علمِ تاریخ انسانی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی افعال کا آئینہ دار ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین اور مفید علوم میں ہوتا ہے۔ یہ محض ماضی کے دلچسپ اور یادگار واقعات کی جستجو ہی کا نام نہیں جیسا کہ ہیروڈوٹس نے کہا تھا، بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم انسانی تہذیب کے عہد بہ عہد ارتقا کی تصویر دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی جدوجہد کی داستان پیش کرتی ہے۔ اگر تاریخ انسانی ز ندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک نہ پہنچاتی تو انسانی تمدن کا کارواں کبھی رواں دواں نہ ہو پاتا اور زمانہ قبل از تاریخ کی تاریک اور کٹھن منزل پر ہی ٹھہرا ہوا ہوتا۔ مرقوم تاریخ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے توسط سے مختلف اقوام و افراد ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ ونا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر حال و مستقبل کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور ماضی کی روشنی سے حال کو منور کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔
تاریخ ماضی اور حال کے درمیان وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر انسان عہدِ رفتہ سے ناتا جوڑ سکتا ہے۔ یہ ماضی، حال اور مستقبل کی وحدت کا نام ہے۔ سپین کے دانشور ویویز (VIVES) نے کہا تھا کہ جو قوم تاریخ سے بے بہرہ ہے، اس کے بوڑھے بھی بچے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ کو محفوظ کر لیتی ہے، وہ گو یا بقائے دوام کاسامان مہیا کرتی ہے۔
پاکستان جیسی نئی قائم ہونے والی ریاست میں قومی تاریخ لکھنے کا سوال خاصا پیچیدہ رہا ہے۔ ایک طرف تو یہاں ریاست ان لوگوں نے قائم کی جو ایک مختلف تاریخی و ثقافتی ورثے کے مالک تھے اور جن کے آباو اجداد نے جنوبی ایشیا میں ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ دوسری طرف وہ ملک جس کو پاکستان کہا جاتاہے، اس نے مسلمانوں کے ایک نئے ثقافتی کردار کو اپنانے سے پہلے ایک ایسی تہذیب قائم کر لی جو بڑی اہمیت کی حامل تھی، اس لیے پاکستان میں تاریخ نویسی کے ابتدائی رحجانات کا جنوبی ایشیا میں تاریخ نویسی کی روایت کے بڑے کینوس سے الگ کر کے جائزہ لینا اسے سمجھنے میں دشواری پیدا کرے گا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مختصراً یہ دیکھ لیا جائے کہ انڈو مسلم تاریخ نویسی نے یہاں کیا ترقی کی اور آزادی کے بعدکے محققین پر کیا اثرات مرتب کیے تاکہ پاکستان میں تاریخ نویسی کے رحجانات کو سمجھا اور پرکھا جا سکے کیونکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ نویسی کی پرانی روایت کا تسلسل بعد میں بھی جاری رہا ہے۔ اس سلسلے میں تقسیم ہند سے پہلے کی تاریخ نویسی کو تین ادوار میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا ابتدائی دور، پھر انڈو مسلم دور، اور پھر نو آبادیاتی دور۔
(i) ابتدائی دور: ابتدائی دور جو گیارھویں صدی تک پھیلا ہوا ہے، اس دور کے تاریخ نویس غیر ملکی تھے مثلاً یونانی، چینی سیاح اور عرب وفارس کے مسلم مورخین۔ ابتدائی دور کے تاریخ لکھنے والوں کی تحریریں حقائق پر مبنی بیانیہ تھیں۔ یونانی و چینی تحریریں محدود اور خاص واقعات و مواد سے متعلق نظر آتی ہیں، مثلاً یونانی تحریروں کا تعلق اسکندر اعظم کی مہمات سے ہے جبکہ چینی سیاحوں کی تحریروں کا تعلق ان علاقوں میں بُدھ ازم کی حالت سے ہے۔ ان تحریروں میں دی گئی دیگر معلومات مفید تو ہیں مگر ثانوی حیثیت کی حامل ہیں جبکہ اس دور کے بارے میں لکھنے والے مسلم مورخین کی تحریریں فنِ تاریخ نویسی کے حوالے سے زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ہیئت و مواد کے اعتبار سے متنوع اور یہاں کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان دنوں تاریخ نویسی کا طریقہ Descriptive reporting or narration free from any personal opinion یعنی مورخ کی ذاتی رائے اور تجزیے سے مجرد محض خبر اور حکایہ پر مبنی تھا۔
(ii) انڈو مسلم دور : برصغیر میں تاریخ نویسی کا آغاز و ارتقا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہی ہوا۔ سلطنت دہلی کے قیام کے بعد یہاں فن تاریخ نویسی کو فروغ ملا۔ خبر اور حکایہ کے ساتھ ساتھ عہد بہ عہد تاریخی حالات اور طبقاتی تقسیم، سیرت و انساب کے حوالے سے تاریخ نویسی ہوئی۔ یہ تمام طریقے تیرھویں صدی میں ہی استعمال ہونے لگے۔حسن نظامی نیشا پوری کی ’’تاج المآثر‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ تاریخ نویسی کے حوالے سے طبقات ناصری، فتح نامہ سندھ، چچ نامہ، تزک بابری، اور آئین اکبری انڈومسلم عہد کی تاریخ نویسی کے نمائندہ کام ہیں۔ درباری مورخین کے ذریعے عصری تاریخ لکھنے کا رواج یہاں مغلوں کے دور میں ہوا۔ میر علی شیرقانی کی ’’تحفۃ الکریم‘‘ اس دور کی تاریخ نویسی کا آخری نمونہ ہے۔
