پاکستان میں معذوروں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں
ایک تخمینے کے مطابق اس دنیا میں سات سے آٹھ ارب کے درمیان انسان موجود ہیں،ان سات سے آٹھ ارب کے درمیان میں جو معذور انسان بستے ہیں ،ان کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے،بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں معذوروں کی تعداد میں ہر سال پانچ فیصد اضافہ ہورہا ہے،معذوروں کی تعداد میں پانچ فیصد ہر سال اضافہ ہونا ہے خطرناک بات ہے۔اس خوبصورت دنیا میں جو بدقسمت انسان معذور ہورہے ہیں ،اس کی وجہ بھی خود یہی انسان ہیں ،انسان اپنے لئے ایسے پیچیدہ مسائل پیدا کررہا ہے ،جس کی وجہ سے وہ معذور بھی ہورہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بیماریوں پر قابو پارہا ہے،لیکن جب ایک وبا ختم ہوتی ہے ،تو اس کی جگہ دوسری وبا پیدا ہوجاتی ہے ۔اس دنیا میں ماحول کے ساتھ جس طرح کا ریپ ہورہا ہے،اس ریپ کی وجہ سے قدرتی آفات اور موسموں میں خوفناک قسم کی تبدیلیاں آرہی ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق اس وجہ سے دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ایک عالمی رپورٹ کے مطابق شام سے لیکر یمن اور افغانستان اور یورپ سے امریکہ تک جنگ و جدل کا سماں ہے ،خاص کر شام اور افغانستان میں لاکھوں انسان خانہ جنگی کی وجہ سے معذور ہوئے ہیں ،چین اور امریکہ میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب آرہے ،یہ تمام وہ فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔دہشت گردی اور تشدد پوری دنیا میں پھیل رہی ہے جس سے معذور افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔جب انسان معذور ہوجاتے ہیں تو انہیں مصنو عی اعضا کی ضرورت پڑتی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 87 فیصد انسانوں کو مصنوعی اعضا تک رسائی نہیں ہے ،اس کی وجہ غربت ہے۔دنیا بھر میں مصنوعی اعضا بنانے والوں کی تعداد محدود ہے ،اسی وجہ سے ان مسنوعی اعضاٗ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ایک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹلی ،جرمنی اور امریکہ وغیرہ میں یہ کمپنیاں کام کررہی ہیں ،پاکستان میں میڈیکل ڈیلرز ان کو وہاں سے خریدتے ہیں ،اس لئے عام انسان ان مصنوعی اعضاٗ کو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔پاکستان میں کسی بھی شعبہ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اور یہ بات معروف امریکی کاروباری جریدے فوربز کی سالانہ 30 انڈر 30 کی ایشیا کی فہرست نے بھی ثابت کردی ہے، جس میں مجموعی طور نامزد 300 افراد میں 9 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ان نو پاکستانیوں میں دو ایسے نوجوان پاکستانی ہیں جو ایسے مصنوعی اعضا بنا رہے ہیں جو معذوروں کی دسترس میں ہیں ،یعنی عام غریب معذور پاکستانی بھی ان مصنوعی اعضا کو خرید سکتا ہے ۔ابراہیم علی شاہ اور اسد رضا نے ملکر ایک کمپنی بنائی ہے جس نام نیورواسٹک ہے ،ان دونوں نوجوانوں کا کہنا ہے کہ برینڈڈ کمپنیاں دنیا بھر اور خاص کر پاکستان میں جتنی قیمت پر مصنوعی اعضا فراہم کررہی ہیں،ہم اسی فیصد کم قیمت پر وہ مصنوعی اعضا پاکستان کے معذور افراد کو فراہم کرسکتے ہیں ۔یہ ایک بائیو میڈیکل کمپنی ہے جو کہ مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعی اعضا کے پروڈکٹس بیچتی ہے ۔محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ دونوں کی عمر 24 برس ہے اور اس ادارے کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے کم خرچ اور اعلیٰ معیار کے طبی آلات اور مصنوعی اعضا فراہم کرنا ہے۔نیوروسٹک طبی خدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضا کی فراہمی کی خدمت بھی انجام دیتا ہے جہاں لوگوں کی بحالی کی سہولیات تک رسائی کم ہے یا بالکل نہیں۔اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ملنے والے مصنوعی اعضا اصلی اعضا کی جگہ تو لے لیتے ہیں لیکن یہ کام نہیں کر سکتے۔پہلے دستیاب مصنوعی اعضا کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اترنا، گاڑی چلانا، بھاگنا یا پتھریلے رستوں پر چلنا ممکن نہیں تھا۔،لیکن ان کے بنائے گئے اعضا میں حقیقی اعضا کی طرح گرفت ہے، قیمت بھی بہت کم ہے، لاکھوں میں ملنے والی چیز اب ہزاروں میں دستیاب ہے۔نیورواسٹک کمپنی کے دفاتر لاہور اور اسلام آباد میں ہیں۔ یہ تمام مصنوعی اعضا مقامی طور پر فیصل آباد میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اسد رضا کا کہنا ہے اعضا تو پہلے سے یہاں بنتے تھے ہم نے انہیں رہنمائی دے کر منصوعات کو پہلے سے بہتر بنایا ہے۔دونوں ٹیلنٹڈ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر طرح کے مصنوعی جسمانی اعضا بنا سکتے ہیں ،انہیں صرف حکومت یا امیرترین افراد کی جانب سے وسائل کی ضرورت ہے تاکہ وہ بڑے پیمانے پر یہ عظیم کام کرسکیں۔۔۔اب حکومت اور ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ ان تخلیقی اور باصلاحیت نوجوانوں کا ہاتھ تھامے اور اس ملک میں معذور افراد کے جسمانی مسائل ختم کرے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