پاکستان میں تیسری جنس کا قتل عام
پاکستان کی آبادی لگ بھگ 21 کروڑ ہے۔ان میں بچے ،خواتین ،مرد اور خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈرز سب شامل ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اس اکیس کروڑ آبادی میں 20لاکھ وہ افراد شامل ہیں جنہیں خواجہ سرا کہا جاتا ہے ۔خیبر پختونخواہ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں خواجہ سرا اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں ۔پچھلے تین سالوں کے دوران خواجہ سرا کمیونٹی پر تشدد کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ،ان تین سالوں میں 54خواجہ سرا قتل کئے گئے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں خواجہ سرا جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار اٹھارہ کے اس رواں ماہ میں خیبر پختونخواہ 22 خواجہ سرا تشدد کا نشانہ بنے ہیں اور یہ کیسز وہ ہیں جو رجسٹرڈ کئے گئے ہیں۔حال ہی میں ضلع صوابی کی تحصیل یار حسین میں تین خواجہ سرا ایک تقریب سے وآپس لوٹ رہے تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا جن میں سے دو کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ۔ایک تنظیم ہے جس کا نام ہے ٹرانس ایکشن پاکستان جو پشاور میں آپریٹ کررہی ہے ،اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ میں خواجہ سرا سب سے زیادہ قتل ہوئے ،رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ پہلے ایک اٹھارہ سالہ خواجہ سرا کو انیس افراد نے اغواٗ کیا ،اس کے بعد اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا ،21اکتوبر 2017 کو پشاور میں ایک خواجہ سرا کی تشدد زدہ لاش ملی ،اسی طرح مئی 2016 میں ایک خواجہ سرا کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا ۔یہ خواجہ سرا پشاور کے ایک اسپتال میں پانچ گھنٹے تک تڑپتا رہا ،لیکن ڈاکٹروں کو رحم نہ آیا ۔ڈاکٹروں اور وارڈز میں موجود مریضوں نے گولیوں سے لت پت خواجہ سرا کو تضحیک آمیز رویوں کانشانہ بنایا ۔مریض اور ڈاکٹر خواجہ سرا کو ہیجڑا کہہ کر انسانیت کی توہین کرتے رہے ۔اسی کیفیت میں وہ خواجہ سرا مر گیا ۔کیا ملک ہے جہاں بچیوں اور بچوں کو جنسی تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے خواجہ سراوں کا ریپ کرکے انہیں قتل کیا جاتا ہے،اقلیتوں کو کافر کہہ کر قتل کردیا جاتا ہے ،آزاد خیال انسانوں کو غدار کہہ کر مارا جاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں کمزور کے لئے صرف موت ہے ۔رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ میں آٹھ ایسے منظم گروہ ہیں جو خواجہ سرا کمیونٹی کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ،ان کی جنسی ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر ان کو قتل کردیتے ہیں ۔تھانوں میں تیسری نسل کے قتل پر مقدمہ تک درج نہیں ہوتا ۔2009 میں عدالت نے تیسری نسل کمیونٹی کو محفوظ بنانے کے اقدامات اٹھائے تھے ،ان خواجہ سراوں کو قانونا تیسری نسل کا درجہ دیا گیا ،2012میں نادرہ نے ان خواجہ سراوں کی رجسٹریشن کی،ان کے لئے شناختی کارڈ بنائے گئے ،2013 کے انتخابات میں تیسری نسل کے افراد نے ووٹ ڈالے ۔28 جون 2017 کو پاکستان کی تاریخ میں پہلے خواجہ سرا کو پاسپورٹ بھی ایشو کیا گیا ۔یہ ٹرنس جینڈرز بھی انسان ہیں ،یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں ،مردوں اور عورتوں کی طرح ان کو بھی قدرت نے تخلیق کیا ہے ،اگر یہ خواجہ سرا پیدا ہوئے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے ۔انہیں بھی برابر کا انسان سمجھنا چاہیئے ۔ہم انسان کیوں ان کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں ،اگر یہ انسانوں کا معاشرہ ہے تو یہاں ان کی بھی عزت بحال کرنی ہوگی ۔قانون اور عدالت کو ان کمزوروں کے حقوق کو بھی سنجیدہ انداز میں سمجھنا چاہیئے ۔نہ انہیں نوکری ملتی ہے ،نہ ان کو روزگار کا حق ہے ،سب ان کی تضحیک کرتے ہیں ،انہیں مجبور کیا گیا ہےکہ یہ چوک چوراہوں اور سڑکوں پر کھڑے ہوں ،اور تالیاں بجاتے رہیں ،کیا ان کی ووکیشنل ٹریننگ کے انتظامات ہیں ؟ہم نے انہیں مجبور کیا ہے کہ یہ سگنل پر کھڑے ہوں ،تالیاں بجائیں اور ناچیں ،اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم ہی ہیں جو ان کی تضحیک کرتے ہیں ۔اس ملک میں انسانوں کا رویہ ہی یہ ہے کہ خواجہ سرا کا مطلب ہے تالیاں بجانے والا ،ناچنے گانے والا۔کورٹ کے فیصلے کے باوجود سرکاری اداروں میں ان کو نوکری نہیں ملتی ،اگر ان کی پیدائش ہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے تو بتایا جائے کہ اس میں ان کا کیا قصور ہے ؟ایسی کمیونٹی جن پر ہر روز تشدد ہو ،جن کا ریپ کیا جائے ،جن کی صحت کے لئے انتظام نہ ہو ،جو بے روز گار ہوں،جو روزانہ گالیاں سہتے ہوں ،جن کی ہاوسنگ کے انتظامات نہ ہوں اور نہ ہی ان کی تعلیم و تربیت کے لئے کوئی انفراسٹکچر ہو ،وہ تالیاں نہ بجائیں تو کیا کریں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