(iii) نوآبادیاتی دور : حقیقی استعماری قبضے سے بہت پہلے ہی غیر ملکی مصنفین جن میں زیادہ تر سیاح، عیسائی مبلغین اور وہ سرکاری عہدیدار تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں ہندوستان کا دورہ کیا، انہوں نے یہاں کے بارے میں لکھا، مگر لسانی مشکلات، قابل اعتبار افراد و دستاویزات تک رسائی میں مشکلات اور مذہبی تعصبات نے ان کی لکھی ہوئی تحریروں کی قدرو قیمت کو کم کیا۔ نو آبادیاتی دور میں جو تحریری مواد سامنے آیا، وہ زیادہ تر عیسائی مشنریوں یا نو آبادیاتی منتظمین اور پالیسی میکرز کا تحریر یا جمع کردہ تھا۔ اس دور میں تاریخ نویسی کا غالب رحجان یہ تھا کہ تاریخ کے ذریعے نو آبادیاتی حکمرانوں کو رعایا کے لیے مہربان حکمران ثابت کیا جائے۔ چونکہ انگریزوں کی آمد سے قبل مسلمان یہاں حکمران تھے، لہٰذا انہیں برا بھلا کہنے کا رحجان نمایاں نظر آتا ہے۔استعماری حاکموں نے اقتدار کے استحکام کے لیے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کا جو فلسفہ اپنایا، اس دور میں تاریخ نویسی بھی اسی طرزِ فکر کی مظہر رہی۔ ہندو مسلم اختلافات، جن کو مغل عہد کی تاریخ نویسی نے بڑی حد تک ختم کر دیاتھا، ان کو پھر ہوا دی گئی۔ اس طرح انگریزوں نے تاریخ سے تعمیر کے بجائے تخریب کا، دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا، اور مختلف فرقوں میں محبت و دوستی کے بجائے نفرت و دشمنی کے جذبات پیدا کرنے کا کام لیا۔ اس دور کی تاریخ نویسی کے مضر اثرات آج تک باقی ہیں۔ برطانوی مورخین نے، جن میں ایلیٹ کانام بھی آتاہے، ہندووں پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ سفیدفام قوم نے انہیں ظالمانہ، پریشان کن اور ایذارساں غلامی سے، جو ان پر وحشی اور غیر متمدن مسلمانوں نے مسلط کر رکھی تھی، آزاد کرایا۔ قوم پرست مارکسی دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایلیٹ کے پیش لفظ سے کافی اقتباسات لیے ہیں کہ فرقہ پرستانہ تاریخ نویسی کے بیج برطانیہ نے بوئے، اس میں فرقہ پرست مصنفین نے کھاد ڈالی اور دونوں فرقوں کے غریب عوام کی قسمت پر اس کی فصل کاٹی۔
نو آبادیاتی عہد میں تاریخ نویسی کا دوسرانمایاں رجحان غیر جانب داری اور معروضیت objectivity کے نام پر مقامی مورخین کی مذمت کرنے کا تھا، حالانکہ مقامی مورخین کا رویہ مقامی عوامل سے مشروط تھا اور یہی عوامل اصل میں مقامی تاریخ کا تانا بانا بننے والے تھے۔ اس کے برعکس غیر ملکی مورخین نے تاریخ کے عمل کو مخصوص زاویے اور اپنی ہی عینک سے دیکھا اور اپنی تربیت و تجربے کے پس منظر میں تشریحات ڈھونڈیں۔ ان کا مقامی سماجی تہذیبی صورت حال کا فہم ناکافی تھا لہٰذا ان کی تحریریں نتائج کے اعتبار سے خاص رنگ لیے ہوئی تھیں۔
انگریزوں کی، تاریخ کو نو آبادیاتی نظام کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی سے پیدا ہونے والے عدم توازن کو درست کرنے کے لیے کئی مقامی اور مسلمان مورخین نے پہلے معذرت خواہانہ انداز میں اور پھر زیادہ آزاد و مثبت تحریروں سے تاریخ نویسی شروع کی۔ اس عمل کا آغاز سر سید احمد خاں نے ابو الفضل کی ’’آئین اکبری‘‘ کا ایڈیشن ۱۸۵۵ء میں، ضیاء الدین برنی کی ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ ۱۸۶۲ء میں اور ’’تزک جہانگیر ی‘‘ ۶۴۔۱۸۶۳ء میں شائع کر کے کیا۔ پھر ۱۸۷۰ میں خطبات احمدیہ لکھی۔ عزیز احمد کے خیال میں یہ جدید مسلم تاریخ نویسی کا نقطہ آغاز تھا۔ (۱) انگریز عہد میں مسلمان حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا ردعمل مسلمانوں میں پیدا ہوا تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، رائل سوسائٹی آف بنگال، ندوۃ العلماء اعظم گڑھ، اور دائرۃ المعارف حید ر آباد دکن نے تاریخی مواد کے تنقیدی ایڈیشن شائع کر کے انڈو مسلم تاریخ نویسی کا احیا کیا اور نوآبادیاتی عہد کی تاریخ اور تاریخ نویسی کا مسلم نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی طرح ڈالی۔
تاریخ نویسی کے مذکورہ رجحانات کے پس منظر میں ہی تقسیم ہند ممکن ہوئی۔ پاکستان میں تاریخ لکھنے والے تقسیم سے پہلے انڈو مسلم تاریخ نویسی کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے علمبردار تھے، لہٰذا تقسیم ہند کے ساتھ ہی تاریخ نویسی کی پرانی روایات کا ورثہ بھی تقسیم ہوا۔ نمایاں فرق یہ واقع ہوا کہ فرقہ پر ستانہ تاریخ نویسی نے قوم پرستانہ تاریخ نویسی کا روپ دھار لیا۔ تقسیم شدہ عوام کی تاریخ بھی برطانوی حکومت کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کا ثمر ہے جو تاریخ دانوں کے درمیان آج بھی ورثے کی حیثیت سے ثابت اور قائم ہے۔ جدوجہد آزادی کے دوران میں فرقہ پرست مورخ تاریخ کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتے تھے، لیکن ان کا مرکزی خیال یہی ہوتا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں ر ہ سکتے او ر نہ کبھی رہے تھے اور اگر انہیں ایک ساتھ رکھا گیا تو وہ آگ اور پانی کی طرح رہیں گے۔ آگ پانی کو اڑا دیتی ہے یا پھر پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ اورانتخاب مختلف تھا، لیکن ہندو اور مسلم فرقہ پرست ایک ہی زبان بولتے تھے۔ بپن چند نے فرقہ پر ستانہ تاریخ نویسی کے تاریخی متن کو بہترین انداز میں جانچا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد فرقہ پرستوں نے آسانی سے قوم پرست مورخین کا لبادہ اوڑھ لیا کیونکہ قوم پرست مورخ بھی حقائق کے انتخاب میں خاص احتیاط سے امتیاز برت کر مرضی کے نتائج اخذ کرنے کے وہی طریقے اور اصول استعمال کرتے ہیں جو فرقہ پرست مورخین کرتے تھے۔
پاکستان کے ابتدائی مورخین میں تقریباً سبھی اس گزری تحریک اور تاریخ کا حصہ تھے۔ کچھ نے اس تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ وہ تاریخ کے عینی شاہد تھے۔ اس طرح وہ خود مآخذ تاریخ تھے، مگر ساتھ ہی یہ بھی درست ہے کہ ان کے ہاں اس perspective کی کمی تھی جو تاریخ نویسی میں وقت اور فاصلہ فراہم کرتا ہے۔ شروع ہی سے پاکستانی مورخین کی یہ کوشش رہی کہ وہ برٹش انڈیا کی تقسیم کی وضاحت کریں، اس کو سمجھائیں اور اساس پاکستان کا جواز پیش کریں، اس لیے نظریے کو بے پناہ اہمیت دی گئی۔ احمد حسن دانی کے بقول:
Pakistan has been so much overwhelmed with ideological considerations that other aspects of life are left to take care of themselves.
