پاکستان میں نفاذِ اسلام کی تحریک ؛ ایک مختصر جائزہ
ہم بہ حیثیت مسلمان اس بنیادی حقیقت پر غیر مشروط ایمان رکھتے ہیںکہ آج مسائل میں گھری دنیا کے جملہ مسائل کا حل اسلام کے فکر و عمل کو اپنانے میں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسلام کو نعرے کے بجائے ایک عملی حقیقت کے طور پر قبول کیا جائے۔ پاکستان میں اسلام کے سیاسی ومعاشی نظام سے استفادے کی بحث کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن ہمارے اربابِ اقتدار و سیاست اسلام کے نظامِ فکر کی بنیاد پر کوئی عملی نظام وضع کرنے سے قاصر رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری پاکستان میں موجود مذہبی و سیاسی قوتیں اور مقتدر حلقے ایک دوسرے پر ڈالتے رہے ہیں کہ اسلام کے نفاذ میں فلاں رکاوٹ ہے اور فلاں موقع پر اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے فلاں نے روڑے اٹکائے اور بوجھل دل کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ منزل کا حصول دوچار قدم کے فاصلے پر تھا۔
آج تاریخ کے جس موڑ پر قوم کھڑی ہے، اُسے یہاں تھوڑا رُک کر پاکستان میں نفاذِ اسلام کی تحریک اور مطالبے کا حقیقی بنیادوں پر جائزہ لینا چاہیے، تاکہ اس کے ذمہ داروں کا تعین ہوسکے کہ آخر یہ کام کن وجوہات و اسباب کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔
ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی دعوے دار قوتیں جو کل تک لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے دعوے کیا کرتی تھیں، آج پاکستان میں اپنے وجوداور بقا کے لیے اسی نظام کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑی ہیں اور مختلف اوقات میں اسلام کے نام پر قائم جماعتیں محض اسلامی ناموں کے تحفظ اور مدارس کی رجسٹریشن کو ہی اپنی جدوجہد کا نقطہ عروج قرار دے رہی ہیں۔ آخر اس کے کیا محرکات ہیں؟
ہمارے خیال میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی قوتوں اور مقتدر طبقوں کے درمیان اسلام کے سیاسی و معاشی نظام سے استفادے کی بحث کا جواز ہی نہیں تھا۔ کیوںکہ یہ مسلمانوں کا اکثریتی ملک تھا اور پھر اس کے قیام کا سب سے بڑا محرک اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کا حصول قرار دیا گیا تھا۔ جب تجربہ گاہ مل گئی تو پھر بحث کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اس بحث کا مطلب اس کے سوا کیا لیا جاسکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا اور ایک مخصوص طبقہ، جس کے ہاتھ میں تحریک کی باگ ڈور تھی، اس نے اسلام کے جذباتی نعرے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کے عملی نفاذ کی ڈور کو گنجلک بنا کر سادہ لوح عوام کے درمیان رکھ دیا گیا کہ اسلام میں مختلف فرقے ہیں اور اسلام کے نفاذ پر وہ متفق نہیں۔ اور لوگوں کے مطالبے پر اُن سے پوچھا جانے لگا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کس فرقے کا اسلام نافذکریں؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان بناتے وقت آپ نے کس فرقے کے اسلام کے نفاذکا وعدہ کیا تھا؟
اب دوسرے طبقے کی طرف آئیے کہ اس کے ہاں اسلامی نظام کے عدمِ نفاذ کے کیا عذرات اور وجوہ ہیں؟ اس سلسلے میں ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ پہلے تو اسلامی تحریکوں کے دعوے داروں کے تصورِ اسلام کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آیا ان کا تصورِ اسلام آج کی کسی جدید ریاست کے نظم ونسق چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کی ذہنی اپروچ اسلام کی آفاقیت اور روحِ عصر میں کوئی رشتہ تلاش کرسکی ہے؟ یا ان کا تصورِ اسلام مغرب سے مستعار لی ہوئی کسی خاص فضا کے زیر اثر ہے اور کسی سرمایہ دارانہ نظریے کی فضا ہموار کرنے کے کام آتا رہا ہے؟ مثلاًنفاذِ اسلام کا مطالبہ ’’مشرقی پاکستان‘‘ کے بجائے ’’مغربی پاکستان‘‘ میں زیادہ مقبول رہاہے، جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مغربی (موجودہ) پاکستان میں قبائلی، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ سرداریوں کا کلچر عام ہے اور بڑے بڑے قطعاتِ زمین، فیکٹریاں اور جاگیریں اسی طبقے کی ملکیت ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 1950ء میں پاکستان میں ’’تحریک ِاسلامی‘‘ کی سب سے سرگرم جماعت کے سرپرست ـ’’مسئلہ ملکیت ِزمین‘‘ نامی کتاب لکھ کر بہ زعم خویش قرآن وسنت سے ثابت کرتے ہیں کہ زمین کی ملکیت کا حق ناقابلِ تنسیخ ہے۔ اسی طرح سے اسلام کے نام پر جہادی سرگرمیوں کے عروج کے دور میں ایک اسلامی تحریک کے داعی کے مندرجہ ذیل خیالات لائق توجہ ہیں:
’’آپ دیکھیں صدرِ اوّل میں مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر جہاد شروع کیا تو قرب و جوار سے مالِ غنیمت اور جزیہ آنا شروع ہوا تو مسلمانوں کی معیشت مستحکم ہوئی۔ مالِ غنیمت اور جزیہ، یہ دو مدیں ہیں، جس سے مسلمانوں کی معیشت مستحکم ہوتی ہے اور آج امریکا بھی یہی کررہا ہے اور ان کی معیشت مضبوط ہے۔ امریکا نے بھی پوری دنیا پر ٹیکس لگاکر اپنی معیشت کو مضبوط کیا ہوا ہے۔ کیا امریکا کا ٹیکس جائز ہے اور مسلمانوں کا جزیہ غلط ہے؟ اگر امریکا کو یہ حق ہے تو ہمیں بھی یہ حق ہے اور ہمیں ایٹمی قوت بن کے جہاد کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘ (ملخص انٹرویو پروفیسر حافظ محمدسعید، بحوالہ کتاب ’’مذہبی سیاست کے تضادات‘‘ از سہیل وڑائچ ،طبع دوئم 2010ء)
نفاذِ اسلام کے دو معتبر حوالوں سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے داعی بیش تر مذہبی حلقے نہ صرف دینی نظام کی عصری بصیرت سے بے بہرہ ہیں، بلکہ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سیاست اور استعماری حربے سے بھی بے خبر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کی بچھائی بساط کے لیے وافر مقدار میں مہرے تیار کرچکے ہیں۔ جو خود آج پاکستان میں اسلام کے معاشی و سیاسی نظام کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے ذریعے سے تو اسلام کی صاف شفاف تعلیمات کا چہرہ مسخ ہورہا ہے، جو آج دہشت گردی کی صورت اختیار کرچکاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اربابِ اقتدار و مذہب نے عوام کے دین اسلام پر اعتماد کا ذہنی و جذباتی استحصال کیا اور اپنے وقتی مقاصد اور عالمی قوتوں کے مفادات کے لیے اسلام کے نظامِ فکر کو زِک پہنچائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو جان کر عصر ِحاضر میں شعوری بنیادوں پر اس کی معنویت اور افادیت کو ثابت کرتے ہوئے اس کے عملی نظام کی صورت گری کی جدوجہد کریں۔
(یہ مضمون بطور اداریہ ماہنامہ رحیمیہ فروری 20177 میں شائع ہوچکا ہے)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...