سائنس کی تعلیم کاشعور ملک کی ترقی کے لئے لازم و ملزوم ہے. ہم جہاں مملکت خداداد ارضِ پاکستان میں سائنسی تعلیم کا معیار دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے یہاں تو سب ہی حدیں پار ہیں ایک صاحب جناب لاہور مشہور و معروف جامعہ پنجاب میں نینو ٹیکنالوجی میں ایم فل کرکے معاہدے پر ایک اور جامعہ (یو نیورسٹی) میں ایم سی لیول پر درس وتدریس کرتے ہوئے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ سیٹلائٹس خلا سے کششِ ثقل کے زیرِ اثر زمین پر کیوں نہیں آگر تے؟
حیف صد حیف اور گِریہ اس بات پر ایسے اساتذہ ایم ایس سی لیول پر تعلیم دے رہے ہیں جنھیں سادہ اور بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب دینے پر عبور حاصل نہیں.
اسی سوال پر جب انہی کی ایک طالبہ جماعت کے طالب علم کو جواب دیتے ہوئے بتلاتی ہیں کہ سیٹلائٹس خلاء میں چلے جاتے ہیں اور خلاء میں کششِ ثقل نہیں ہوتی. تو حضور پوری جماعت بشمول استادِ محترم خامشی سے سرشار ہیں. یہاں یہ ظلم ہے کہ انتہائی سطحی قسم کاتصور جو طبیعیات کے ابجد میں پڑھایا جاتا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے کششِ ثقل کے زیرِ اثر. اس کا ذرا برابر فہم بھی اس کامطلق رد پیش کرتا ہے مگر کیا کہنے ان طبع شناش طبعیات دان اساتذہ کے.
اور تو چھوڑیے ایف ایس سی کالج لیول پر پڑھا نے والے استاد صاحب کے طبیعیات کے ایک موضوع بناوٹی کششِ ثقل کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ اس کی ضرورت ہمیں تب پیش آتی ہے جب راکٹ یا ائیر کرافٹ خلا میں پہنچتا ہے تو اس سے ہم بناوٹی کششِ ثقل دیتے ہیں چونکہ ادھر کششِ ثقل نہیں ہوتی. یہ حال اگر راولپنڈی کے مشہور و معروف تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل بطور مستقل تعلیم دینے والے استادِ محترم کی تعلیم کا ہوگا تو پھر ہم پاکستان کے نظامِ تعلیم پر گریہ و آہ و زاری کے سوا کیا کریں. یہیں نہیں رکتے آگے چلتے ہوئے جب ایک طبیعیات کے پروفیسر کو کیپلر کے قوانین کی وضاحت میں یہ بتاتے پاتے ہیں کہ سورج ساکن ہے. اسی کے رد میں جب پوچھا جاتا ہے کہ جدید طبعیات میں تو ہم پڑھتے ہیں کہ سورج محوِ حرکت ہے تو جناب کا جواب خامشی کے سوا کچھ نہیں ہے.
ایسے ہی خیبر پختون خواہ کی گیارہویں جماعت کی تدریسی کتاب میں بناوٹی کششِ ثقل کے احوال میں کچھ یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے اور خلا میں کششِ ثقل کے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں .
کیا اس طرز کی غیر معیاری تعلیم سے ہم سائنسی علوم سے معارفت کو ختم کرنا چاہتے ہیں. یہ تو جناب وہ مملکتِ خداداد ہے جس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کا منصب لوگوں کو بطور سزا دیا جاتا ہے.
اساتذہ کا کردار تعلیم یافتہ افراد کے معاشرتی رویے کی عکاسی کرتا ہے. جہاں تک سائنسی علوم کی بات آتی ہے تو ہمارے ہاں بحیثیت مجموعی فقدان نظر آتا ہے. بہت سے اساتذہ کا سائنسی علم ضعیف پایا ہے.
