بین الاقوامی میڈیا پر نگاہ رکھنے والے فرید ذکریا کے نام سے ضرور شناسا ہونگے جو بین الاقوامی امور کے ماہر اور امریکی نیوز چینل پر "جی پی ایس" کے نام سے ہائی پرفائل سیاسی پروگرام کے میزبان کے طور پر مشہور ہیں۔
چند روز پیشتر سینیٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والے سالانہ بین الاقوامی معاشی فورم کے آخری سیشن میں انہیں بھی مشاہیر کے قدآور سیاسی شخصیات کے ہمراہ سٹیج پر جگہ دی گئی تھی۔ ان کے بائیں ہاتھ پر قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیو تھے، جن کے بائیں ہاتھ پر صدر روس ولادیمیر پوتن تھے اور ان کے بائیں ہاتھ پر اٹلی کے وزیر اعظم ماتی یو رینزی بیٹھے ہوئے تھے۔
سوویت یونین کے بعد کی ریاستوں کے سیاسی اور غیر سیاسی مشاہیر کسی محفل میں کبھی ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر نہیں بیٹھتے۔ پاکستانی، ہندوستانی، امریکی اور یورپی چاہے عام اینکر پرسن ہی کیوں نہ ہوں اس طرح بیٹھنے کو معیوب خیال نہیں کرتے۔ فرید ذکریا اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کی جوتے کے تلوے کی، نور سلطان جیسے معمر سیاستدان کے گھٹنے کی جانب سیدھ انہیں بہت چبھ رہی ہوگی۔ پوتن تو سوالوں کے جواب دینے میں مصروف تھے، اس لیے ان کی توجہ ماتی یو رینزی کی ٹانگ پر کچھ کم چڑھی ٹانگ پر نہیں گئی تھی جو اپنی باری آنے تک لیے دیے سے بیٹھے رہے تھے مگر جونہی ان کی توجہ اپنے سے بڑی عمر کے پوتن اور نورسلطان کی سیدھی ٹانگوں پہ گئی، وہ بھی ان کی طرح سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تھے جبکہ فرید ذکریا صاحب اسی طرح بیٹھے، آنکھوں اور چہرے کے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے پوتن کی کہی باتوں کے انگریزی ترجمے کو غور سے سن رہے تھے، ساتھ ہی انہماک سے پوتن کی جانب دیکھ بھی رہے تھے۔ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھانے کا ذکر یونہی نہیں بلکہ یہ آداب سے متعلق مختلف انداز سے متعلق ہے، جس پر ایسا کرنے والوں کا خیال ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ نہیں جاتی۔
بہرحال پوتن جونہی خاموش ہوئے تو فرید ذکریا صاحب کی ٹی وی ہوسٹ اور صحافی والی رگ پھڑکی۔ وہ اگرچہ معزز مہمان کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پھر بھی صدر روس ولادیمیر پوتن سے سوال کر دیا ،" آپ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے کی حمایت کی، آپ نے ان کی کن خصوصیات کو پیش نظر رکھ کرکے ایسا کہا؟"۔ پوتن لمحے بھر کو مسکرائے کیونکہ فرید ذکریا صحافی کی حیثیت سے سامعین کے ساتھ نہیں بیٹھے ہوئے تھے، پھر گویا ہوئے،" ہمارے ملک میں آپ کی بڑی توقیر ہے۔ ایک معروف ٹی وی ہوسٹ کے طور پر نہیں بلکہ ایک نامور دانشور کے طور پر تو پھر آپ ایک صحافی کی مانند مضطرب کیوں ہوئے؟" فرید ذکریا کھسیانی مسکراہٹ مسکرائے اور پوتن نے بات جاری رکھی،" اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے جناب ٹرمپ کے بارے میں بس اتنا کہا ہے کہ وہ ایک شوخ شخصیت ہیں، کیا وہ شوخ شخصیت نہیں ہیں؟ اس کے علاوہ تو میں نے ان کی کوئی خصلت نہیں بتائی۔ رہی بات ان کے صدر بننے کی حمایت کرنے کی کیونکہ ان کا دعوٰی ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد امریکہ روس تعلقات معمول پر لائیں گے، تو پھر میں کیوں نہ حمایت کروں؟ ہم ایسا ہی چاہتے ہیں۔ کیا آپ ایسا نہیں چاہتے؟" لوگوں نے فرید ذکریا کو شاید پہلی بار لاجواب ہوتے دیکھا ہو۔