’’پاکستان میں نظریاتی پہلووں کا لحاظ اس قدر غلبہ اختیار کر گیا ہے کہ زندگی کے دوسرے پہلووں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔‘‘
اسی لیے یہاں مورخ ایسی پوزیشن اختیار کرتے ہیں جو ایک مستقل اور منطقی کہانی بیان کرتی ہے ۔
قیام پاکستا ن کے ابتدائی تین سالوں میں تاریخی مواد اخبارات اور میگزینوں کے مضامین کی شکل میں سامنے آیایا پھر تقریری ادب، کمیٹی رپورٹس اور حکومتی اداروں کی شائع کردہ دستاویزات کے ذریعے ظاہر ہوا۔ اس سے سرکاری طور پر تصور پاکستان کی وضاحت ہوتی رہی۔ انگریز عہد میں سول و ملٹری افسران کی علم و تالیف سے انہماک کی جو روا یت شروع ہوئی تھی، اسی رجحان کی تقلید میں پاکستان میں وزارت خزانہ کے ممتاز حسن، آئی بی ڈویژن کے ایس ایم اکرام، ڈپٹی سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اور ڈائریکٹر انفارمیشن مجید ملک متحرک رہے۔ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹر آف فارن پبلسٹی کے ذریعے Pakistan: the struggle of a nation شائع ہوئی۔ سرکاری سرپرستی میں ہی ۱۹۵۰ء میں رچرڈ سائمنڈ کی The making of Pakistan سامنے آئی۔ اسی سال R.E.M Wheelerکی کتاب Five thousand years of Pakistan کو پذیرائی ملی۔ پھر The Cultural Heritage of Pakistan کامنصوبہ بنا جو بعد ازاں ۱۹۵۵ میں شائع ہوا۔ یہ تاریخ نویسی کے حوالے سے سرکاری کاوشیں تھیں۔ ان سالوں میں خالصتاً علمی وتحقیقی تاریخ نویسی کا فقدان نظر آتاہے۔ حکومتی حلقوں کی اشاعتوں کے ساتھ ساتھ قومی و صوبائی سطح پر تاریخ نویسی کے لیے ادارے قائم کیے گئے تاکہ سرکاری نقطہ نظر کے عین مطابق تاریخ لکھوائی جا سکے۔ سندھی ادبی بورڈ ، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، دی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔
ابتدائی دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو ملکی و غیر ملکی مورخین نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو موضوع بنایا۔اس سے سماجی، تہذیبی، معاشی اور دیگر پہلو تشنہ رہ گئے۔ ڈاکٹرا یس اے رحیم نے A Social History of Bengal لکھ کر سماجی تاریخ نویسی کا آغاز کیا، لیکن یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ثقافتی اور روحانی تاریخ کے حوالے سے ایس ایم اکرام نے قابل قدر کام کیا۔ ان کا ذہن دینی تھا اور انہیں تصوف سے دلچسپی بھی تھی، لہٰذا انہوں نے آبِ کوثر، موجِ کوثر، رودِ کوثرکے علاوہ History of Muslim civilization in India اور Muslim India and Birth of Modern Pakistan تحریر کی۔ چونکہ اس دور میں مسلم سوشل ہسٹری میں کوئی اور مورخ نہ تھا لہٰذا یہاں شیخ اکرام اس طرز کی تاریخ نویسی کے بانی قرار پائے۔
پاکستان میں تاریخ نویسی کے حوالے سے ایک اور رجحان صحافیانہ تاریخ نویسی کا ہے۔ سید حسن ریاض کی ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ ایسی تحریروں میں تحقیق سے زیادہ اسلوب پر زور رہا۔ سلسلہ وار تاریخ نویسی کے حوالے سے اس دورمیں تین بڑے کام نظر آتے ہیں۔ ایک A History of the Freedom Movement ، دوسرا آٹھ جلدوں پر مشتمل تاریخِ سندھ اور پھر چار جلدوں پر مشتمل کراچی یونیورسٹی کی شائع کردہ A Short History of Pakistan ایک اچھا آغاز تھا مگر معاونین کے ذریعے مرتب کی جانے والی کتب کی ساری خامیاں ان میں موجود تھیں۔ طرز تحریر میں ہم آہنگی کا فقدان تو تھا ہی، فکری جرات کی بھی کمی تھی۔ یہ ریفرنس ورک ہونا چاہیے تھا مگر مورخین کے ہاں validity حاصل نہیں کر پایا۔ ان میں بار بار دہرائے جانے حوالہ جات کی بوریت بھی نمایاں ہے۔ یہ وقت کے تقاضوں کو بھی پورا نہ کر پائیں۔ تاہم اشتیاق حسین قریشی، عزیز احمد، عبد الحمید، خالدبن سعید، حفیظ ملک، معین الحق وغیرہ کی کتب بھی ساٹھ کی دہائی میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ ان محققین کے ہاں یہ رجحان نمایاں دکھائی دیتاہے کہ وہ گزشتہ جنوبی ایشیا کی ایک ہزار سال کی تاریخ کے بارے میں خیالات پیش کرتے ہیں، وحدت کو تلاش کرتے ہیں اور بڑی نرم گفتاری سے منظر کے تنوع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
شروع میں پاکستان میں تاریخ نویسوں نے عصری تاریخ کی بجائے قدیم دور کی تاریخ کو موضوع بنایا۔ یہ برطانوی روایتِ تاریخ نویسی کا واضح اثر تھا۔ ہر لکھنے والا کا مقصد یہ تھا کہ ماضی کو پرشکوہ ثابت کیا جائے اور پھر اپنے سارے قومی تصورات اور کارناموں کو تاریخ کے ذریعے ثابت کیاجائے اور تاریخ کو اپنی موجودہ سیاسی اور قومی ضرورتوں کے قالب میں میں ڈھال کر اپنے over-emotionalاحساسِ ِ تفاخر کو تسکین فراہم کی جائے۔ اس طرح تاریخ نویسی ہمارے ہاں واقعہ کی ایسی تعبیر نو بن کر رہ گئی جو ان کے نظریات اور تصورات پر صادق آتی ہے۔ گویا مورخین نے تاریخ کو پراپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا۔