جب ابتدائی تعلیم میں تھے ہم ہمارے ایک جنرل سائنس کے استاد جو ایم اے تاریخ تھے وہ ہمیں تدریسی کتب بند کر کے پڑھاتے ہوئے کہتے تھے کہ بیکٹیریا کے سیل میں نیوکلئیس ہوتا ہے حالانکہ درسی کتاب اس کی خود نفی کرتی ہے. پھر آتی ہے غالباً ساتویں جماعت کی سائینسی کتاب جس میں اہم معلومات میں درج تھا کہ رات کے وقت درخت کے نیچے سونا نقصان دہ ہے یہ بھی غنیمت ہے کہ جن بھوت ذکر نہیں تھا بہر حال مجھے آج بھی یقین ہے اِس مادرِ علمی میں فی الوقت جنرل سائنس پڑھانے والے اساتذہ کا معیار یہی ہے کہ اب بھی وہ طلباء کو یہ معلومات درست بتاتے ہونگے. اُسی مادرِ علمی کے استاذ محترم کے بقول سائنس غلط ہے کیونکہ چھٹی کی سائنس کی کتاب میں نظام شمسی کے مضمون میں درج ہے کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین گردش کر تی ہے یہ فلاں مذہبی حوالے سے غلط ہے اور فلاں مذہبی امر کے مطابق جناب آجکل 25 سالہ سروس کے کسی دوسری مادرِ علمی میں سائنس کے متعلق اسی سطحی معلومات کے ساتھ اس نظریے کا پرچار دَھڑلے سے کررہے ہیں. اُسی مادرِ علمی میں ایک بچہ جو کم عمری میں کسی مذہبی تنظیم سے متاثر تھا نے باقی مضامین کی تیاری کرنے پر زور دیتا تھا سوائے سائنس کے، کیونکہ جناب کے مطابق نیل آرم سٹرانگ کی بجائے چاند پر پہلا قدم رکھنے والی ایک مذہبی شخصیت ہیں. جناب کی اِس سوچ کے اساتذہ مداح تھے.
جیسے تیسے کالج لیول پر پہنچے ہمارے ایک طبعیات کے پروفیسر تھے جو سکول لیول پر پڑھا نے والے اساتذہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ اُنہوں نے آپ کو اوہم کا قانون غلط پڑھایا ہے
V=iR
میں R مستقل کے طور پر اس مساوات کو بیلنس نہیں کرتا بلکہ یہ رزسٹنس ہے. بہرکیف کوئی خاصی غلطی نہیں تھی البتہ جناب آرٹیفیشیل گریوٹی پڑھاتے وقت کہ رہے ہوتے جب سائنسدان خلاء میں پہنچتے ہیں تو کششِ ثقل نہ ہونے کی وجہ سے بناوٹی کششِ ثقل پیدا کرتے ہیں جناب بہت اِتراتے تھے کہ پبلک سروس کمیشن پاس کرکے ڈائریکٹ 17 گریڈ کے ٹیچر ہیں اور تو اور راولپنڈی کے ایڈن گارڈن کالج اور جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہونے پر فخر کرتے تھے.لکھنے کو بہت کچھ گورنمنٹ کالج میں کس طرح ٹیچرز اپنے کام، اپنی نوکری سے دغا کرتے تھے. مگر بات صرف سائنس تک محدود رکھنی ہے.
پھر یونیورسٹی لیول پر پہنچے تو حال ہی میں ایک پروفیسر (contracted) جو جامعہ پنجاب سے ایم فل کر چکے ہیں، کے سامنے سیٹلائٹ کے خلاء میں میں رہنے کے متعلق سوال پر جواب میں جب ایک طالبہ نے کہا کہ خلاء میں کششِ ثقل نہیں ہوتی اس لیے سیٹلائٹ زمین کی طرف نہیں آتے. تو پروفیسر کے مطابق یہ معلومات درست تھیں اور جناب کو اس سوال کے جواب سے بہت کچھ سیکھنے کو کو بھی مل چکا تھا.
ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے مکمل طور پر سائنس میں تعلیمی قابلیت کے فقدان کا اندازہ ہوتا ہے.