پاکستان پیپلزپارٹی تیس نومبر کو اپنا یومِ تاسیس منانے جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی 54 سالہ تاریخ جمہوریت کی بالادستی کے لئےکی جانے والی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس جدوجہد کے دوران پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے دی جانےوالی قربانیوں کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو دو مرتبہ غیر فطری طریقے سے راہ سے ہٹا دیا گیا لیکن اس کےباوجود پیپلزپارٹی کو جمہوریت کی راہ سے پھر بھی نہ ہٹایا جا سکا اور نہ ہی پارٹی قیادت اور کارکنوں کے حوصلوں اور عزم کو متزلزل کیا جا سکا۔ نصف صدی سے زیادہ پر محیط اس جدوجہد میں پارٹی قیادت کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی جانب سے دی جانے والی قربانیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ قید و بند، کوڑے، جلاوطنی اور پھانسیاں نہ تو قیادت کوعوامی اور جمہوری جدوجہد سے باز رکھ سکیں اور نہ کارکنوں کو۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان 54 سالوں میں پیپلزپارٹی نے زیادہ تر عرصہ اپوزیشن میں گزارا ہے۔ ایوبی آمریت، ضیا آمریت اور مشرف آمریت کے خلاف جدوجہد میں پیپلزپارٹی صفِ اوّل میں رہی۔ آمریت کے خلاف اس جہدِ مسلسل میں کون سا ایسا ظلم اور زیادتی ہے جو پیپلزپارٹی پر روا نہیں رکھا گیا۔ تاریخ میں کسی اور سیاسی جماعت کی جانب سے ایسی جدوجہد اور قربانیوں کی مثال مِلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی مصائب اور ظلم و زیادتی کے اِن پُراشوب ادوار سےہمیشہ کُندن بن کر نِکلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی پاکستان کے کونے کونے میں اپنی بھرپور قوت سمیت نہ صرف موجود ہے بلکہ آمرانہ اور طاغوتی قوتوں کے عزائم کی راہ میں آج بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تمام تر مشکلات اور ناموافق حالات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی نے پانچ دفعہ عوامی طاقت کی مدد سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مرکز میں حکومت تشکیل دی ہے۔ پیپلزپارٹی کہنے کو پانچ مرتبہ مرکز میں برسرِ اقتدار آئی ہے جس کے مطابق آئینی طور پر پیپلزپارٹی کو پچیس سال حکومت کے لئے ملنے چاہئے تھے لیکن کُل مِلا کے پیپلزپارٹی کو صرف چودہ پندرہ سال حکومت کرنے کا موقع ملا۔ پیپلزپارٹی کو جب بھی حکومت کرنے کا موقع ملا، پاکستان کسی نہ کسی بڑے بحران کا شکار تھا لیکن پیپلزپارٹی نے اپنی تمام تر کوششوں سے پاکستان کو نہ صرف بحرانوں سے نکالا بلکہ پاکستان کو ہمیشہ آگے کی طرف لے کر گئی۔
جب پاکستان پیپلزپارٹی پہلی دفعہ انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آئی تو بارہ تیرہ سال سے مُلک میں مسلط آمریت کاخاتمہ ہوا تھا۔ مُلک دو لخت ہو چُکا تھا، نوے ہزار فوجی اور بہت بڑا علاقہ دشمن کے قبضے میں تھا۔ قوم کا مورال ڈاؤن تھا اور آئین بنانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ تو یہ تھے وہ حالات جن میں پہلی بار پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیرمین بھٹو صاحب کی سیاست سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو گا لیکن بھٹو صاحب ہی تھے جو دشمن کو بغیر کچھ دئیے (کیونکہ دینے کو کچھ تھا بھی نہیں) دشمن سے اپنے نوے ہزار فوجی چھڑا کر واپس لائے. دشمن سے اپنا سارا علاقہ واپس لیا. ملک کو آئندہ ایسی صورتحال سے بچانے کے لئے ملک کے دفاع پر توجہ دی. سپر پاورز سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جس نے مُلکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ آج جس ایٹمی پروگرام کا ہر کوئی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے یہ ایٹمی پروگرام پیپلزپارٹی کا دیا ہوا ہے. اس کے علاوہ کامرہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس، سٹیل مل، یوٹیلیٹی سٹورز جیسے بڑے بڑے منصوبے دئیے. عوام کو شناخت کے لئے شناختی کارڈ دیا. پاسپورٹ کا حصول ممکن بنایا. عوام کی ایک بڑی تعداد کے لئے ببیرون ملک روزگار کےدروازے کھولے جو ملک میں زرمبادلہ کی آمد کا ایک بڑا ذریعہ بنے. اس سب کا انعام پاکستان پیپلزپارٹی کو حکومت کے خاتمے اورپارٹی چیرمین کی پھانسی کی صورت میں دیا گیا. ملک پر سیاہ رات اور ڈکٹیٹرشپ مسلط کر دی گئی جس کے کالے کرتوتوں کا خمیازہ قوم آج بھی بھگت رہی ھے اور نہ جانے کب تک بھگتے گی.