یہاں کے مورخین کے لیے ایک مشکل سوال انڈیا میں مسلمانوں کی حکمرانی کی نوعیت سے متعلق نظر آتاہے کہ آیا مسلمانوں نے ایسی اسلامی ریاست قائم کی جو شریعت کے مطابق تھی یا انہوں نے ایسی مسلم حکومتیں قائم کیں جن کے پیچھے سیاسی طورپر باشعور اور مربوط اقلیت تھی جو ایسی اکثریت پر حکمرانی کر رہی تھی جن کا مذہب ان کے مذہب سے مختلف تھا؟ یا وہ محض اقلیتوں کی حکومتیں تھیں جو اپنے مفادات کے لیے حکمرانی کر رہی تھیں، لیکن انڈیا میں مسلم معاشرے کے ساتھ ایک مذہبی الحاق رکھتی تھیں؟ غیر مسلم اکثریت کا مسلم حکمرانی کے خلاف ردعمل کیا رہا؟ ہندوستان کے مسلمان اپنا علیحدہ تشخص رکھتے تھے یا وہ ہندوستانی آبادی کا اٹوٹ انگ تھے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے مورخین کو قدرتی طور پر انڈیا میں مسلمانوں کی موجودگی کی نوعیت کی وضاحت کرنا پڑتی تھی کہ وہ کون تھے؟ کیا انہوں نے ایک مربوط معاشرے کو تشکیل دیا؟ اگر ایسا تھا تو کس چیز نے انہیں مربوط رکھا؟ کیا یہ سیاسی مفادات تھے، معاشی محرکات تھے یا مذہبی وفاداریاں تھیں؟
مسلمان انڈیا میں فاتحین کے طور پر آئے اور مختلف مفادات نے ان کے اندر اس کام کی تحریک پیدا کی کہ وہ شہری مراکز میں ایک حکمران اشرافیہ کے طور پر آباد ہوئے۔ مسلم معاشرے کی قوت کا ایک بڑا ذریعہ ہجرت تھی یا صدیوں پر محیط تبدیلی مذہب کا عمل۔ یہ لوگ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے، مختلف زبانیں بولتے تھے مگر آہستہ آہستہ ایک مضبوط اور واضح شناخت کے رشتے میں بندھ گئے۔ پاکستانی تاریخ دانوں کے ڈین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مسلم معاشرے کو Community of purpose قرار دیتے ہیں جو ایمان ، اقدار اور زندگی کے بارے طرز فکر کے حوالے سے واحد تشخص کی حامل تھی۔ وہ ان کے کارناموں، ترقی اور زوال اور جدوجہد کی تصویر کشی کرتے ہیں جس کی انتہائی منطقی شکل ایک علیحدہ مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔ (۲) اسی دور کے بارے میں لکھتے ہوئے عزیز احمد سلطنت دہلی کو قانونی حوالے سے عالمی سطح پر عباسی خلافت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عباسی خلفا کی authority تسلیم کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے استثنا خلجیوں میں قطب الدین مبارک (۲۰۔۱۳۱۶) ہے جس نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔ ان کے خیال میں نظریاتی طورپر بھی اس عہد میں نظام کو چلانے کے لیے شریعت کا قانون نافذ تھا۔(۳) تاہم جامعہ ملیہ دہلی کے ڈاکٹر ایس عابد حسین جنوبی ایشیا کے سارے بر صغیر کو ایک کلچرل یونٹ قرار دیتے ہیں جس میں اسلام نے لائق تحسین اور مثبت کردار ادا کیا۔ وہ عزیز احمد کے تصور کے برعکس کہتے ہیں کہ سلطنتِ دہلی کو اسلامی ریاست کہنا ایک افسانے سے کم نہیں۔ (۴) جبکہ ڈاکٹر حفیظ ملک یوں رقم طراز ہیں کہ:
One might say that the Ghaznavide Punjab including the north western frontier areas and the Islamized Sindh was the first Pakistan established by Muslims of diverse racial strains in the border provinces of India. (5)
’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزنویوں کے زیر نگیں پنجاب، اور اس کے ساتھ شمال مغربی سرحدی علاقے اور اسلام کے زیر اثر آ جانے والے سندھ پر مشتمل علاقہ پہلا پاکستان تھا جو متنوع نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انڈیا کے سرحدی صوبوں میں قائم کیا۔‘‘
اس مکتبہ فکر کے مورخین کا خیال یہ ہے کہ پاکستان مسلم معاشرے کی تاریخ کا ایک منطقی نتیجہ تھا، چنانچہ ریاست کی ابتدا اور قوم پرستی کی علامات کو گیارھویں صدی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے` لیکن بہت سے پاکستانی تاریخ نویس تاریخ کی اس توضیح و تشریح سے اتفاق نہیں کرتے، مثلاً ایس ایم اکرام کا خیال ہے کہ پاکستانی مورخین نئی ریاست کے آغاز و جواز کے تلاش میں زیادہ ہی قدیم دور میں چلے گئے۔ کچھ نے تو اساس پاکستان کے لیے البیرونی تک کا حوالہ دے دیا، مگر اکرام کے بقول بے شک مسلم علیحدگی کی بنیاد اسی وقت تیار ہو گئی تھی جب اسلام برصغیر میں داخل ہوا اور پھر ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک پل کی فراہمی کی کوششیں بھی ناکام ہو گئیں، تاہم عملی مقاصد کے لیے تصور پاکستان میں آہستہ آہستہ آنے والی شفافیت اور احساس انگریزوں کے عہد میں نمایاں ہوا۔ حفیظ ملک کے برعکس ایس ایم اکرام سندھ میں عربوں کی حکمرانی کو مقامیت سے ایک ساجھے داری قرار دیتے ہیں جس میں مسلم حکمرانوں نے سلطنت کے دفاع اور امن و امان کی طرف توجہ دی جبکہ سول انتظامیہ کا چارج ہندو عمال کے پاس ہی رہا جو علاقہ کے روایتی سول سرونٹ تھے ۔
