واستو؛ سنسکرت زبان کے اس لفظ کے لغوی معنی ہیں، ”حقیقت، سچ“۔ ”واستو“ ہندی سینما کی ایک فلم کا نام بھی ہے۔ اس فلم میں رگھو (سنجے دت) معمولی درجے کے غنڈے سے شہر بھر کا ”بھائی“ بننے کا سفر کرتا دکھائی دیتا ہے؛ ہمارے یہاں فلموں کے ”مرکزی کردار“ کو عرف عام میں ”ہیرو“ کہا جاتا ہے۔ رگھو ”واستو“ کا ہیرو ہے۔
ابتدا میں رگھو بدمعاش نہیں ہے۔ اتفاقا وہ اور اُس کا دوست ایک جرائم پیشہ گروہ سے ٹکرا جاتے ہیں، یہاں سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ جرائم کی دُنیا کا حصہ بن کے دھن دولت کمائی جا سکتی ہے۔ اس فلم کا پس منظر نوے کی دہائی کا بمبئے ہے، جس کو اب ممبئے کہا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں بمبئے شہر میں غنڈا راج تھا، جیسا آج سے کچھ عرصے پہلے تک پاکستان کے شہر کراچی میں بھی روز لاشیں گرتیں، بھتا لیا جاتا رہا، روزانہ ہزاروں افراد لٹ جایا کرتے تھے۔ یوں تو دُنیا کے کسی بھی شہر میں جرم ہو سکتا ہے، لیکن جس راج میں مظلوم کی داد رسی تک نہ ہو، اسی کو غنڈا راج سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ ”ڈی“ کمپنی“ اور اسی طرح کی بہت سی فلمیں ہیں، جو اُس دور کی کہانیاں دکھاتی ہیں۔ ان سب فلموں میں ایک بات مشترک ہے۔ کہ کسی بھی غنڈے کو جب تک شہر کے با اثر افراد کی پشت پناہی حاصل نہ ہو، وہ پنپ نہیں سکتا۔ یہ با اثر افراد وہ ہیں جو حکومتیں بناتے ہیں گراتے ہیں۔
واستو ہی کی طرح دوسری فلموں میں دکھایا جاتا ہے، کہ کہانی کا ”رگھو“ لالچ، مجبوری یا کسی خواہش کے ہاتھوں سرنگوں ہو کے اندھیرے راستوں کا انتخاب کرتا؛ پھر ایک وقت ایسا آتا، جب شہر بھر میں اُسی کے نام کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیا، ایسے ”رگھو“ کے سر پر کسی با اثر کا ہاتھ ہوتا، تو رگھو اُسی کے مفاد کے لیے لڑا کرتا، لہاذا وہ با اثر نیک نام شخص رگھو کی ڈھال بن جایا کرتا۔ غنڈا گردی کی بنیاد تشدد ہے، پھر غنڈے کا ایک ہتھیار دہشت پھیلانا بھی ہے۔ وہ دہشت پھیلا کر کئی مقاصد حاصل کر لیتا ہے، اس کے مخالف اُس کے پھیلائے خوف کے جال میں آ کے مزاحمت ترک کر دیتے ہیں۔ ان کہانیوں میں یہ بھی مشترک منظر ہے، کہ پالا ہوا وہ غنڈا ایک وقت آنے پر اتنا بااختیار ہو جاتا ہے، کہ جنھوں نے اُس کی پرورش کی، اُنھی کو آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔
عموما ان فلموں میں کہانی کی اُٹھان یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ”معزز“ شخص جس نے رگھو کے ہاتھ اپنے مخالفین مروائے، کالا دھن کمایا، لوگوں کی جائیداد پر قبضہ کیا، دشمن کی عورتوں کو رُسوا کیا، وہی نیک نام ایک طرف رگھو کے مخالف غنڈے کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے، جو رگھو کا ستایا ہوا ہے، تو دوسری طرف ریاستی اداروں سے اس رگھو کو مارنے کا فرمان جاری کرواتا ہے۔ چوں کہ اس معزز نے ہر بُرے کام کے لیے رگھو کو سامنے کیا تھا، تو شہر بھر رگھو ہی کو ”ولن“ سمجھتا ہے، رگھو سے نفرت کرتا ہے، اُس کے منہ پر تھوکنا چاہتا ہے۔ ادھر سینما ہال میں بیٹھے فلم بین چوں کہ ”رگھو“ کے حالات زندگی سے واقف ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ رگھو کو کس کس نے کب کب اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا؛ وہ جانتے ہیں، کہ رگھو کے ”بھائی“ بننے میں رگھو کا اتنا دوش نہیں، جتنا اُن با اثر اور نیک نام لوگوں کی بد قماشی کا دخل ہے، تو لامحالہ اُن کی ہم دردی رگھو کے ساتھ ہوتی ہے۔ اُن کا ہیرو رگھو ہے، نہ کہ وہ نیک نام با اثر شخص۔
”واستو“ میں ایک ایک کر کے رگھو کے سب دوستوں سب حامیوں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے؛ کئیوں کو گرفتار کر کے جھوٹے پولِس مقابلے میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، کہ کوئی زندہ نہ بچے؛ کیوں کہ ان میں سے ایک بھی عدالت تک پہنچ گیا، تو وہ اپنے ”آقا“ کا نام لے گا، کہ مجھے ”تخلیق“ کرنے والا، پروان چڑھانے والا، مجھ کو کڑے وقت میں ”پناہ“ دینے والا وہی ہے جو اب مجھ کو اس لیے مار دینا چاہتا ہے، کہ اُس کی بد نامی کا اندیشہ ہے، اُس کے اقتدار کو خطرہ ہے۔ شہر بھر جس رگھو کے نام سے تھر تھر کانپتا تھا، اب اُس رگھو کو نا چاری سے واسطہ پڑا ہے۔ ”واستو“ میں رگھو موت کے خوف میں مبتلا، اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر فریاد کرتا ہے، کہ اُس کو نجات دلا دے۔ اُس کی ماں اُس کو موت کے گھاٹ اُتار دیتی ہے۔ کہانی کا یہ جذباتی انجام انتہائی درد انگیز ہے۔
واستو یعنی حقیقت یہ ہے، کہ جب ریاست کا انصرام کرنے والے اپنی غلطیوں کو چھپانے پر آتے ہیں، تو اپنے ہی پالے ہووں کو اس دردناک انجام سے دو چار کر دیتے ہیں۔ کسی کو پولِس مقابلے میں پار کر دیا جاتا ہے، تو کسی کو اُس کے مخالف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ریاست کے یہ با اثر اپنے ہی پالے ہووں کو انجام تک پہنچا کے اپنے سینوں پر تمغے سجاتے ہیں، کہ شہریوں کو ایک عفریت سے نجات دلائی۔
یہ داستان ہندُستان کی ہے، ہمارے یہاں تو نہ کوئی پالتو سیاسی جماعت ہے جو شہر بھر کو یرغمال بنالے، نہ پالتو غنڈا، نہ پالتو مجاہد، نہ پالتو طالبان۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ خُدا نہ کرے، ایسا ہو، کِہ راوی ہی پالتو نکلے۔