پاکستان میں role models کا فقدان کیوں ؟
پاکستان کی ایلیٹ کلاس ہمیشہ سے احساس کمتری کا شکار رہی ہے کیونکہ اس کی امارت یا چودراہٹ میں ان کا اپنا کوئ ہاتھ نہیں رہا ، بلکلہ colonials masters کا ، جو خدمت کے عوض انہیں نوازتے رہے ۔ لندن کی حکمرانی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا ۔ پاکستان بننے کے فیصلے بھی لندن میں ہوئے اور اب بھی سارے سیاسی گماشتے وہیں اکٹھے ہوتے ہیں مشکل وقت میں ۔
بظاہر Marxist یا سوشلسٹ ، پلیجو ہو یا مظہر علی خان ، سُو ٹ بُوٹ میں ملبوس اور مر سڈیز میں بیٹھے ہی انقلاب کا درس دیتے رہے ۔ بھٹو کا بھی یہی وتیرا تھا اور اس بات پر تو Oriana Fallaci نے اپنی کتاب interview with history میں بہت اسے رگڑا بھی دیا ۔
اختر حمید خان ایک ٹُوٹی ہوئ کرسی لگا کر اُن غریبوں کے ساتھ بیٹھا ۔ وہی کھایا پیا جو اُنہوں نے۔ اختر حمید ICS آفیسر رہا ، لیکن دوران ملازمت بھی کسی شو بازی میں نہیں پڑا بلکہ مشرقی پاکستان جہاں کمشنر رہا وہاں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ۔ اسی وقت ان کے ساتھی شعیب سلطان نے بھی AKRSP سے انقلاب کا سوچا ، لیکن اپنی زندگیوں میں ، اپنا ہیلی کاپٹر ، اپنی ایک ریاست ، اب جس کے پیروکار راشد باجوہ PRSP سے اور امجد ثاقب اخوت اور دیگر دوسری تنظیموں سے ، اس اشرافیہ کے مدد کے نام پر ایک بڑی لُوٹ مار کا حصہ ۔ نتیجہ صفر ۔ کس کو دھوکہ ؟ اپنے آپ کو ۔
سیاست میں بھی یہی حال رہا ۔ ستر کے الیکشن میں کچھ لوگ پیسے کے بغیر الیکشن لڑے تھے اور جیتے بھی ۔ جیسے ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے وہ ڈاکٹر صاحب جنہوں نے سائیکل پر الیکشن کیمپین کی اور جیتے ۔ یہ الگ بات کہ اسی سادگی پر قتل کر دیے گئے اور بھٹو کی فورس پر ان کے قتل کا الزام ہے ۔
ہم زات پات اور لُوٹ مار کے نظام کی پیداوار ہیں ۔ اچھے باکردار لیڈر کو بہت زبردست will power چاہیے یا پھر قربانی ۔ دونوں کا فقدان ہے ۔ جس وجہ سے اشرافیہ کریم رول تو بنی رہی لیکن رول ماڈل نہیں بن سکی ۔
دلیپ کمار نے فلموں میں کبھی شرابی کا رول نہیں ادا کیا تھا سوائے ایک آدھ سین کے ۔ ان سے جب پُوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نئ نسل فولو کرتی ہے لہٰزا مجھے احتیاط برتنی ہے ۔ کہا کہ وہ ہر چیز میں مجھے کاپی کرتے ہیں ۔ اب تو وہاں بھی دیوداس فلم والا شاہ رخ خان نئ نسل کا رول ماڈل ہے ۔ اس کو بھی پاکستان سے الیکشن لڑنے کی آفر ہوئ ۔ کرتبیوں کا سردار بن کر اُبھرتا ، پھینک پیسہ دیکھ تماشا ۔
ہمارے والدین ، ہمارے اساتذہ ، ہمارے رول ماڈل ہوتے تھے ۔ اب وقت بد ل گیا ہے ۔ اگر والدین بھی مادہ پرستی کی دوڑ میں رکاوٹ ہیں تو پیچھے کر دیے جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ ڈاکٹر خالد رانجھا نے جو اس وقت مشرف کے وزیر تھے مجھے اپنے ایک استاد کی سفارش کی جو کواپریٹو کی جائیداد پر قابض تھے ۔ میں نے کہا سر اب تو مسئلہ ہی حل ہو گیا ہم ان کو آپ کے گھر بھجوا دیتے ہیں لاہور ، استاد تو باپ برابر ہوتا ہے ۔ بڑے برہم ہوئے فون پٹخ دیا ۔ پھر نہیں رابطہ کیا ۔
ہم ٹوٹل جعل سازی کی زندگیاں گزار رہیں ہیں ، جیسے مرنا ہی نہیں۔ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی ۔ قدرت کے خلاف کھلی جنگ ۔ کچھ نہیں ملے گا سوائے رُسوائ کہ ۔ عمران خان ایک چارٹر جہاز میں حرام کھانے والوں کے پیسے سے عمرہ کرنے کیوں گیا ؟ ناصر الملک سرکار کا کروڑوں برباد کر کے ہیلی کاپٹر میں اپنے گاؤں کیوں گیا ؟ پروفیسر عسکری پروٹوکول میں کیوں سفر کر رہیں ہیں ۔ اُن کو کس نے مارنا ۔ وہ تو اکثر ٹی وی پر یہ کہتے پائے گئے کہ فلاں سربراہ دیکھیں سائیکل پر گیا ۔ فلاں ٹیکسی میں ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں ، شاہیں کا جگر پیدا
بہت خوش رہیں ۔ کوشش کریں اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے کی ، وگرنہ یہ جینا بھی کیا جینا ۔ اللہ نگہبان ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