پاکستان میں پولیٹیکل انجینئرنگ،ایک تجزیہ
جو ہفتہ گزر گیا ہے ،اس میں پاکستان کی سیاست میں جو کچھ ہوا ،اس میں تو سیاسی اور ٹی وی کے وہ اداکار بھی بھاگ گئے جو پیشن گوئیاں کرنے میں ہمیشہ اگلی صف میں رہتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی ماہرین فلکیات نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے،سب اداکاروں اور نجومیوں نے سیاسی پیشن گوئیاں کرنے سے معزرت کر لی ہے ۔گزشتہ ہفتے میں واقعات اس قدر تیزی سے گزرے کے کسی کو سمجھ نہیں آسکی کہ وہ کس طرح کی پیشن گوئی کرے ۔سیاست کے حوالے سے گزشتہ ہفتہ کراچی کے نام رہا ،کراچی سیاسی مرکز نگاہ رہا ۔کراچی کبھی کبھی میڈیا کی ڈارلنگ بنتا ہے ،لیکن جب بھی روشنیوں کا شہر میڈیا کی ڈارلنگ بنتا ہے تو پورے پاکستان میں سیاسی زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔پاک سرزمین اور ایم کیو ایم پاکستان والے پہلے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے ،ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ،پھر ایک دوسرے کی عزت چوک چوراہوں میں اچھالی ،حد تو یہ ہوئی کہ بیچاری بوڑھی اماں کو بھی لے آئے ۔کراچی میں پہلی مرتبہ تمام رہنماوں نے کھل کر اسٹیبلشمنٹ ،اسٹیبلشمنٹ جیسے حساس الفاظ کا استعمال کیا۔سب نے ایک طرح سے تو ایسے کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے اس پر خوبصورت بیان کچھ اس طرح سے دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کٹھ پتلیاں ہیں ،یہ کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی ،اگر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس مرتبہ کراچی کو صاف ستھری قیادت فراہم کرے گی جو کراچی کی ترقی کرے گی ۔یہ اس قدر خوبصورت بیان ہے کہ قہقہے مارنے کو دل کرتا ہے ۔ویسے کیا سندھ اور کراچی میں پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہے یا حکومت میں ؟ادھر آصف زرداری کے دوست نے کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے ملاقات کی ،اس ملاقات ک بارے میں ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈروں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین ایم کیو ایم پاکستان سے اظہار ہمدردی کرنے آئے تھے ،انہوں نے پورے تعاون کا بھی یقین دلایا ۔اس بیان کے بعد آصف زرداری کی بہن فریال تالپور نے عاصم حسین سے جواب طلب کر لیا ہے۔مصطفی کمال اور فاروق ستار بھائی نے کراچی میں اسٹیبلشمنٹ کا کارڈ کھل کر کھیلا ،یہ بھی بتانے کی کوشش کی ،کہ کراچی میں اسٹیبلشمنٹ کا رول کیا ہے؟سندھ سے پچھلے ہفتے یہ بھی خوشخبری آئی کہ ممتاز بھٹو کی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ تحریک انصاف میں ضم ہو گئی ہے ۔سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی بن گیا ہے ،عالی مقام پیر پگاڑا صاحب اس الائنس کے صدر اور ایاز لطیف پلیجو اس کے سیکریٹری جنرل ہیں ۔اس گرینڈ الائنس میں غوثعلی شاہ،زوالفقار مرزا،ارباب غلام رحیم ،صفدر عباسی ،عرفان اللہ مروت جیسے لیڈر شامل ہیں ،اس گرینڈ الائنس کا ویسے نام ہونا چاہیئے تھا اونچی دکان ،پھیکا پکوان ،یہ بات ویسے میں نے لطیف پیرائے میں کی ہے ،اسے غیر سنجیدہ بات بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔اس الائنس کا پہلا سیاسی جلسہ 26نومبر کو سکھر میں ہوگا ۔اس الائنس کا مختصر ترین نام ہے JDA۔۔۔اس الائنس کے ایک سرکردہ رہنما زوالفقار مرزا نے فرمایا ہے کہ اگر یہ الائنس پاور میں آگیا تو سندھ کے محروم عوام کو انصاف فراہم کرے گا ۔جی ہاں یہ وہی زوالفقار مرزا ہیں جن کی اہلیہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ایم این ائے ہیں اور جن کا بیٹا اسی پارٹی کی طرف سے سندھ میں ایم پی ائے ہے ،پیپلز پارٹی نے اس اتحاد کے حوالے سے صرف ایک جملہ پھینک دیا ہے وہ یہ کہ یہ سیاسی یتیموں کا اتحاد ہے ،اب دیکھتے ہیں ہیں کہ یہ اتحاد سیاسی یتیموں کا اتحاد ثابت ہوتا ہے یا پھر ؟پاکستان کے ایک سابق جرنیل پرویز مشرف نے بھی اپنا لچ تلا ہے ،جب یہ بات کراچی کی فضا میں گونج رہی تھی کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کی سربراہی کرنے جارہے ہیں تو اس پر انہوں نے فرمایا کہ وہ کیسے ایک نسل پرستانہ گروپ کے سربراہ ہوسکتے ہیں؟