1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی آبادی تقریباً چار کروڑ تھی۔ بشتر آبادی دیہات میں رہ رہی تھی۔ اس وقت آمد و رفت کے لیے پیدل، بیل گاڑیاں، ٹانگے، گھوڑے اور گدھے استعمال کیا کرتے تھے۔ یاد رہے اس وقت یورپ کے بہت سے ملکوں میں دیہات میں سفر کے یہی زرائع تھے۔ بہت کم لوگوں کے پاس اپنی سائیکلیں تھیں۔ اس کے علاوہ سفر کا ایک اہم ذریعہ ریل تھی۔ جہاں ریل نہیں چلتی تھی وہاں کے باشندے بسیں استعمال کرتے تھے۔ جو کہ سست رفتار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت محدود تھیں۔ اس زمانے میں ریل گاڑی سفر کے علاوہ سامان کی نقل و حرکت کا بھی اہم ذریعہ تھا اور دور دراز سفر کرنے والے بھی اپنے قریبی ریلوے سٹیشن تک مختلف ذریعوں سے پہنچ کر ریل سے سفر کرتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت ریل گاڑی کا سفر ایک محفوظ اور تیز ذریعہ تھا۔ خاص طور پر بڑے شہروں کے درمیان ریلوے کا ایک مربوط انتظام تھا۔ اس وقت شہروں کو ملانے والی سڑکوں کے علاوہ بشتر راستہ کچے تھے۔ اس طرح شہروں میں بہت کم سڑکیں تھیں اور چند خاص سڑکوں علاوہ گلیاں کچی تھیں یا ان میں اینٹیں بچھائی گئی تھیں۔ اس وقت لوگ عموماً بیل گاڑیاں، ٹانگے یا دوسری جانور سفر اور باربرادری کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اس وقت آبادی کم تھی اور سفر کی سہولتیں بھی محدود تھیں۔ آبادی کم ہونے کی وجہ سے مسائل زیادہ نہیں تھے۔ شہروں میں کراچی کے علاوہ کہیں بھی اربن ٹرانپورٹ یعنی بسیں نہیں چلیتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بشتر شہر چھوٹے اور ان میں شاہراؤں کے بجائے پتلی گلیاں ہوتی تھیں۔ بسوں کے علاوہ کراچی میں سفر کا ایک اور اہم ذریعہ ٹرام تھی۔ جو کہ کیماڑی صدر اور بندر روڈ تک چلتی تھی۔ دوسرے شہروں کے علاوہ کراچی میں بھی اندرون شہر سفر کے لیے ٹانگے بھی استعمال ہوتے تھے۔ لیکن کراچی کے علاوہ دوسرے شہروں میں اندرون شہر سفر کا واحد ذریعہ ٹانگے ہیں تھے۔ پاکستان جب بنا تو اس وقت کراچی لسبیلہ اور تین ہٹی پر ختم ہوجاتا تھا۔ ملیر ایک مضافاتی بستی تھی۔ جس کے درمیان کوئی آبادی نہیں تھی۔
اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ریل سفر اور سامان کی نقل و حرکت کا ایک موثر اور ذریعہ تھا۔ تاجروں کے علاوہ عام لوگ اپنا سامان اسی کے ذریعے بھیجا کرتے تھے۔ ریلوے نے اپنے سٹیشنوں کے علاوہ بڑے منصوبوں کی سایٹوں اور کارخانہ داروں کو بھی ان کی فیکٹریوں تک سامان پہنچانے اور لیجانے کی سہولت فراہم کرتی تھی۔ یعنی ان کا سامان بندرگاہ اور دوسری جگہوں سے ڈاریکٹ ان کی فیکٹریوں میں بھیجاجاتا تھا۔ اس کے لیے خصوصی طور پر مختلف کارخانوں اور سائٹ ایریا تک پٹریاں بچھا رکھی تھیں۔ اس زمانے میں شگر فیکٹریاں کم اور دور دراز مقامات پر تھیں۔ جب کے کسانوں کے پاس گنے کو فیکٹریوں و حرکت کے ذرائع میں ست رفتار بیل گاڑیوں کے علاوہ کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس لیے کسانوں کے لیے اپنے گنے کو ان فیکٹریوں تک پہنچانا بھی ایک بڑا مسلہ تھا۔ ریلوے نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے رکھی تھی اور گنوں کے کھیتوں سے شگر ملوں تک ریل کی پٹریاں پچھائیں کہ کسان اپنا مال آسانی سے ان فیکٹریوں تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ریلوے کے ذریعے لکڑی بھی لائی یا بھیجوائی جاتی تھی۔ لکڑی کو اتارنے چڑھانے کے لیے بھی خصوصی جگہیں مقرر تھیں۔ ریلوے کی اس سہولت سے سامان کی نقل و حرکت بآسانی ہوتی تھی۔ اس وقت ملک ٹرک بہت کم اور ان کی گنجائش اتنی نہیں ہوتی تھی کہ وہ ہوی سامان لے جاسکیں۔ اس وقت سڑکیں نہ بہتر تھیں اور اس وقت آباد کم ہونے کی وجہ سے انہیں دوسری سہولیات مثلاً پٹرول پمپ، پنجر اور مرمت کے علاوہ کھانے پینے کے مسائل بھی تھے۔ اس لیے لمبے سفر کے لیے ٹرک کم ہی استعمال ہوتے تھے اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا تھا۔ جب ریل کے ذریعے سامان محفوظ طریقے سے جلد پہنچ جایا کرتا تھا۔ اس طرح ریلوے ملک کی معشت کی ترقی میں کئی دھاہیوں تک اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
آزادی کے کراچی مملکت خداداد کا درالحکومت بنا اور یہ شہر پہلے ہی بندرگاہ کی وجہ سے ایک بڑا کاروباری مرکز تھا۔ جس کے ذریعہ وسط ایشاء اور افغانستان کا سامان بھی آیا اور جایا کرتا تھا۔ پاکستان بنے کے بعد مہاجروں کے علاوہ دوسرے علاقوں سے بھی لوگوں کی روزگار کے سلسلے میں کثرت سے آئے اور شہر کی آبادی پھیلنی شروع ہوئی۔ بعد میں اگرچہ دارلحکومت اسلام آباد منتقل کر دیا گیا لیکن اس کی معاشی اہمیت بدستور رہی اور اس کی آبادی میں اضافہ جاری رہا۔ جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کو رہائش کا مسلہ رہا ہے۔ اس لیے شہر سے دور دراز نئی نئی بستیاں بسائی گئیں۔ ان میں آمد و رفت کے لیے بسیں جو کہ سرکاری اور غیر سرکاری ہوتی تھیں استعمال ہوتی رہیں۔ لیکن ایوب خان کے دور میں آمد رفت کے مسلے کو حل کرنے کے لیے لوکل ٹرین کا منصوبہ بنایا گیا بلکہ جلد اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس منصوبہ کی یہ خوبی تھی اس میں مستقبل میں شہر کی آبادی بڑھنے کا امکان کے پیش نظر اس میں نئی آبادیوں کے لیے مزید روٹ کی گنجائش رکھی گئی تھی کہ لوکل ٹرین کی سہولت کو زیادہ وسیع کیا جاسکے یا اسے شہر کے مزید علاقوں میں پھیلایا جاسکے۔ یہ لوکل ٹرین شہر میں آمد و رفت کے مسلے کو حل کرنے میں بڑی مدگار ثابت ہو رہی تھی۔ ستر کی دھائی میں لوکل ٹرین کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے یہ جواز بتایا گیا کہ اس سے شہر میں ٹریفک کے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ کیوں کہ لوکل ٹرین شہر کی بہت سی اہم شاہراؤں سے گزرتی ہے اور ان سڑکوں لوکل ٹرین کی آمد کے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا رش ہوجاتا تھا۔ اس لیے اس کا یہی حل سوچا گیا کہ لوکل ٹرین کو بند کر دیا جائے۔
ریلوے نے صرف لوکل ٹرینیں کراچی میں نہیں چلائی تھیں۔ بلکہ مختلف ڑوٹوں پر یہ شٹل ٹرینیں چلائی گئیں تھیں۔ مثلاً لاہور میں اس طرح کی شٹل ٹرینیں چلتی تھیں۔ جو لاہور کے مختلف سٹیشنوں سے ہوتی ہوئی گرد نواح تک جاتی تھیں۔ یہ عام ٹرینوں کی نسبت چھوٹی اور اس میں ایک یا دو ڈبے ہوتے تھے۔ انجن اس کا ڈبہ کے ساتھ ہوتا تھا۔ یہ تیز رفتار، خوبصورت اور آرام دہ گاڑیاں تھیں۔ یہ گاڑیاں خاص طور پر مختصر سفر کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ٹرینوں کا ایک اور سلسلہ ریل کاروں کے نام سے شروع کیا گیا۔ جو کہ شٹلوں کی طرح تھیں اور اس میں بھی دو تین ڈبے لگتے تھے اور یہ عموماًً دو بڑے شہروں کے درمیان چلتی تھیں۔ رفتہ رفتہ پہلے شٹلوں کو اور بعد میں ان ریل کاروں کو بند کر دیا گیا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے ان شٹلوں اور ریل کاروں کو کیوں بند کر دیا گیا۔ چلیں کراچی میں یہ مسلہ تھا کہ لوکل ٹرین مختلف روڈوں سے گزرتی تھی اس لیے یہ جواز بنایا گیا کہ اس سے ٹریفک کا مسلہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ شٹلیں ان پٹریوں پر چلتی تھیں جن پر دوسری گاڑیوں ڈورتی تھیں۔ اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
یہ شٹلیں اور ریل کاریں بھٹو صاحب کہ دور میں کچھ عرصہ تک چلیں۔ مگر وقت گزنے کے ساتھ یہ شٹلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ناکارہ ہوتی گئیں۔ کیوں کہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت پر توجہ نہیں دی گئی۔ پہلے شٹلوں کو بند کیا گیا اور بعد میں ریل کاروں کو۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ریل کاروں اور عام ٹرینوں میں کوئی فرق نہ رہا۔ مگر ان ریل کاروں بھی بند کردیا گیا۔ انہیں بند کرنے کی وجہ خسارہ بتائی جاتی ہے۔ اس خسارے کی وجوہات ہیں اس پر بھی کچھ بات کرلیتے ہیں۔
1971 میں جب بھٹو صاحب اقتدار پر آئے تو اس وقت مشرقی پاکستان بھارت کی جارجیت کی وجہ سے علحیدہ ہوچکا تھا اس وقت تک ہمارے پاس زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ جوٹ تھا۔ مشرقی پاکستان چھن جانے سے یہ ذریعہ بھی ہم سے چھن چکا تھا۔ بھٹو صاحب نے زرمبالہ کے حصول کے لیے جو اقدامات کرے ان میں پاکستانی سکہ کی قدر گھٹانا شامل تھا۔ اس وقت ہمارا روپیہ برطانیہ کے پونڈ اسڑلنگ سے اٹیج تھا۔ بھٹو صاحب نے روپیہ کا تعلق پونڈ اسٹرلنگ سے ٹور کر اسے ڈالر سے جوڑ دیا اور اس وقت ایک ڈالر چار پاکستانی روپیہ کے برابر تھا۔ پاکستانی روپیہ قدر ایک دم گرا کر دس پاکستانی روپیہ کا ایک ڈالر کر دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ بظاہر راست اقدام تھے۔ کیوں کہ پرطانیوی پونڈ اس وقت بین الاقوامی دنیا میں اپنی قدر کھوٹا جارہا رہا تھا اور اس کے مقابلہ میں ڈالر نے بین الاقوامی کرنسی کی حثیت حاصل کرلی تھی۔ اس وقت ہمیں زرمبادلہ کی شدید ضرورت تھی۔ روپیہ کی قدر گرانے نے بیرونی اشیاء مہنگی ہوگئیں۔ مگر ہم اس زمانے میں اشاء تعیش آج کل کی طرح درآمد نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تیل، نقل و حرکت کے لیے بڑی گاڑیاں اور مشنری درآمد کرتے تھے۔ اس سے یہ اشیاء مہنگی ہوگئیں اور تیل مہنگہ ہونے سے اس کے اتنے زیادہ برے اثرات نہیں پڑے۔ زرمبالہ کے حصول کے پاکستان نے اپنے چاول اور کپاس کے لیے منڈیاں تلاش کرنی شروع کردیں۔ لیکن ان کی مقدار اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اس سے اتنا ذرمبالہ حاصل کرسکے کہ پاکستان کا توازن ادائیگی اس کے حق میں ہوجائے۔ خوش قسمتی سے اس وقت عرب ممالک میں تیل کی دریافت کے بعد ترقیاتی کاموں کا دور شروع ہوا اور پاکستانیوں کو ملازمت کے مواقع بڑی تعداد میں ملے۔ جس زرمبالہ پاکستان آنا شروع ہوا اور توازن ادائیگی پاکستان کے حق میں ہوگیا۔