اس واقعے سے پہلے اپنی تقریر کے دوران پوتن نے جب یوریشیائی معاشی برادری اور یورپی اتحاد کے روابط کی خواہش ظاہر کی تو اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ایشیائی خطے میں روس کے چین، ہندوستان، ایران اور پاکستان جیسے دوست ہیں، یورپی اتحاد کو یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے ہماری پیشکش پر غور کرنا چاہیے۔ ایسی باوقار اور موثر عالمی محفل میں پوتن نے پاکستان کا روس کے دوست کی حیثیت سے شاید پہلی بار نام لیا تھا۔ ماہ ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے پاکستان میں روسی تعاون سے بننے والی جنوب شمال گیس پائپ لائن، جو کراچی سے لاہور تک بچھائی جانی ہے، کے افتتاح میں شرکت کرنے کی پوتن کو دعوت دی تھی جس کے جواب میں صدر روس نے کہا تھا "پاکستان کا دورہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجوہ نہیں ہیں"۔
اس مختصر عرصے میں ایسی کیا نئی بات ہو گئی کہ جناب پوتن کو دنیا بھر کے سامنے پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرنا پڑا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ اب ہندوستان کے ساتھ پاکستان کو بھی شنگھائی تنظیم تعاون میں مکمل رکن لیا جانا روس کے ایجنڈے میں شامل ہو چکا ہے۔ اگلے ہی ہفتے اس تنظیم کی سربراہی سمٹ ہونے کو ہے جس میں ان دونوں ملکوں کو تنظیم میں مکمل رکن لیے جانے کا شاید اعلان کر دیا جائے۔
طورخم پر جاری اشتعال انگیزیاں اس عمل کو روکنے کی شاید آخری کوششیں ہوں کیونکہ مغرب نہیں چاہتا کہ کوئی علاقائی تنظیم اتنی با اثر ہو جائے جو علاقائی معاملات کو مل جل کر سنبھال لینے کے قابل ہو سکے۔ ویسے تو شنگھائی تنظیم تعاون ایک اقتصادی تنظیم ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ کسی اقتصادی تنظیم میں شامل ملک ہرگز نہیں چاہیں گے کہ سیاسی اختلافات سے پیدا ہونے والی رنجشیں اقتصادی پیش رفت میں مخل ہوں۔
پاکستان میں ہئیت مقتدرہ کا پرانا وتیرہ ہے کہ ایک ہمسایہ ملک کے ساتھ آویزش پیدا ہونے کا دوش دوسرے ہمسایہ ملک کو دے دیتی ہے۔ یہ پرانی سوچ کی باقیات ہیں جو اسے خواستہ نخواستہ بدلنا ہوگا۔ ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج کی تازہ ترین پریس کانفرنس غماز ہے کہ جس طاقت کی خفی سرگرمیوں کے بارے میں پاکستان بات نہیں کر پا رہا اس سے متعلق ہندوستان بھی کھل کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ طاقت "امریکہ" ہے۔
امریکہ نے البتہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں پڑنے سے صاف انکار کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ یہ دونوں ملک اپنے معاملات سے باہمی حیثیت میں نمٹیں۔ درحقیقت امریکہ کو دہشت گردی کا کوئی بڑا اور براہ راست خطرہ درپیش نہیں وہ دہشت گردی کے خطرے کا نعرہ استعمال کر رہا ہے تاکہ جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی بالا دستی برقرار رکھ سکے اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو کم کر سکے۔
ہندوستان بھی نہیں چاہتا کہ چین کا اثر و نفوذ بڑھتا جائے لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان کے حالات مخدوش سے مخدوش تر ہوں جس سے دہشت گردی کو پورے خطے میں سرایت کرنے کا موقع مل جائے۔ چین بھی نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو۔ روس تو لامحالہ نہیں چاہتا کہ دہشت گردی کی بنیاد بن جانے والی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی اس کی ہمسایہ وسط ایشیائی ریاستوں میں جڑ پکڑ کر بالآخر اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں۔
روس پاکستان کے ساتھ تعاون کے علاوہ دوستی کا بھی متمنّی ہے لیکن دوستی یک طرفہ نہیں ہوا کرتی، اس کے لیے دوسری جانب سے بھی ٹھوس اقدام لیے جانے کی ضرورت ہے جبکہ اب تک صورت حال یہ ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کو آنکھ دکھاتا ہے تو وہ اسے یہ تاثر دینے لگتا ہے کہ وہ روس کی جانب مائل ہو جائے گا مگر جونہی امریکہ اپنا رویہ نرم کرتا ہے، پاکستان کے روس کے ساتھ تعاون میں سرگرمی برقرار نہیں رہتی۔ تاہم پاکستان اور ہندوستان کی شنگھائی تنظیم تعاون میں مکمل رکن کی حیثیت سے شرکت کے بعد ممکن ہوگا کہ یہ سوال کو نہ دہرایا جا سکے آیا "پاکستان روس کا دوست ملک ہے؟"۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1432537020105737
“