پاکستانی سیاست کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
یہ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت سے باز رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اعلی اخلاق کے حامل، قابل سیاست دانوں کو موجود کیا جائے، نیز یہ کہ سیاسی ادارے اگر ڈیلیور نہیں کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ اس خلا کو پر کرنے آ جاتی ہے، در حقیقت درست نہیں۔ اسٹیبلمشنٹ کوئی خلا پر کرنے نہیں آتی، طاقت کے کھیل میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ بھی اپنا حصہ وصول کرنے آتی ہے۔ یہ سماجی حقیت ہے کہ طاقت کے میدان میں ہر سماجی گروہ اپنے مفادات کا اسیر اور امین ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی اپنی اخلاقی حیثیت بھی قابل رشک نہیں، وہ اسی سماج کے چٹے بٹے ہیں۔ اسٹیبلشمنت کے نمائندے بھی جب سیاست میں آئے تو انھوں نے بھی کوئی دیانت دار متبادل قیادت ڈھونڈ کر نہیں لائی، انھیں سیاست دانوں میں سے اپنے مطلب کے لوگ چن کر کام چلایا ہے۔ان کے نزدیک بھی سیاسی منظر نامے میں کوئی حقیقی تبدیلی لانا نہیں، بلکہ نظام کو اپنے ماتحت چلانا تھا اور اس کے لیے دستیاب افراد ایسے ہی لوگ تھے۔
دوسرا یہ کہ سیاست دانوں کو پہلے دیانت دار بنانا اور پھر سیاست میں آنے کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ پہلے تیراکی سیکھیں پھر دریا میں اتریں۔ یہ جمہوریت کا نظام ہی ہے جس میں ہر پانچ سال بعد عوام کے سامنے جواب دہی کا مرحلہ سیاست دانوں کی بتدریج اصلاح کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کا بہترین مظاہرہ یورپ میں اور اس کےمعدودے چندنمونے پاکستان جیسے ملک میں بھی نظر آتے ہیں جہاں جمہوریت کو کبھی درست طور پر چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستانی سیاست کا اس وقت اصل مسئلہ اسٹیبلمشنٹ کے شکنجے سے سیاست کو آزاد کرانا ہے۔ اس کے بعد ہی سیاست دانوں کی اصلاح کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے میں دیری کی ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت ہے۔ چنانچہ اس وقت سیاست دانوں کی بد عنوانی کا مسئلہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
جمہوریت کے آنے کے بعد یہ ہوا ہے کہ عوامی نگرانی، تنقید اور عوام کو جواب دہی کا مسئلہ ہی ہے جس کے ذریعے سے کسی سیاسی جماعت کی سیاست کو اس کے مفادات کے باوجود عوامی بہبود کے لیے استعمال کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عوامی تائید کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کو اپنی مفاداتی ایجنڈوں کی تکمیل سے روکا نہیں جا سکتا جیسے جمہوریت سے قبل باشادہتوں کے دور میں اشرافیہ کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ملک کے دو ٹکڑے کروا دے تب جا کر عوام کو معلوم ہوا ہے کہ مسئلہ کچھ خراب چل رہا تھا، ورنہ آخری لمحے تک اسٹیبلمشنٹ کا بیانیہ ہی درست باور کرایا جا رہا تھا۔ ذرائع معلومات اور سوچنے سمجھنے پر پابندی سے ان کا کام چلتا ہے اور یہ کسی سماج کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عوامی نمایندے حکومتی طاقت سے قابو میں رکھتے ہیں اور یہی وہ نہیں چاہتے جب کہ سیاست دانوں کو جمہوریت کے ذریعے سے عوام قابو میں رکھتے ہیں۔ یوں نظام بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ مسئلے کی درست صورت ہے مگر اس کو بالکل الٹا کر کہ دیاجاتا ہے کہ پہلے دیانت دار سیاست دان لاؤ ورنہ اسٹیبلشمنٹ کو بھگتتے رہو۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
ہماراس مسئلہ فی الحال یہ ہے کہ ہماری سیاست ابھی اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو پا رہی۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی اصلاح اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ہماری جدوجہد ابھی پہلے مرحلے میں ہے۔ اس لیے سیاسی جماعت کی بد عنوانی کا مسئلہ ثانوی درجے پر چلا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ عوامی تائید سے بے نیاز اسٹیبلشمنٹ سے آزادی حاصل کرنا ہے۔ اس آزادی کے لیے جو جماعت جدوجہد کر رہی ہے وہ اس وقت درست جگہ کھڑی ہے چاہے اس کا ماضی کچھ بھی ہو اور جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست بازی کو مضبوط کر رہی ہے وہی ہے جو ارتقا کے سفر میں رکاوٹ ڈالے کھڑی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“