اسی حوالے سے ایک اور پاکستانی مورخ ڈاکٹر عبدالحمید بیان کرتے ہیں کہ پاکستان، انڈیاپر برطانوی قبضے کے بعد کی قوتوں کی پیداوار ہے۔ (۶) کے کے عزیز کا خیال ہے کہ مسلم قومیت کا تصور اور علیحدہ قومیت کا تصور ۱۸۵۷ء کے بعد کے مظاہر ہیں جن کا آغاز لوگوں کی چھوٹی سی تعداد سے ہوا۔ آہستہ آہستہ مسلم ثقافت اور زندگی کے مختلف پہلو برصغیر میں مل گئے اور مسلم انڈیا کا تصور قائم ہوا، جبکہ وہ پاکستان کی ناگزیریت کو وہ حکومت خود اختیاری کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ مسلم قومیت کے تصور کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مسلم نیشنلزم کا تصور علاقائی سے زیادہ معروضی، اور سیاسی سے زیادہ نفسیاتی تھا جبکہ ہندو نیشنلزم ثقافتی سے زیادہ علاقائی اور مذہبی سے زیادہ تاریخی تھا۔ (۷) اسی طرح سیاسی تجزیہ نگار خالد بن سعید تاریخ کے بہت سے ’’اگر مگر‘‘ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ پاکستان اولین طور پر مسلم اضطراب کی پیداوار تھا جس کا مقصد انڈین وفاق کے ڈھانچے میں رہ کر ایک ثقافتی و سیاسی خود مختاری قائم کرنا تھا۔ بعد ازاں پاکستان کا قیام ان کے اس جرات مندانہ دعوے کی پیداوار تھا کہ مسلمان چونکہ ایک علیحدہ قوم ہیں، اس لیے ان کی ایک خود مختار ریاست ہونی چاہیے۔ وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ہندوؤں کی مخصوص مسلم دشمنی کا نتیجہ تھا۔ ہندوؤں کی مسلم دشمنی ان کے خیال میں جزوی طور پر Muslim Ethnocentricity اور کچھ حد تک ہندوؤں کی مذہبی رسومات کی پیداوار تھی۔ وہ ۱۸۵۷ سے پہلے کی تاریخ میں جائے بغیر بھی ان مورخین کے قریب پہنچ جاتے ہیں جو پاکستان کے قیام کی نشانیاں ہندومسلم اختلافات کی صدیوں پرانی تاریخ میں دیکھتے ہیں، لیکن خالد بن سعید کو اپنی مذکورہ بات کا بھی یقین نہیں ہے کیونکہ وہ مذکورہ بیان کو perhaps یعنی شاید کے لفظ سے مشروط کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے ۱۹۴۶ کے کابینہ مشن پلان کو قبول کیا جس میں پاکستان کی اسکیم کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ (۸)
پاکستانی مورخین میں سے کم از کم ایک مورخ ایسا بھی تھا جس نے ہندو مسلم عداوت کا ذمہ دار برطانوی تاریخ نویسوں کو ٹھہرایا۔ ۱۹۵۵ کی پاکستان ہسٹری کانفرنس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم نے کہا کہ ’’بلاشبہ تاریخ ایک ایسا ہتھیار ہے جو قوموں کی سوچ کو خراب کرنے اور تبدیل کرنے کے لیے کثرت سے استعمال کیا جاتاہے۔ تاریخ ہند کو ایک خاص نقطہ نظر سے لکھ کر انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کے اعمال کو کچھ اس طرح پیش کیا کہ ہمیں اپنے ماضی پر شرمندگی ہونے لگی۔ ان کی لکھی تاریخ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں، جو کہ صدیوں تک مسلم بادشاہوں کی حکمرانی میں گرم جوشی سے اکٹھے رہ رہے تھے، ان میں نفرت کے اتنے شدید احساسات پیدا کردیے کہ مختصر سے عرصے میں ہی انہیں دشمنوں میں بدل دیا گیا۔‘‘ (۹)
پاکستان کے ابتدائی مورخین تاریخ نویسی کے حوالے سے فکری جمود کا شکار رہے۔ مختلف مورخین نے مختلف مواد اور دلائل سے نتیجہ ایک جیسا ہی اخذ کیا، مثلاً عزیز احمد، اشتیاق حسین قریشی، خالد بن سعید اور حفیظ ملک نے ساٹھ کی دہائی کے شروع میں باہمی مشاورت کے بغیر تحقیقی کام کیا۔ انفرادی طورپر مختلف تحقیق کے باوجود وہ ایک ہی رجحان کے علمبردار رہے اور انہوں نے مسلم قوم پرستی اور قیام پاکستان کے حوالے سے اتفاق رائے قائم کیا۔ اسی طرح اکثر مصنفین کے نتائج ہی نہیں، دلائل بھی ایک جیسے تھے۔ بیشتر وہ کتابیں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصہ کا احاطہ کرتی ہیں، ان میں اکثر پاکستانی محققین جو پہلے سے متعین شدہ مقدر کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، وہ تمام ڈاکٹر امبید کر کی کتاب سے ایک ہی مخصوص پیرا گراف رقم کرتے ہیں کہ یہ جدید ہندوستانی تاریخ کی عجیب حقیقت ہے کہ مسلمان پراسرار احساسات کے اسیر ہو کر ہندو سیاسی لہر میں ضم ہونے کے بجائے ایک متوازی راستے پر چلے ۔ یہ پر اسرار اعزاز اور خفیہ ہاتھ کوئی اور نہیں بلکہ ان کا پہلے سے متعین شدہ مقدر تھا جس کی علامتی شکل پاکستان تھی۔ (۱۰) اس عہد کا تذکرہ کرنے والی کتب میں شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، سید احمد شہیدکا خصوصی اور توصیفی ذکر ہوتاہے۔ اس کے فوری بعد کی تاریخ سرسید احمد خان کے گرد گھومتی ہے جنہیں ڈاکٹر محمود حسینThe early architect of Pakistanقرار دیتے ہیں (۱۱) جبکہ چوہدری خلیق الزماں انہیں مسلم نیشنل ازم کا بانی کہتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ظفر الاسلام مختلف رائے دیتے ہیں کہ اگر علیحدگی پسندی سے مراد مسلمانوں کا حق خود ارادیت تھا یا اس کے معنی مسلم قوم کا خود کو ایک خود مختار ریاست کی صورت میں منظم کرنے کا بالواسطہ حق تھا تو ایسا کوئی تصور سر سید کے ذہن میں نہیں تھا۔ اس کے برعکس اگر علیحدگی پسندی سے مراد مذہب، ثقافت اور بنیادی اختلافات ہیں تو ان معنوں میں سر سید علیحدگی پسندی کے چیمپین تھے لیکن ان معنوں میں کوئی بھی مسلمان،قطع نظر اس سے کہ اس کا تعلق کس طبقے سے تھا، لازمی طور پر علیحدگی پسند تھا۔ (۱۲)
اس دور کے تاریخ نویسوں نے محمد علی جناح پر لکھتے ہوئے ان کی زندگی اور کارناموں کا معروضی تجزیہ کرنے کے بجائے عقیدت کے اظہار میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کی۔ لہٰذا محمد علی جناح کے حوالے سے کئی سوال تشنہ رہ گئے۔ مثلاً جناح نے کب پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیا؟ ایس ایم اکرام کا خیال ہے کہ ۱۹۴۶ کے وسط میں کانگرس کے کابینہ مشن کے حوالے سے “bad faith” کے بعد انہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا۔ (۱۳) مگر آغا خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ As late as 1946 Jinnah had no clear idea of his goal. یعنی ۱۹۴۶ء تک بھی جناح کا ذہن اپنے ہدف کے حوالے سے واضح نہیں تھا۔ ڈاکٹر وحید الزماں کا خیال ہے کہ شروع میں علامہ اقبال، مولانا محمد علی، ابوالکلام آزاد اور محمد علی جناح سب قوم پرست تھے۔ بعد میں کانگرسی رویے کی وجہ سے آزاد کے علاوہ تینوں راہنماؤں نے رخ بدل لیا۔ بہر حال اس حوالے سے تاریخ تا حال ایک مستند تحقیق کی طلب گار ہے۔
پاکستانی محققین جب ریاست پاکستان کی اساس کی تلاش میں دور تک نکلے تو اس نے تاریخ پاکستان کی جہتوں کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے۔ مثلاً کیا پاکستانی تاریخ، ہندوستانی تاریخ سے الگ ہے یا اس کے ساتھ منسلک؟ یہ تاریخ کتنی پرانی ہے اور اس کا آغاز کب ہوا؟ ان علاقوں کی تاریخ کا کیا کردار ہے جو پاکستان اور پاکستان کی قومی تاریخ کو تشکیل دیتے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ صرف مقامی اہمیت رکھتی ہے یا قومی؟ اس کا ایک جواب اشتیاق حسین قریشی نے یوں دیا کہ کچھ ادوار کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کو آزادانہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے مگر دیگر ادوار میں یہ علاقائی تاریخ کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ (۱۵) قریشی کے جواب نے تاریخ کے طلبہ کی تشفی کے بجائے انہیں مزید الجھا دیا۔ در حقیقت انڈومسلم تاریخ نویسی کی روایت کے علمبردار مورخین نے ساری توانائیاں سرکاری موقف کو سچ کر دکھانے میں صرف کر دیں اور اس سوال کی طرف توجہ نہ دی کہ مختلف سماجی و تہذیبی و لسانی اکائیوں کو ایک مشترکہ قومیت میں کیسے ضم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے کیتھ کیلارڈ اور wyne wilcox جیسے غیر ملکی مصنفین کے کام اہمیت کے حامل ہیں۔
ابتدائی عشروں میں تاریخ نویسی کا ایک اور رجحان نمایاں رہا کہ کچھ مخصوص افراد کی بہت زیادہ تعریف و توصیف کی جائے اور کچھ luminaries کی حیثیت کم کی جائے ۔ سوانح نگاری میں ’’ہیرو ورشپ‘‘ کا تڑکہ لگایا گیا۔ اس سے تاریخ کی شکل بگڑی اور وہ غیر انسانی ہوگئی۔ جدوجہد آزادی میں کردار ادا کرنے والوں کو یہاں یا تو مداح ملے یا عیب گو، مگر ان کے کردار کی تاریخ لکھنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے پر جوش مبالغہ آرائی حاوی رہی۔ ایسی تاریخ نویسی سے نہ تو کوئی تحریک پیدا ہوئی نہ ہی تبدیلی کے عمل کو جاننے کے شوق کی تسکین ہو سکی۔ ایسی تاریخ نویسی میں توجہ معمولی کردار نگاری پر مرکوز رہی اور درپیش حقیقی مسائل نظر انداز ہو گئے۔ مورخ کی حیثیت ایک راہنما کی سی ہوتی ہے۔ قاری اس سے محض قصے سننے کا خواہش مند نہیں ہوتا۔ چنانچہ مورخ کو محض و قائع نگار نہیں ہونا چاہیے۔ قصہ گوئی اور داستان طرازی کے عنصر نے تاریخ نویسی کو منفی طور پر متاثر کیا۔ حقیقی تاریخ محنت، عرق ریزی اور تدبر کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخی بحث مباحثہ میں اس بات کا دھیان رہنا چاہیے کہ کوئی بھی آدمی، چاہے وہ جتنا ہی عظیم اور بزرگ کیوں نہ ہو، دیوتا نہیں بن سکتا۔ اس کی انسانی کمزوریاں اس کے ساتھ لگی رہیں گی اور وہ غلطیاں کرتا رہے گا۔ اگر اکبر اور اورنگزیب نے غلطیاں کی ہیں تو گاندھی اور جواہر لال نہرو، اور مولانا آزاد اور مولانا محمد علی نے بھی کی ہیں۔ اگر سوامی دیانند سرسوتی نے غلطیاں کی ہیں تو سرسید نے بھی کی ہیں اور جناح نے بھی کی ہوں گی۔ ہمیں ان کی اچھی باتوں کو یاد رکھنا ہے، لیکن ان کی غلطیوں کی کوئی تاویل کیے بغیر، غلطی مان کر نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اپنے راہنماؤں کی غلطیوں کا خمیازہ ہم پہلے ہی بہت بھگت چکے ہیں۔ اب ان سے سبق لے کر سارے مسائل کو نئے انداز اور نئے حوصلے کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ مگر افسوس! ہمارا مورخ لکیر کا فقیر رہا۔ ہماری تاریخ نویسی تاریخ کے فہم کے بجائے تاریخ کی من پسند تعبیر کی کوشش نظر آتی ہے۔سرکاری سطح پر درباری مورخین یا سرکاری اداروں کے ملازمین نے ریاستی و نظریاتی تاریخ کے ٹاسک کو پورا کرنا اپنا فریضہ سمجھا۔
ڈاکٹرمحمود حسین، معین الحق، ریاض الاسلام، احمد حسن دانی، شریف المجاہد، رفیق افضل، ڈاکٹر صفدر محمود سب روایتی مکتبہ فکر کے پیروکار رہے۔ عائشہ جلال نے نئے راستے کی تلاش میں پرانی فکر کو ترک کیا مگر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے مقالے کے نگران Dr. Anil Seal کے روایتی انداز میں پھنس کر رہ گئیں۔ ان کی تحقیق بھی کوئی انقلابی تبدیلی ثابت نہ ہوئی۔ سرکاری سر پرستی اورریاستی جبر، دونوں ہی سچی تاریخ لکھنے کی راہ میں حائل رہے لہٰذا ہمارے ہاں آزاد اور غیر جانبدار تاریخ نویسی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کسی نے بھی ریاستی نظریات کوچیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مکھی پر مکھی مارنے کو تاریخ نویسی قرار دے دیا گیا۔ جو تاریخ لکھ رہے تھے، وہ خود تحریک پاکستان سے وابستہ رہے یا سرکاری انتظامیہ کا حصہ تھے لہٰذا تحقیق میں جانبداری نمایاں رہی۔ ایک جانبدار شخص کی لکھی ہوئی تاریخ کو تاریخ کہنا ہی زیادتی ہے، بالخصوص جب تاریخ نویسی میں مذہبی تقاضے در آئیں تو مسئلہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے۔ مذہب کو مقدس جان کر لکھنے والا جذبات کی عینک لگا کر حقائق کو توڑتا مروڑتا ہے، چنانچہ جو مورخ ملک، قوم، عقیدے یا طبقے کی جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ مواد کے انتخاب اورالفاظ کے استعمال میں غیر محسوس اونچ نیچ کے ذریعے ڈھکے چھپے انداز میں اپنی پسندیا نا پسند کا اظہار کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں تاریخ نویسی بطور فن کے مسلسل اور باقاعدہ بحران کا شکار رہی ہے۔ یہاں تاریخ نویسی کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ثابت ہوا کہ لکھنے والوں نے لکھتے وقت حکومت یا عوام کو خوش کرنے کو اولیت دی۔ تاریخ نویسی میں یہاںCommand performance یا Commanded conclusionsکی مشکل بھی پیش رہی۔ تاہم کلی طور پر نہ سہی، کئی مصنفین نے جزوی طور پر پاکستان کی جدید تاریخ لکھناشروع کی۔ اس حوالے سے ایک معتبر نام حمزہ علوی کا ہے۔ حسن گردیزی، فیروز احمد، اعجاز احمد، محمد وسیم، اسکندر حیات اور ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا۔ ان محققین نے اپنے اپنے حصے کا چراغ جلایا ہے، تاہم پوری تاریخ یا پورے دور کو تا حال جدیدانداز سے نہیں دیکھا گیا۔ باوجود اس کے کہ کچھ نصابی تاریخ نویس دھڑا دھڑ لکھ رہے ہیں، مثلاً کے علی،ایس ایم شاہد، اصغر علی جعفری، فاروق ملک وغیرہ، مگر کچھ لوگ لکھنے کے لیے پڑھتے ہیں، یعنی پڑھتے کم ہیں اور لکھتے زیادہ ہیں۔ یوں کہہ لیں نگلتے کم ہیں اور اگلتے زیادہ ہیں۔ ہماری تاریخ کئی دہائیوں سے ایسے ہی بے رحم ہاتھوں میں سسکیاں لے رہی ہے۔ در حقیقت ہمارے یہاں تاریخ نویسی کا عمل معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے اطمینان بخش نہیں رہا۔ ایسی صورت حال میں تاریخ نویسی کا کوئی نمائندہ مثالی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کی صورت حال دیکھ کر ہملٹن گِب کی ۱۹۱۴ء میں کہی ہوئی بات یاد آتی ہے جو انہوں نے عربوں کی تاریخ نویسی کے بارے میں کہی تھی کہ:
I have not seen any book written in Arabia for Arabs themselves which has clearly analysed what Arab culture means to the Arabs.