گیارہ سالہ ضیا آمریت کے خاتمہ کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کا دوسرا دور حکومت آتا ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو گیارہ سال کی بدترین ضیا آمریت کے بعد وزیراعظم بنتی ہیں. سب سے پہلے تو آمریت کی باقیات نے پیپلزپارٹی کی ایک بڑی انتخابی کامیابی کو ایک محدود جیت میں بدل دیا. آئی جے آئی کا مقتدرہ کے ذریعے قیام اور پنجاب میں نوازشریف کی قیادت میں آئی جے آئی کی حکومت کا بننا اور پھراس پنجاب حکومت کا مقتدرہ کی مدد سے پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کے خلاف مسلسل بغاوت کا سلسلہ تاریخ کا حصہ ہے. پیپلزپارٹی کی یہ حکومت صرف بیس ماہ چل سکی اور صدر غلام اسحاق خان نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کیا. اس حکومت کےدوران پیپلزپارٹی نے پیپلزورکس پروگرام کی بنیاد رکھی جس کی پنجاب میں نوازشریف نے مکمل مزاحمت کی تاکہ یہ پروگرام کامیاب نہ ہوسکے. ان بیس ماہ کے دوران مقتدرہ صدر غلام اسحاق خان کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کھلم کھلا اپوزیشن کا ساتھ دیتی رہی اور عملاً حکومت کے ہاتھ باندھے رکھے.
انیس سو ترانوے کے انتخابات میں بے مثال کامیابی کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر برسراقتدار آئی اور محترمہ بینظیر بھٹودوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئیں لیکن پنجاب میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود اقتدار پیپلزپارٹی کو نہیں دیا گیا بلکہ 18 سیٹوں والی جونیجو لیگ کے منظور وٹو کو وزیراعلی بنا دیا گیا. اس تین سالہ حکومت کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت نے گاوں گاوں بجلی اور گیس کی سہولت فراہم کی۔ ملکی دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے میزائل پروگرام دیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لئےپاور پلانٹس لگائے جو آج بھی پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ جب انیس سو چھیانوے میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کی گئی تو پاکستان اپنی بجلی کی کُل کھپت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور بجلی ایکسپورٹ کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ کو درست رکھنے کے لئے بتاتے چلیں کہ اسی دور میں تھر کول پراجیکٹ کی بنیاد رکھ دی گئی تھی جسے بعد میں آنے والے نواز شریف اور پرویز مشرف نے اپنے ادوارِ حکومت میں سرد خانے میں ڈالے رکھا۔ پیپلزپارٹی کےووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر فاروق لغاری نے مقتدرہ کی شہہ پر اپنی ہی پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر انیس سو چھیانوےمیں اس حکومت کو برخواست کر دیا۔
اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دو ہزار آٹھ میں وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اس وقت حالات یہ تھے کہ پورا مُلک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، خود کش دھماکے روز کا معمول بن چکے تھے، طالبان سوات اور وزیرستان پر پوری طرح قابض ہو چکے تھے اور ان علاقوں میں حکومتی رٹ تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ معیشت کا بُرا حال تھا۔ گروتھ ریٹ تقریباً ایک فیصد کے قریب تھا جبکہ کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ تو یہ تھے وہ حالات جن میں پیپلزپارٹی کو حکومت مِلی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان سب مشکلات کے باوجود سب سے پہلے آئین کا حلیہ درست کیا. پارلیمانی نظام حکومت کی بحالی کی خاطر اختیارات صدر سے واپس لے کر وزیراعظم کو سونپ دیے۔ صوبوں کو اختیارات منتقل کئے۔ متفقہ این ایف سی ایوارڈ دیا. سوات میں فوج کو آپریشن کا حکم دیا (جس کی نوازشریف اور عمران خان نے ڈٹ کر مخالفت کی) اس آپریشن کے نتیجے میں تیس لاکھ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر پشاور آئے جن کو کامیاب آپریشن کے بعد سوات میں دوبارہ آباد کیا گیا.
