نیچے موجود نقشہ یہ بتاتا ہے کہ آدھے سے زیادہ پاکستان وقت سیلاب کی تباہییوں میں گِھرا ہوا ہے۔ سرخ علاقے وہ ہیں جہاں سیلاب سے بے حد نقصان ہوا ہے۔ یہ علاقے زیادہ تر جنوبی پاکستان میں ہیں جن میں سندھ، بلوچستان اور سرائیکی بلٹ شامل ہے۔ اسکے علاوہ خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں بھی سیلاب کی سی صورتحال ہے۔گویا آدھے سے زیادہ ملک اس وقت پانی میب ڈوبا ہوا ہے۔
عالمی اداروں اور حکومتی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے کُل 160 میں سے 116 اضلاع اس سیلاب سے متاثر ہو چکےہیں جن میں سے 66 کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ 1 ہزار کے قریب اموات ہو چکی ہیں جبکہ 13 سو لوگ زخمی ہیں۔ اعداد و شمار دیکھیں تو ہولناک ہیں۔ 2 لاکھ 18 ہزار گھر مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ 4 لاکھ 42 ہزار گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ 20 لاکھ ایکڑ پر محیط فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور تقریباً 8 لاکھ مویشی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی بارشیں پچھلے تیس سال کی سالانہ اوسط بارشوں سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہوئی ہے۔ حکومت نے بینظری انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب زدگان کے لیے 35 ارب روپے کا پیکیج مختص کیا ہے۔ اسکے علاوہ دیگر بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز بھی مالی مدد فراہم کرنے پہنچ گئی ہیں۔
انسانی بحران مزید زور پکڑ رہا ہے اور آنے والے چند دنوں صورتحال مزید ابتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بارشوں اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے مناسب سہولیات موجود نہیں۔
سیلاب سے انفراسٹرکچر کی تباہی مزید بحران کو جنم دے رہی ہیں۔3 ہزار کلومیٹر تک سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، 145 پل تباہ ہو چکے ہیں جن سے امداد کے کام متاثر ہو رہے ہیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقلی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے سے پورا پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ اشیا، خوراک اور ادوایات کی ترسیل، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات میں شدید خلل پیدا ہو رہا ہے۔ 17 ہزار سے زائد سکول تباہ ہو چکے ہیں۔ ساڑھے پانچ ہزار سکول کی عمارتوں کو عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ ہسپتالوں سے مریضوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
مسلسل بارشوں سے پہاڑوں علاقوں میں لینڈسلائڈنگ ہو رہی ہے۔ پانی اور مٹی کے ریلوں کے باعث ڈیمز وقت سے پہلے بھر رہے ہیں۔26 اگست تک کی رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم اپنی بلند ترین سطح 1550 فٹ کے لیول تک پہنچ چکا ہے جبکہ میانوالی کے قریب چشمہ بیراج میں تقریباً 7 فٹ کے لیول تک مزید پانی جمع کرنے کی گنجائش رہ گئی ہے۔ موسمیات کے ادارے نے 26 اگست کو نوشہرہ کے قریب دریائے کابل میں سیلاب کی وارننگ جاری کی ہے۔اسکے علاوہ ادارے نے ایک اور وارننگ میں کہا ہے کہ 27 اور 28 اگست کو چشمہ اور کالاباغ میں بھی دریائے سندھ میں طغیانی کا شدید خدشہ ہے جس سے ارگرد کی آبادیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیاں لوگوں کی مدد کے لیے اپنے اپنے صوبوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ حکومتی ادارے اور فوج امدادی کاروائیاں کر رہی ہے۔ مگر یہ آفت بہت بڑی ہے اور یہ وقت اس بحث کا نہیں کہ کسی کیا کرنا ہے اور کون کیا نہیں کر رہا۔ اس وقت ضرورت پوری قوم کو اکٹھا ہونے کی ہے۔ عوام کی مدد عوام ہی کر سکتی ہے۔ ہمیں مل جل کر اُنکا سہارا بننا کو گا جو آج بے سہارا ہیں۔ اس لئے برائے مہربانی سیلاب زدگان کی مدد کیجئے کہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ آپکی تھوڑی سی امداد کسی کی جان بچا سکتی ہے، کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتی ہے اور کسی غریب کی عزتِ نفس پامال ہونے سے بچا سکتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...