’’مجھے عرب دنیا میں خود عربوں کے لیے لکھی گئی ایسی کوئی کتاب دکھائی نہیں دی جو واضح طور پر اس بات کا تجزیہ کرتی ہو کہ عربوں کے لیے عرب ثقافت کیا معنی رکھتی ہے۔‘‘
یہ ریمارکس ۲۰۰۷ء میں پاکستان کی تاریخ نویسی پر بھی صادق آتے ہیں، اس لیے ہمیں سچی تاریخ لکھنے کی جلد از جلد کوشش کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر Bernard Lewis نے ۱۹۶۳ء میں آل پاکستان ہسٹری کانفرنس کو پیغام میں کہا تھا کہ:
We live in a time when great energies are devoted to the falsification of history, to flatter, to deceive, or to serve a variety of sectional purposes. No good can come of such distortions even when they are inspired by unselfish motives. Men who are unwilling to confront the past will be unable to understand the present, and unfit to face the future. A great responsibility, therefore, falls on historians, whose moral and professional duty is to seek out the truth concerning the past and to to explain it as they see it. (16)
’’ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جب تاریخ کو جھٹلانے، خوشامد، دھوکہ دہی یا مختلف قسم کے گروہی مقاصد کے فروغ کے لیے بے انتہا توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ اس طرح تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں سے، چاہے وہ کتنی ہی بے غرضی سے کیوں نہ کی جائیں، کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، وہ نہ تو حال کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ مستقبل ہی کا سامنا کرنے کے اہل ہیں۔ چنانچہ تاریخ نویسوں پرایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جن کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ماضی کے بارے میں سچ کو دریافت کریں اور جس طرح اس کو سمجھیں، اس کو بیان کریں۔‘‘
دراصل ایک قوم ویسی ہی تاریخ لکھتی ہے جس کی وہ اہل ہوتی یا خواہش کرتی ہے۔ اپنے احساسِ تفاخر کے لیے ماضی کی غلط تعبیر بد قسمتی کے سو ا کچھ نہیں کیونکہ اگر تاریخ مثالوں کے ذریعے سے سکھاتی ہے تو پھر لازم ہے کہ تاریخ پوری دیانت داری سے کسی قوم کی کامیابیوں اور ناکامیوں، اچھائیوں اور برائیوں، اور اس کے ہیروز اور باغیوں کا ذکر کرے۔ سچی تاریخ قوم کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک مفکر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر کوئی نیم حکیم غلط نسخہ تجویز کر دے تو مریض کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ ایک فرد کا نقصان ہوتاہے۔ لیکن اگر تاریخ کی کتب میں ایسا مواد شامل کردیا جائے جو نہ صرف ذہنوں کو بگاڑے بلکہ ’ہم چو مادیگرے نیست‘ کا احساس پیدا کرے، اپنے سوا دوسروں سے نفرت کی تعلیم دے، عدم رواداری سکھائے، انتقامی جذبات بھڑکائے، نسلی غرور میں مبتلا کر دے تو ایسی تاریخ عظیم تباہی لاتی ہے۔ یہ پوری نسل کی تباہی ہوتی ہے۔ امن و امان اورسماجی زندگی کا سکون درہم برہم ہو کر رہ جاتاہے۔ سموئیل بٹلر نے کہا تھا کہ خدا ماضی کو نہیں بدل سکتا، مورخ بدل سکتے ہیں۔
References
1. Aziz Ahmed, Islamic Modernism in India and Pakistan, (1857-1964) (karachi:1967) p.39
2. I. H. Qureshi, The Muslim Community of the Indo-Pakistan, (Hague:1962) p.304
3. Aziz Ahmed, Studies in Islamic Culture in the Indian Environment, (Oxford:1964) p.9
4. S. Abid Hussain, The National Culture of India, (Newyark:1961) p.208.
5. Hafeez Malik, Moslem Nationalism in India and Pakistan, (washington:1963) p.12
6. Abdul Hamid, Muslim separatism in India: A brief survey, (Lahore:1967) p.ix
7. K. K. Aziz, The making of Pakistan, (London:1967) p.209.
8. K. B. Sayeed, Pakistan, the formative phase 1857-1948 (London:1968) p.8.
9. The proceedings of the Pakistan History conference (Karachi:n.d) p.59.
10. B.R. Ambedkar, Pakistan or the partition of Inida, (Bombay:1946) p.333-4.
11. Mahmud Hussain (Ed) History of freedom movement, vol.1, p.10.
12. Zafar ul Islam, Proceeding of Pakistan History Conference, (Karachi:1956) p.171-72
13. S. M. Ikram, Modern Muslim India and birth of Pakistan, (Lahore:1965) p.2.
14. Agha Khan, Memoris, (London:1954) p.296.
15. I. H. Q. op.cit, (preface)
16. Ahmed Hasan Dani (Ed), Historical writings on Pakistan, vol.II (Islamabad:1973) p.4
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...