پاکستان منصفوں کے ہاتھ چڑھ گیا !
یہ بھی دیکھنا تھا ، اور وہ بھی بار بار بکے ہوئے ، اور ٹشو کی طرح استمعال کیے ہوئے منصف ۔ ایک وزیر اعظم بن گیا ، دوسرا کافی دیر سے چیف الیکشن کمشنر ہے ، تیسرا نیب چیرمین اور چوتھا ‘کنگ آف دی کنگز’ پاکستان کا چیف جسٹس ہے ۔ پچھلے ستر سالوں میں ماسوائے انگلیوں پر گنے جانے والے چند منصفوں کے سوا ، ہر ایک نے اپنی دوکان سجائ، اپنی قیمت لگوائ اور اپنا سرکس چلایا ۔ اور حیرانگی یہ کہ اس تماشہ میں اب ملک کو مکمل تباہی کی طرف دھکیل کر لُڈیاں ڈال رہے ہیں ۔ کسی نے مارشل لاء کو جائز کہا کسی نے ناجائز ۔ آمروں کے خلاف فیصلے ان کے جانے یا مرنے کے بعد کیے ۔ کسی نے بھٹو کو پھانسی دی ، کسی نے اُسے جیوڈیشل مرڈر کہا ۔ کسی نے ٹی وی پر ازان دینے کا حکم صادر کیا ، کسی نے کہا نہ بھی دیں تو خیر ہے ، مملکت اسلامیہ قائم و دائم رہے گی ۔
یہ سارا تماشہ کیونکر ہوا ؟ کیونکہ ان کو لگانے کا کوئ صاف ، شفاف ، غیر جانبدارانہ طریقہ نہیں تھا ۔ لہٰزا رشتہ داریاں ، سیاسی وابستگیاں اور پیسہ چلا ، نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔ اگر نواز شریف نے ثاقب نثار کو لگایا تو وہ اب اس سے فیورز چاہتا ہے ۔ اُس کا حق ہے ، اسی لیے مریم گالیوں تک اُتر آئ ۔ ہچھلہ ہفتہ مجھے نچلی عدلیہ کے ایک جج پنجاب سے درخواست کر رہے تھے کہ کچھ لکھیں کہ جو ہر نیا پنجاب کا چیف جسٹس آتا ہے وہ آتے ہی ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کر دیتا ہے ۔ اتنی زیادہ فیملی کو پریشانی ہوتی ہے ، حکومت کا خرچہ الگ ۔ فرمانے لگا کوئ criteria ہونا چاہیے ۔ میرا جواب تھا بھائ پورے ملک کو چلانے کا کوئ criteria نہیں تو یہ تو ان کے لیے کوئ بات نہیں ۔ criteria رکھ دیں گے تو پھنس جائیں گے ۔ فواد اور توقیر کہاں سے پیدا ہوں گے ۔ توقیر صاحب ابھی بھی پاکستان ہیں ججوں اور قادری صاحب سے پیسے کی ڈیل میں ۲۴ گھنٹے مصروف ۔
نئے سابقہ بکے ہوئے منصف نے آتے ہی جہاں لُوٹ کھسوٹ اور سرکاری عیاشیاں ختم ہوئیں تھیں ، وہیں سے بڑی دلیری سے شروع کر دیں ۔ میں ناصر کھوسہ کو ایک بات پر تو داد دیتا ہوں اُس نے کہا مجھے جتنا سوشل میڈیا نے زلیل و خوار کیا ، جس میں ناچیز بھی پیش پیش تھا ، مجھے معاف کر دیں ، بھاڑ میں جائے وزارت اعلی ، ہچھلے گناہوں کا حساب نہ دینا پڑ جائے ۔ نصیر الملک ڈھیٹ بھی ہے اور اتنا سمجھدار بھی نہیں ۔ جسٹس فرخ عرفان نے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ سوشل میڈیا نے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا لیکن پھر ڈھیٹ ہو گیا ۔ ثاقب نثار کو زپ کھول کے دکھا دی جب اُس نے استعفی کا کہا ۔
پہلی دفعہ فوج صرف تماشائ کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ سیاستدان اور بیوریوکریٹ بندر بانٹ میں مصروف ۔
یہ کھیل ہے ، تماشا ہے، چند غنڈوں کی اداکاریاں ۔ یہ ستر سال سے چل رہا ہے یہ ملک ختم ہو گا تو رُکے گا ۔
خطہ ایک آگ کی لپیٹ میں ہے، پاکستان کے ہر طرف ایک ہولناک آگ چھڑنے کو ہے ، کیا فوج ان حالات میں غیر جانبدار رہنے میں کامیاب ہو گی ؟ تمام ملکوں کو تو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی پڑ گئ ہے ، سوائے پاکستان کے ، جہاں ابھی بھی ۲% آبادی نے ۹۸ % کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ فیصلہ کا وقت آ گیا ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص کو کھڑا ہونا ہو گا ۔ کل میں نے ایک quote ٹویٹ کیا تھا جس کو بہت زیادہ لائیکز ملی ‘سازشیوں کی خاموشی میں ایک آواز بھی پستول کی گولی کی طرح لگتی ہے ‘
آؤ وہ آواز بنیں اپنے پیارے پاکستان کو بچانے کے لیے ۔ سوشل میڈیا آزاد ہے اور ایک بہت بڑی طاقت بن کہ اُبھرا ہے ۔ جاگ اُٹھا ہے سارا وطن کا گانا گاؤ ۔
عطاش نقوی نے کیا خوب اس سارے تماشے کو بیان کیا ۔ اسی پر ختم کروں گا ۔ بہت خوش رہیں ۔
ہے چار سُو ہی لگا تماشا
یہاں ہے سب میں رچا تماشا
عجیب سرکس لگا ہوا ہے
تماشبین بھی بنا تماشا
خدا ہی جانے زمین پر یوں
ہوا ہے کتنی دفعہ تماشا
ریا نے دنیا لپیٹ لی ہے
عبادتوں میں دُکھ تماشا
یہ وقت مخصوص تو گزارو
وہاں ہو شاید نیا تماشا
اُلٹ کے دیکھو یہ صفحے کالم
خبر خبر میں چھپا تماشا
کبھی تو منصف یہ خود بھی سوچے
کہاں تھا وہ جب ہوا تماشا
یہ شکر کر کہ تُو معتبر ہے
ہے تارکی میں چُھپا تماشا
یہ معرفت ہے الگ کہانی
ہے پارسائ جُدا تماشا
عطش نگاہیں پرو کہ بیٹھو
ابھی زرا ہے بچا تماشا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