پاکستان پھر دہشت گردوں کے نشانے پر
گزشتہ روز پاکستان میں 11افراد دہشت گردی کا نشانہ بن گئے ۔ان میں سے دس سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور ایک شہری شامل تھا ۔گزشتہ روز کوئٹہ میں ریپڈ رسپانس فورس کا ٹرک سریاب روڈ پر رواں دواں تھا کہ ایک کار اس ٹرک سے ٹکڑا گئی ،جس میں آٹھ افراد شہید ہو گئے ۔شہید ہونے والوں میں سات پولیس اہکار اور ایک شہری تھا ۔دھماکے کے نتیجے میں 25 افراد شدید زخمی ہو گئے ۔یہ دھماکہ خودکش تھا یا ریمورٹ کنٹرول اس کے بارے میں ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ۔سنی سنائی بات یہ ہے کہ لاہور سے ایک فرینزک ٹیم کوئٹہ پہنچ گئی ہے ۔جو تفتیش میں مدد دے گی ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں اسی کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا ۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی زمہ داری قبول کر لی ہے ۔اس کے علاوہ کوئٹہ میں ہی گزشتہ روز امبرانی روڈ پر پولیس کے ایک انسپکٹر عبدلسلام کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا وہ شہید ہوئے ۔گزشتہ روز ہی خیبر پختونخواہ میں جلال پوسٹ پر سڑک کنارے بم دھماکہ ہوا جس میں پاک فوج ی انجئینرگ بٹالین کو نشانہ بنایا گیا ،فوج کے دو سپاہی اس حملے کے نتیجے میں شہید ہو ئے ۔یہ تو تھی وہ گیارہ شہادتیں جو گزشتہ روز ہوئیں ،لیکن میڈیا پر اس حوالے سے کوئی بہت بڑی بریکنگ نہیں چلی،صرف ہیڈ لائنز میںز ان خبروں و رکھا گیا ،یہ خبر بحث و مباحثے اور کسی ٹاک شو کا حصہ بھی نہیں رہی ،صرف عام خبر سمجھا گیا ۔کوئٹہ میں 13 اگست کو پشین میں فوجی ٹرک پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 8 فوجی شہید ،کل ہلاکتیں 15 ہوئیں تھی ۔اسی طرح جون میں کوئٹہ کے گلستان روڈ پر خود کش حملہ ہوا جس میں سات پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد شہید ہو ئے ۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کی اسٹرٹیجی گزشتہ کئی مہینوں سے یہ دیکھی جارہی ہے کہ وہ فرنٹ لائن آف ڈیفنس کو نشانہ بنارہے ہیں ،لیکن ہمارا میڈیا اور عالم فاضل اینکرز اس پر بحث نہیں کرتے ،نواز ،مریم اور عمران وغیرہ ہی اس میڈیا کی اہم خبریں ہیں یا یہ سنایا اور دیکھایا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت میں اختلافات ہیں اور کبھی بھی مارشل لاٗ لگ سکتا ہے ،یہ ہے ہمارا میڈیا جس کی جہالت سر چڑھ چیخیں مار رہی ہے ۔ادھر داعش کی سرگرمیاں افغانستان میں تیزی سے بڑھ گئیں ہیں ۔صورتحال افغانستان میں تشویشناک ہے ۔کوئٹہ کی حالت بھی اسی وجہ سے خراب ہے ۔پچھلے دو ماہ سے بلوچستان ،خیبر پختونخواہ ،فاٹا اور افغانستان سے تواتر کے ساتھ حملے ہو رہے ہیں ،داعش اور طالبان کا اثر بھی ان علاقوں میں بڑھ رہا ہے ،لیکن ہمارا میڈیا ایسے ایشوز پر خاموش ہے ۔ڈریم گرل کی سالگرہ انہیں یاد ہے ،ہالی وڈ کی فلموں کے ٹریلر یہ چلادیتے ہیں ،لیکن اس طرح کی خبروں کی گنجائش نہیں ،شاید وہ دہشت گردی کو ثقافتی ایشو سمجھ بیٹھے ہیں ۔پکتیکیا افغانستان میں خود کش حملے میں افغانستان میں 70 افراد مارے گئے ۔عمر منصور خراسانی اور خالد خراسانی بھی امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں ،یہ اطلاعات ہیں ،ویسے یہ دہشت گرد کئی بار مارے گئے ہیں ،معلوم نہیں پھر کیسے زندہ ہو جاتے ہیں ۔افغانستان میں ڈرون حملے ہورہے ہیں ،پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے ،امریکہ کی کیا اسٹریٹیجی ہے ،افغان حکومت کیا کررہی ہے اور پاکستان کیا سوچ رہا ہے ،داعش کا اثر کیوں بڑھ رہا ہے ،ان ایشوز پر میڈیا پر خبریں ،پیکجز ہونے چاہیئے ،انہی ایشوز پر ٹاک شوز ہوں ،لیکن جیو اے آر وائی اور ٹوئیٹی فور کو عمران ،نواز اور زرداری سے فرصت ملے تو وہ اس طرف آئیں ۔جاتے جاتے کارساز کے شہیدوں کو بھی یاد کرتے جاتے ہیں ،دس سال پہلے بے نظیر شہید کی آمد پر یہ حملے شاہراہ فیصل کار ساز پر کئے گئے تھے جس میں 177 افراد شہید ہوئے تھے ،اس حملے کے حوالے سے تین انکوائری کمیٹیاں بنی ،لیکن کچھ پتہ نہیں کون تھے وہ دہشت گرد جو ان کے قاتل تھے ؟یہ ہے دہشت گردی کے خلاف ہماری سنجیدگی ،اب خدا خیر ہی کرے ،ہم تو یاد دہانی ہی کراسکتے ہیں ،باقی طاقتوروں کی مرضی جو کریں ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