنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ اچانک ابو مسکرائے اور کہا حیرت ہے آپ زبان کے شاعر تک نہیں پہنچ پارہے۔۔۔ ارے ارے کرتے ہوئے دونوں ماہرین کے منہ سے نکلا “نوح ناروی۔۔۔” اور یوں ابو نے اشارہ دے کر جیتا ہوا مقابلہ ہار دیا۔ اس کے بعد دونوں ماہرین نوح کے اشعار بھی سُناتے رہے اور ان کی تاریخ بھی بیان کرتے رہے۔ قریش پور صاحب نے ابو سے کہا کہ اگر آپ اشارہ نہ دے دیتے تو آپ جیت سکتے تھے۔ ابو نے کہا مقابلہ تو جیت جاتا مگر اس بات پر شرمندگی رہتی کہ اگر نوح ناروی جیسے شاعر کو عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف ہی نہ بوجھ پائے تو اور کون یاد رکھے گا؟“
تحریر سید فہد حسینی، بشکریہ احمد صفی صاحب فرزند ابن صفی صاحب۔ 29 اپریل 2021ء
انتخاب و ترسیل: سلیم خان
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...