کیا کمال کی بات ہے 12 مئی کو تو وہ اس گروپ کے سربراہ تھے ،لیکن اب نہیں بن سکتے ،یہ بات بھی غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ ہے ۔مشرف صاحب نے فرمایا ہے کہ اب وہ پاکستان عوامی اتحاد بنا رہے ہیں ،جس میں 23 جماعتیں ہوں گی ۔آل پاکستان مسلم لیگ،پاکستان عوامی تحریک ،سنی اتحاد کونسل ،مجلس وحدت المسلمین ،پاکستان سنی تحریک وغیرہ ،مجلس وحدت المسلمین نے تو اس اتحاد کا ھصہ بننے سے معذرت کر لی ہے ۔اسے وٹس ایپ الائنس بھی کہا جارہا ہے ،کیونکہ مشرف نے ایک وٹس ایپ گروپ تشکیل دیا ہے جس میں اس الائنس کا زکر ہورہا ہے ۔اس لئے میں اسے وٹس ایپ الائنس کہہ رہا ہوں ۔اب لبرل مشرف جن کو کمر کی تکلیف ہے ،جن پر بے تحاشا مقدمات ہیں جو پاکستان سے باہر ہیں ،وہ اس اتحاد کو کامیاب بنائیں گے ،کوئی قہقہہ لگانا چاہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اس الائنس میں سب سے پہلے پاکستان کی بات ہوگی ۔ویسے میرا اپنا زاتی خیال یہ ہے کہ ان تمام الائنسز کے پیچھے کسی قسم کی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں ،لیکن ان الائنسز کے تمام رہنما اسٹیبشلمںت کا نام استعمال کرسکتے ہیں ۔امید ہے اسٹیبلشمنٹ اس پر خفا نہیں ہوگی۔ایک خوشخبری اور بھی آئی ہے کہ MMAیعنی متحدہ مجلس عمل دوبارہ بحال ہورہی ہے ،اس حوالے سے پچھلے ہفتے منصورہ لاہور میں ایک اجلاس ہوا جس میں جماعت اسلامی کے سراج الحق اور فضل الرحمان المعروف جمعیت العلمائے اسلام والے شریک ہوئے ۔کہا جارہا ہے یہ چھ جماعتوں کا اتحاد ہوگا ،انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی ہے ،جلد ہی ایم ایم ائے کی بحالی کا اعلان کیا جائے گا ۔ایم ایم ائے قوم کو مبارک ہو ،وہ سراج الحق جو یہودیوں کے ایجنٹ کی پارٹی کے اتحادی ہیں ،وہ ایم ایم ائے میں ہوں گے ،اس کے علاوہ فضل الرحمان جو مودی کے یار نواز کے اتحادی ہیں وہ ایم ایم ائے کو چلائیں گے ۔ان کے مقابلے میں یعنی دیو بندی اتحاد کے مقابلے میں بریلوی اتحاد بھی سامنے آگیا ہے ۔این ائے 120 اور NA 4 میں لبیک والوں کی سیاسی کارکردگی نے بریلوی اتحاد کا مستقبل بھی روشن کردیا ہے ۔اس اتحاد میں روح پھونک دی گئی ہے ،ادھر سے اسلام آباد والا دفاع پاکستان کونسل بھی میدان میں آگیا ہے ،انہوں نے اعلان فرمایا ہے کہ وہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں شریک ہوں گے ۔دفاع پاکستان کے مطابق اس میں چالیس جماعتیں ہیں ،ویسے پاکستان کی سیاست میں باکمال انداز میں پولیٹیکل انجینئیرنگ خود بخود ہو رہی ہے یا پھر کی جارہی ہے ۔پہلے دیو بندی اتحاد طاقت میں تھا ،اب بریلوی اتحاد بھی طاقتور ہورہا ہے ،خدا خیر ہی کرے ۔پاکستان کی انتخابی لیباٹری میں نئے سیاسی اتحادوں کی انجینئیرنگ کا کاروبار یا کھیل جاری ہے ۔بریلوی مکتب فکر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے ضیا دور میں پیچھے دھکیلا گیا تھا ،دیو بندیوں کو آگے لایا گیا ،اب لگتا ہے بریلوی اتحاد کا وقت ہے ۔یہ سوچ ضمنی انتخاب میں پیدا ہوئی ہے ،جی جی وہی ضمنی انتخاب جو این ائے ایک سو بیس لاہور میں ہوئے تھے ۔جس طرح کے نتائج آئے ،اس سے یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ بریلوی اتحاد ایک طاقتور سیاسی اتحاد بن سکتا ہے ،یہ اتحاد پنجاب میں مسلم لیگ ن کے بریلوی ووٹ کو ڈسٹرب کر سکتا ہے ۔مسلم لیگ ن سنٹرل پنجاب میں مضبوط ہے اور یہاں بریلوی مکتب فکر کی اکثریت ہے ۔نواز شریف کے سنی ووٹ کو کمزور کرنے کے لئے لبیک پارٹی سامنے آئی ہے یا پھر لائی گئی ہے ۔پاکستان میں روائیتی مذہبی سیاسی جماعتیں کمزور تھی ،اچھے نتائج نہیں دے پارہی تھی ،اس لئے وہ بیک گراونڈ میں چلی گئیں تھی ،اب اس لئے نیا ایڈیشن سامنے لایا جارہا ہے ۔جس طرح کی پولیٹیکل انجینئیرنگ کا سلسلہ چل پڑا ہے ،اس کے نتائج کیا نکلیں گے ،یہ تو وقت ہی بتائے گا ،ایک بات واضح ہے کہ لبرل جمہوریت کا مستقبل مخدوش کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں ۔لگتا ہے الیکشن 2018 میں خوفناک کھیل کھیلا جائے گا جس کے المناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں ،اس لئے قوم زہنی طور پر خطرناک مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