پاکستان پیپلزپارٹی کے پچاس سال
پاکستان پیپلزپارٹی نے گزشتہ دنوں اپنی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات کے انعقاد کے سلسلے میں اسلام آباد میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسے نے حالیہ سیاست میں لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی بڑے عوامی اجتماعات کا اہتمام کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پچاس سال سیاست وجدوجہد میں کامیابیوں، اقتدار، جہد مسلسل، نظریات، مفاہمت، آگ وخون، قربانیوںاور بے وفائیوں کے ملے جلے واقعات سے عبارت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں اس پارٹی کی بنیاد رکھی تو اُن کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُن کی پارٹی اس قدر مقبولیت حاصل کر لے گی۔ یہ پارٹی عوامی بنیادوں پر پاکستان کی ایک مقبول سوشلسٹ جماعت کے طور پر ابھری۔ پارٹی کا منشور بنیادی طور پر سوشلزم کے گرد تھا۔ سرد جنگ کے عروج میں ایک سوشلسٹ جماعت کا ظہور اور اس کا مقبول ہوجانا پاکستان میں کسی انقلاب سے کم نہ تھا۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے دنوں میں جب پاکستان، امریکہ کا چہیتا ملک اور جنرل ایوب اس کے پسندیدہ حکمرانوں میں شامل تھے، اُن کے زمانے میں ایک سوشلسٹ جماعت کا عوامی سطح پر مقبول جماعت ہوجانا پورے ملک کے لیے حیرت انگیز واقعہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو خوش نصیب تھے کہ اُن کی جماعت کے پلیٹ فارم سے نوجوان ترقی پسند قیادت کو سیاست کے مواقع ملے۔ اور یوں پاکستان بالکل ایک نئی قیادت سے متعارف ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تمام ساتھی اپنی عمروں کی تیسری دہائی میں تھے۔ پاکستان میں اس قدر جواں سال قیادت نہ کبھی پہلے اور نہ ہی بعد میں دیکھنے کو ملی۔ جلد ہی اُن کی جماعت اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچی۔ یہ سب کچھ تین سالوں میں برپا ہوگیا لیکن نہ اُن کو اور نہ ہی اُن کی جماعت کی قیادت کے وہم وگمان میں تھا کہ اقتدار اور مقبولیت کی ان منازل کے بعد اُن کی سیاست، وجود، جسم اور جماعت کن کٹھن حالات کا سامنا کرے گی۔
اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اُن لوگوں کو بھی اپنی جماعت اور حکومت میں شامل کرلیا، جن کے خلاف اس پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اپنی اس مفاہمت کو انہوں نے پھانسی کی کوٹھڑی سے ایک ’’یوٹوپیائی مفاہمت‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی سنگین غلطی قرار دیا۔ پھانسی کی کوٹھڑی سے "If I Am Assassinated" میں انہوں نے اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ دو طبقات کے درمیان مفاہمت ایک سنگین غلطی ہے۔ اور یہ کہ اسی سبب میں پھانسی کی کوٹھڑی میں آج سزائے موت کا منتظر ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو دار پر چڑھا دئیے گئے تو پاکستان پیپلزپارٹی کی جدوجہد کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ یہ پارٹی کا مشکل ترین دَور تھا۔پارٹی اپنے بانی اور کرشمہ ساز رہنما سے محروم کردی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کو پورا یقین تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی کرشمہ ساز قیادت کے بعد پارٹی کا وجود کسی بھی طرح برقرار نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہ معجزے نہیں بلکہ جدوجہد کے سبب ممکن ہوا کہ پارٹی کے کارکنوں نے پارٹی کا وجود اپنی جہد مسلسل اور جبر کا مقابلہ کرکے برقرار رکھا۔ بلکہ پارٹی کے کارکنوں کی دل گرما دینے والی جدوجہد جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں، نے پارٹی کی بانی رہنما نصرت بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی قیادت کو منوانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایک فوجی آمریت اور مردانہ معاشرے میں دو خواتین کی قیادت کے ہاتھوں سیاسی پارٹی کا پرچم سربلند رکھنے میں فیصلہ کن کردار پارٹی کے کارکنوںکے ہی مرہونِ منت ہے۔ مغرب میں اس بات کو بڑی حیرانی سے دیکھا جاتا ہے کہ پاکستان جیسے مردانہ معاشرے میں بے نظیر بھٹو جیسی نوجوان لڑکی کیسے وزیراعظم بن گئیں۔ متعدد لوگ اس کو ایک Feminist کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کسی Feminist جدوجہد نہیں بلکہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی مقبول رہنما بننے میں کامیاب ہوئیں۔ اُن کا سیاسی اعتماد درحقیقت پارٹی کے جانثار کارکنوں کی جدوجہد میں پنہاں تھا جس میں ہزاروں کارکنوں نے کوڑے اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد عقوبت خانوں میں پابند سلاسل کیے گئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے یہ کارکن درحقیقت اپنے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے عشق اور اس کے نظریے سے گندھ کر آمریت اور مرد معاشرے میں صف آراء ہوئے اور انہوں نے ایک نہتی لڑکی (بے نظیر بھٹو) کو پاکستان کی مقبول لیڈراور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب کروانے تک جدوجہد کی عظیم منزلیں طے کیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا وہ کیڈر جو ذوالفقار علی بھٹو نے 1966-67ء کی عوامی تحریک اور بعد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے بطن سے جنم دیا، اس نے پارٹی کے بانی قائد کے قتل کے بعد پارٹی کو زندہ رکھا اور ایک خاتون کو پاکستان کی سیاست کا اہل ہی نہیں بلکہ مقبول لیڈر بنا ڈالا۔ یہ تمام تر کریڈٹ پارٹی کے کارکنوں کو جاتا ہے اور اس میں اہم ترین کردار پنجاب کے کارکنوں نے ادا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ، اپریل 1986ء میں وطن واپس لوٹیں تو پاکستان پیپلزپارٹی کے جلوس میں یہ واشگاف نعرہ لگ رہا تھا، بے نظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے۔آگ و خون کا دریا عبور کرنے والا یہ کیڈر پاکستان کو جنرل ضیا کی آمریت ہی نہیں بلکہ پاکستان کو اس نظام سے نجات دے گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی اصل طاقت یہ کارکن ہی تھے جنہوں نے لندن سے جلاوطنی کے بعد پاکستان آنے پر بے نظیر بھٹو کو خمینی اور کوری اکینو سے بھی بڑا استقبال دیا۔ پاکستان میں پُرامن انقلاب کے لیے پارٹی کا کیڈر اس استقبال کے بعد جس اعتماد کا مظاہرہ کررہا تھا، جلد ہی اس میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی کا بنیادی اثاثہ یہ کارکن ہی تھے، وہ پارٹی اور عوام میں پُل بھی تھے۔ اُن کی جدوجہد کی داستانوں نے گھر گھر لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا تھا۔ اپنے جسموں پر کوڑے، خود کو نذرِآتش کرنے، سولی پر چڑھنے سے لے کر ہزاروں عقوبت خانوں میں ہزاروں راتیں اور دن اِن کی عظمت کی گواہ تھیں۔ پارٹی کا یہ کیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے عشق میں اُن کے نظریے اور اُن (عوام) کے لیے سولی پر چڑھ جانے کے سبب لازوال قربانیوں کو تاریخ کا حصہ بنا گیا۔
10اپریل 1986ء کو پیپلزپارٹی نے درحقیقت ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ مفاہمت کا سفر۔ شام کو مینارِ پاکستان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر۔ ضیا جاوے ای جاوے کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس دوران پارٹی کے کارکن سامراج کے پرچم اور جاگیرداری کے خلاف نعرے بلند کررہے تھے۔ اس مفاہمت کے سفر میں 1988ء میں پاکستان پیپلزپارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں حکومت بنائی تو پارٹی اور حکومت میں اب وہ لوگ معزز ٹھہرے جن کے خلاف پارٹی کے جیالے کارکنوں نے 1977ء سے 1986ء تک حیران کردینے والی جدوجہدکی تھی۔ مفاہمت کی اس سیاست کو 1990ء میں پہلی ہزیمت اٹھانا پڑی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی ختم کردی گئی۔ اب پاکستان پیپلزپارٹی ایک بدلتی پارٹی تھی۔ مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی Towering شخصیت کی طاقت نے پارٹی کے وجود کو طاقت فراہم کیے رکھی۔ اسی مفاہمتی سیاست میں 1993ء میں دوسری حکومت قائم ہوئی جو 1997ء میں ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ نے ختم کردی۔ اس بار پارٹی کو دہرا نقصان ہوا۔ حکومت بھی گئی اور بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ سرِبازار قتل کردئیے گئے۔ بے بس حکومت کچھ دنوں بعد رخصت ہوئی۔ اب پی پی پی اس پارٹی سے کہیں مختلف تھی جو 1967ء ، 1977ء سے 1986ء تک دبنگ عوامی آواز کو بلند کرتی تھی۔ پارٹی میں بڑے بڑے جاگیردار اور آمرانہ ادوار کے ’’اہم لوگ‘‘ اس کے قائدین میں شمار ہونے لگے۔ محترمہ دوبارہ جلاوطنی پر مجبور ہوئیں۔ تقریباً دس سال بعد واپس وطن لوٹیں تو 18اکتوبر 2007ء کو قاتلانہ حملے میں بچ گئیں۔ وہ اس بار بڑی مفاہمت کا پرچم بلند کرنے واپس وطن لوٹی تھیں۔ فوجی حکومت سے این آر او، مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے چارٹر آف ڈیموکریسی اور عالمی طاقتوں سے متعدد معاملات پر یقین دہانیاں۔ مگر مفاہمت کا پرچم سربلند کیے محترمہ بے نظیر بھٹو سرِبازار شہید کردی گئیں۔ اُن کا خون جس بے دردی سے کیا گیا، وہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ وہ اُسی شہر میں قتل کی گئیں جہاں اُن کے والد کو سولی پر چڑھایا گیا تھا۔ مفاہمت درمفاہمت کے اس سفر میں 2008ء میں اُن کی پارٹی کو اقتدارتو ملا، لیکن پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو کا نظریہ اور پارٹی کا کیڈر معدوم ہونے لگے۔ اور پھر 2013ء میں جو ہوا، وہ سب کو یاد ہے۔ پچاس سالوں کا یہ سفر، اب لوگوں کو کدھر لے چلے گا؟ کیا پیپلزپارٹی، ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کے عین مطابق سیاسی پرچم بلند کرے گی۔ کیا پارٹی اپنی مقبولیت بحال کرپائے گی یاکہ ایک بار پھر مفاہمت اور اقتدار؟ دیکھئے کیا ہوتا ہے!
“