مشکل ترین معاشی حالات کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں قابلِ قدر اضافہ کیا گیا. ملک کا پہلا سوشل ایکشن پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا جس کی کامیابی اس بات سے عیاں ھے کہ نہ تو نوازشریف حکومت اسےختم کرسکی اور نہ ہی عمران حکومت البتہ عمران حکومت نے اپنے ازلی تعصب سے کام لیتے ہوئے اس پروگرام کا نام ضرور تبدیل کر دیا ہے. اس کے علاوہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو ملنے والے اختیارات سے سندھ حکومت نے تھر کول پراجیکٹ دوبارہ شروع کیا جو اگلے پچاس سال تک ملک کی بجلی کی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. اس پراجیکٹ کے پہلے پاور پلانٹ نے پچھلے سال کام شروع کر دیا تھا. اٹھارویں ترمیم کے تحت ہی صحت کے شعبے میں صوبوں کو ملنے والے اختیارات کے سبب سندھ حکومت نے پورے سندھ میں سٹیٹ آف دی آرٹ دل کے ہسپتال (NICVD) قائم کئے ہیں جہاں پورے پاکستان سےآنے والے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے جس میں معمولی چیک اپ سے لے کر اوپن ہارٹ سرجری تک کی سہولت شامل ہے. ان میں سے ایک ہسپتال تھر کے شہر مٹھی میں قائم ہے۔ یاد رہے پورے پنجاب میں ایسے صرف دو تین ہسپتال ہیں اورتبدیلی والے صوبے خیبرپختونخوا میں ایک بھی نہیں. اس کے علاوہ گردوں اور جگر کی پیوند کاری کے مرکز گمبٹ انسٹیٹوٹ اور کینسر کے علاج کے لئے سائبر نائف ٹیکنالوجی جیسی جدید ترین سہولت کے قیام سمیت صحت کے شعبے میں بے پناہ کام کیا گیا ہے۔دوسرے معنوں میں سندھ میں صحت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور سارے پاکستان سے عوام علاج کے لئے سندھ کا رُخ کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہی پشتون قوم کے شناخت کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے صوبہ سرحد کو خیبرپختونخواہ کا نام دیا گیا۔ اس تحریر میں مثال کے طور پر ہی چند بڑے بڑے پراجیکٹس کا ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ہیں جن کا ذکر کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بہت کچھ بدل چُکا ہے۔ قیادت تیسری نسل کو منتقل ہو چکی جبکہ جیالوں کی بھی تیسری نسل پارٹی کے ساتھ وابستہ ہو چُکی ہے، اگر کچھ نہیں بدلا تو پارٹی کا نظریہ نہیں بدلا اور نہ ہی پارٹی کی مظلوم اور پِسے ہوئے کمزور طبقے کی حمایت میں کوئی فرق آیا ہے۔ دوسری طرف مقتدرہ کی جانب سے پیپلزپارٹی کی مخالفت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ آج بھی پیپلزپارٹی ان کے عزائم کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوطی سے کھڑی ہے۔
نصف صدی کا قصہ ہے۔ دو چار برس کی بات نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...