لاکھ جھوٹ بولیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ساٹھ کی دھائی میں ایوب خانی حکومت نے بائیس سرمایہ دار خاندانوں کو مضبوط کیا۔ اپریل 1968 میں ایوب کے چیف اکانومسٹ پلاننگ کمیشن ڈاکٹر محبوب الحق کی سرکاری رپورٹ کیمطابق ان بائیس خاندانوں کے قبضے میں ملک کی %66 انڈسٹری جبکہ بنکنگ اور انشورنس انڈسٹری کا %87 انکی ملکیت تھا۔
1965 کی جنگ نے ملکی معیشت پر تباہ کُن اثرات ڈالے اور آنے والے سالوں میں سرمایہ کاری %20 کم ہو گئی جس سے نوکریاں ختم ہونے لگیں اور عوام بھوکوں مرنے لگے۔ 'آپریشن جبرالٹر' جسے بعد ازاں فوج بھُٹو پر ڈالتی رہی در حقیقت فوج کا اپنا پلان تھا جو اپریل 1965 میں جموں کشمیر میں فوجیں گھُسا کر کشمیر فتح کرنے چلی تھی۔ یہ آپریشن فاش غلطی ثابت ہوا اور جنگ 1965 کا سبب بن گیا۔ محض 14 دنوں میں ہم نے جنگ بندی کیلئے عرب ممالک کیطرف دوڑ لگا دی جو بالآخر 23 ستمبر کو عالمی مداخلت پر روک دی گئی۔
بالٹیاں بھر بھر اخباری جھوٹ عوام کے ذہنوں میں اتارا گیا اور چونڈہ کے محاذ پر فرشتوں کی جنگ سمیت بڑی سے بڑی بونگی مارنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ سُپر پاور روس کے وزیراعظم الیکسی کوسیگین نے (4 تا 10 جنوری 1966) تاشقند کے مقام پر ,پاکستان بھارت کے سربراہان کو 'معاہدہ تاشقند' پرآمادہ کیا جسکی دونوں ممالک میں پزیرائی بالکل بھی نہیں ہوئی بلکہ بھارت میں تو "کشمیر میں گوریلا جنگ بندی" کی شق نہ ہونے پر اپوزیشن نے بڑے بڑے مظاہرے کیئے۔ ایوب کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ "ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی" اور حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر مظاہروں کی کال دی تو فوجی نے دفعہ 144 کا نفاذ کر کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ دوسری جانب 5 فروری 1966 کو شیخ مجیب نے ایک پریس کانفرنس میں (مشرقی پاکستان) علاقائی خود مختاری کا اعلان کر کے پہلے سے مخدوش حالات پر پیٹرول چھِڑک دیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایوب خان سے الگ ہونے کے بعد بھُٹو صاحب نے نیشل عوامی پارٹی میں شمولیت کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ باچا خان گو حیات تھے مگر انکی جماعت کی کمان اسوقت خان عدالولی خان کے ہاتھ میں تھی اور پارٹی منشور کٹر مارکسسٹ تھا لیکن بحرحال بھٹو صاحب کی خواہش کا پورا نہ ہونا انکے لیئے Blessing in Disguise بن گیا جو انہیں اقتدار کی منزلِ مقصود تک لیکر گیا۔ ایوب خان سے اختلافات بڑھنے کے سبب ملک بھر میں پہلے سے جاری سوشلسٹ / لیفٹسٹ قوتیں بھٹو صاحب کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئیں جو بالآخر لاہور میں دو روزہ کنوینشن منعقدہ رہائشگاہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اسی کنونشن نے یکم دسمبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا چیئرمین منتخب کر کے آنے والے وقتوں کی تاریخ کو جنم دیا۔ پارٹی منشور ایک بنگالی کالمسٹ جے اے رحیم نے لکھا جسے پہلی بار 9 دسمبر 1967 کو جاری کیا گیا۔
"اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت، طاقت کا سرچشمہ عوام" کا مسحورکُن نعرہ اسی بنگالی کے قلم سے جاری ہوا۔ پارٹی کا بنیادی مقصد غیر طبقاتی سماج (مارکس کی Classless society) کا احیاء ٹھہرا اور سوشلسٹ سماج کیلئے جدوجہد کا معاہدہ تشکیل پایہ۔ پہلے منشور کیمطابق
“Only socialism, which creates equal opportunities for all, protects (people) from exploitation, removes the barriers of class distinction, and is capable of establishing economic and social justice. Socialism is the highest expression of democracy and its logical fulfillment”.
اول دن سے سوشلسٹ ایجنڈے ہر تحرک میں آنے والی جماعت بہت جلد تین متحارب طبقات یعنی مارکسسٹ، اسلامی سوشلسٹ اور جاگیرداروں کی نمائیندہ جماعت بن گئی۔ جس وقت ایوب خان دس سالہ ترقی کا جشن منا رہا تھا ملک کے طُول و ارض میں مظاہرے پھُوٹ پڑے جو بہت جلد بھُوک اور بیروزگاری سے تنگ نوجوان اس تحریک کا ہراول دستہ بن کر میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے۔
اب اسے بھُٹو صاحب کی خوش قسمتی کہیئے یا پھر تقدیر کا کھیل کہ اِنہی دنوں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیپ دولخت ہوگئی۔ ہوا یوں کہ روس نواز کٹر مارکسی حصہ خان عبدالولی خان کی قیادت میں جمہوری جدوجہد کا داعی تھا جبکہ چین نواز فریکشن مولانا بھاشانی کی امامت میں مزدور انقلاب بپاء کر کے آمریت کا تختہ اُلٹنا چاہتا تھا۔ اس نفاق میں پاپولر قیادت کا جو خلاء پیدا ہوا اُسے بھٹو صاحب نے بطریقِ احسن بخوبی بھرا اور نیپ جو ملکی سیاست کا سب سے اہم ستون تھی سمٹ کر پختونوں کی نمائیندہ جماعت بن گئی۔ اس میں ایک بڑا کردار بھٹو صاحب کی شخصیت کے علاوہ ان پاپولر نعروں نے ادا کیا جو وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھے۔
وسط 1968 میں ملک کے سیاسی موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو صاحب نے پنجاب سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا اور لاکھوں افراد کے جلسے کیئے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے نے محروم طبقات کی مکمل خود سپردگی کا انتظام کیا اور عظمتیں خود جھُک کر بھٹو صاحب کو لے اُڑیں۔ بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ وہ ملک سے جاگیرداری کی لعنت کا خاتمہ کریں گے اور ہاریوں، کمیوں کو انکے زیر کاشت رقبے پر مالکانہ حقوق دیئے جائیں گے۔ تعلیمی ایمرجنسی، نہری پانی پر حق، علاج گھر کی دہلیز پر، مزدوری کا دورانیہ آٹھ گھنٹے، کشمیر کا پاکستان میں انضمام، آمریت سے حتمی نجات، المختصر یہ کہ بھٹو صاحب نے ہر اُس طبقے کے زخموں پر مرہم رکھا جو اسکا حقدار تھا۔ ٹریڈ یونینز سے لیکر نمائیندہ مزدور تنظیموں تک اور انجمنِ تاجراں سے لیکر شعراء ادیبوں تک ہر ہر طبقے نے بھٹو صاحب کے پروگرام پر لبیک کہا اور وہ شخص جسے ولی خان جیسے زیرک اور صاحبِ نظر نے اپنی جماعت میں لینے سے انکار کیا تھا، کُچھ ہی مہینوں میں اس ملک کا سب سے بڑا لیڈر بن کر اُبھرا۔