اکثر یہ سوال پوچھا جاتا کہ آپ پاکستان میں سائنس اور تعلیم کے حوالے سے مسائل بتاتے ہیں تاہم انکا حل نہیں بتاتے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ محض مسائل بتا دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ لیکن یہاں دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ مسائل کے حل کا پہلا مرحلہ مسائل کی شناخت سے شروع ہوتا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ ان وجوہات کی شناخت جنکے باعث مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں کام محنت طلب ہیں اور مغربی ممالک میں انکے لیے باقاعدہ معاشی اور معاشرتی سائنسدانوں اور ایکسپرٹس پر مبنی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو مسائل کی جڑ تک پہنچتی ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی کنسلٹنٹ فرمز اس حوالے سے حکومتوں کی مدد کرتی ہیں۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے سنجیدگی دکھائی جاتی یے۔ وجہ یہ کہ ان ممالک کی سول سوسائٹیاں حکومت کو بارہا مسائل کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں۔ یہ لوگ میڈیا اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع کے ذریعے عوام میں مسائل کے متعلق آگاہی پیدا کرتے ہیں جسکے باعث عوامی نمائندے عوامی دباؤ کے پیشِ نظر آنے والے انتخابات میں اپنے سیاسی ایجنڈے میں ان مسائل کو شامل کرتے ہیں۔ یہ مہذب دنیا کا وطیرہ ہے۔
مسائل کی شناخت اور انکی وجوہات جاننے کے مرحلے کے بعد تیسرا مرحلہ ان ایکسپرٹس کی طرف سے حکومت کو پالیسیوں کے حوالے سے مشورے دیے جاتے ہیں۔ ڈیٹا کی مدد سے ان مشوروں میں وزن ڈالا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر اپنے اپنے شعبوں کے ایکسپرٹس اپنی مدد آپ اور اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کی بدولت جو کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔ تاہم بڑی سطح پر پالیسیوں میں تبدیلی اور عملدرآمد ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ اسکے لیے حکومتی وسائل اور حکومتی مشینری درکار ہوتی ہے۔
سائنس کے شعبے میں ترقی کے حوالے سے پاکستان میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پہلا اور اہم کام متوازی تعلیمی نظام کو ختم کر کے ایک نصاب مگر مختلف مقامی زبانوں میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اور حکومتی ایجنڈوں سے ہٹ کر بنایا جائے۔ اس حوالے سے ایسی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جن میں ماہرین تعلیم موجود ہوں جو پی ایچ ڈی لیول کے لوگ ہوں اور جنکی نظر دنیا کے مختلف سکولنگ سسٹمز پر ہو۔ ایسے ہی ان ٹیموں میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے سکولوں کے اساتذہ اور والدین سے بھی سروسیز کے ذریعے انکا فیڈبیک لیا جائے تاکہ تعلیمی نظام جدید تاہم ایسا ہو جو مقامی بچوں کو سمجھنے اور سیکھنے میں آسانی ہو۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اس حوالے سے حکومت مختلف بین الاقوامی کنسلٹنٹ کمپنیوں کی خدمات لے سکتی ہے۔
ان سب کاموں کےلیے حکومت کو تعلیمی بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہو گی۔
ایسے ہی یونیورسٹی لیول پر مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں کے ساتھ اشتراک کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے طلبہ کو باہر ایک یا دو سمسٹر کسی دوسرے ملک کی یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع دیا جائے جیسے یورپ میں ایراسماس کے پروگرام ہوتے ہیں۔ ان سے طلبہ میں دنیا میں تعلیم اور تحقیق اور باہر کی دنیا کے لیے ایک کھڑکی کھلے گی۔ حکومت ایسے کورسز متعین کرے جس میں پاکستان اگلے دس سے بیس سال میں ترقی کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے یونیورسٹیاں طلبہ کی کھیپ تیار کریں جو مختلف اہم شعبوں میں ملکی ترقی کے ضامن بن سکیں اور تعلیم سے فارغ ہو کر در در کی ٹھوکریں نہ کھائیں۔سائنسی تحقیق کے لیے کثیر رقم مختص کی جائے۔ پاکستانی سائنسدانوں کے علاوہ باہر کے ممالک سے اچھی تنخواہوں اور مراعات پر سائنسدانوں کو بلایا جائے جو یہاں آ کر مقامی مسائل کے حل کے حوالے سے طلبہ کو پی ایچ ڈی لیول کی ریسچ کرائیں۔ یہ سب کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر اسکے لیے سنجیدگی اور پیسہ درکار ہے۔ ترجیحات کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیے اگر آپ کو مسائل اور انکی وجوہات معلوم نہ ہونگی تو آپ اپنے عوامی نمائندوں سے گلی کے ٹرانسفارمر اور گلیوں کی مرمت پر ہی اپنی آئندہ نسلوں کے سودے کرتے رہیں گے۔ اور اگر آپکو مسائل کا ادراک اور انکی وجوہات معلوم ہونگی تو ہی آپ حکومتی اور انفرادی سطح پر انکے حل ڈھونڈ سکیں گے۔ خوش رہیں اور سوچ کی شمع جلائے رکھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...