پاکستان بھارت کے سربراہان کو 'معاہدہ تاشقند' پرآمادہ کیا جسکی دونوں ممالک میں پزیرائی بالکل بھی نہیں ہوئی بلکہ بھارت میں تو "کشمیر میں گوریلا جنگ بندی" کی شق نہ ہونے پر اپوزیشن نے بڑے بڑے مظاہرے کیئے۔ ایوب کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ "ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی" اور حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر مظاہروں کی کال دی تو فوجی نے دفعہ 144 کا نفاذ کر کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ دوسری جانب 5 فروری 1966 کو شیخ مجیب نے ایک پریس کانفرنس میں (مشرقی پاکستان) علاقائی خود مختاری کا اعلان کر کے پہلے سے مخدوش حالات پر پیٹرول چھِڑک دیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایوب خان سے الگ ہونے کے بعد بھُٹو صاحب نے نیشل عوامی پارٹی میں شمولیت کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ باچا خان گو حیات تھے مگر انکی جماعت کی کمان اسوقت خان عدالولی خان کے ہاتھ میں تھی اور پارٹی منشور کٹر مارکسسٹ تھا لیکن بحرحال بھٹو صاحب کی خواہش کا پورا نہ ہونا انکے لیئے Blessing in Disguise بن گیا جو انہیں اقتدار کی منزلِ مقصود تک لیکر گیا۔ ایوب خان سے اختلافات بڑھنے کے سبب ملک بھر میں پہلے سے جاری سوشلسٹ / لیفٹسٹ قوتیں بھٹو صاحب کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئیں جو بالآخر لاہور میں دو روزہ کنوینشن منعقدہ رہائشگاہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اسی کنونشن نے یکم دسمبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا چیئرمین منتخب کر کے آنے والے وقتوں کی تاریخ کو جنم دیا۔ پارٹی منشور ایک بنگالی کالمسٹ جے اے رحیم نے لکھا جسے پہلی بار 9 دسمبر 1967 کو جاری کیا گیا۔
"اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت، طاقت کا سرچشمہ عوام" کا مسحورکُن نعرہ اسی بنگالی کے قلم سے جاری ہوا۔ پارٹی کا بنیادی مقصد غیر طبقاتی سماج (مارکس کی Classless society) کا احیاء ٹھہرا اور سوشلسٹ سماج کیلئے جدوجہد کا معاہدہ تشکیل پایہ۔ پہلے منشور کیمطابق
“Only socialism