جب بھٹو صاحب شوسلٹ معشت کے داعی تھے اور ان کا نعرہ بھی یہی تھا اسلام ہمارا دین، شوشلزم ہماری معیشت۔ وہ مزدور طبقہ کو اوپر لانا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بینک، انشونس کپنیوں اور بعض دوسرے اداروں اور انڈسٹری کے بعض کارخانوں مثلاً گھی، سمنٹ رائیس ملوں اور اسکولوں کو قومیانے لے لیا۔ تاہم انہوں نے یہ احتیاط کی تھی کہ غیر ملکی اداروں کو قومیانے نہیں لیا تھا۔ دوسری طرف انہوں نے مزدوروں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دی کہ وہ ادارے کے انتظامی معاملات میں دخل دیں۔ بھٹو صاحب کی اس پالیسی سے جو صنعتی ترقی کا وہ ڈھانچہ ایوب خان کی حکومت کے دور میں پہلے پنج سالہ اور دوسرے پنج سالہ منصوبوں میں بنایا تھا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور ملک تیزی سے صنعتی تنزلی کا شکار ہونے لگا۔ پھر بھٹو صاضب نے بائیس سرمایا دار خاندانوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے ملک میں ناجائز منافع خوری کے زریعے سرمایا جمع کر رکھا ہے۔ اس سے سرمایا کاروں میں سخت بدلی پھیلی اور خوف پھیلا۔ انہیں خطرہ ہوگیا کہ ان کی سرمایا کاری کو کسی وقت بھی قومیانے لیا جاسکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنا سرمایا مختلف ذرائع سے ملک سے باہر منتقل کرنے لگے اور ملک میں سرمایاکاری محدود کردی گئی اور ملک میں صعنتی ترقی کا عمل سست ہوگیا۔ سرمایا کار بہت کم شعبوں میں سرمایا کرنے لگے تھے۔ اس سے ملک میں روزگار کے ذرائع محدود ہوگئے۔ بھٹو صاحب کے خلاف جب نظام مصطفےٰ کی تحریک چلی وہ اصل میں اقتصادی رد عمل تھا جسے مذہبی جامہ پہنا دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ساری اپوزیشن قید ہونے کے باوجود لوگ ان کے خلاف سرکوں پر آتے رہے۔ آپ نے شاید نوٹ کیا ووگا کہ یہ تحریک صرف شہروں میں ہی اثر رکھتی تھی۔ جب کہ دیہی علاقوں میں آج بھی بھٹو کا نعرہ ایک کش رکھتا ہے اور آج بھی ان کے نام سے ووٹ لیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ بھٹو صاھب نے زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کیا اس سے دیہی علاقوں میں خوش حالی آئی۔ مگر شہری علاقوں میں اس کے برعکس ہوا وہاں صنعتوں میں تنزلی سے بے روزگاری پھیلی۔
اداروں کے انتظامی امور میں مزدور یونین کی مداخلت اور سیاسی عناصر کی دخل اندازی نے پرائیوٹ کارخانوں میں تو اتنی تباہی نہیں مچائی جتنی سرکاری اداروں میں۔ ان اداروں اپنے زیر اثر اکرنے کے لیے ان میں یونین کی سرپرستی کے علاوہ ان کی سربراہی کے لیے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے کے بجائے سیاست دانوں کے عزیز و اقارب یا ان ان کے پسندیدہ افراد کو لایا گیا۔ اس طرح یونین بھی انتظامی معاملات میں دخل دینے لگی اور انہں کام سے زیادہ انہیں سیاست میں دلچسپی ہوتی تھی۔ ان اداروں میں حکمراں جماعت نے اندھا دھند لوگوں کو بھرتی کرایا۔ ان میں اکثریت ناکارہ و ناہلوں لوگوں کی تھی جو کہ حکمراں جماعت کے کارکن تھے۔ اس لیے اس لیے ان بھرتی شدہ کارکنوں کو کنٹرول کرنا یا کام لینا آسان نہیں تھا۔ تمام بھرتیاں، اپنے پسندیدہ افراد کو ٹھیکے، پوسٹنگ و ٹرانسفر اور پرموشن کے لیے سیاسی افراد کی سفارشیوں سے ہونے لگے تھے اور اس سے کرپشن کا راستہ کھل گیا۔ ان اداروں کے بعض سربراہ افراد ناہل تھے اور جو اہل تھے وہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی بھی تو اس سے صاف صاف کہہ دیا جاتا تھا کہ تم جیسے کہا جائے وہی کرو ورنہ ہٹادیے جاؤ گے۔ اس لیے انہوں بہتر یہی سمجھا کہ خاموشی اختیار کی جائے۔
تاہم اس میں شک نہیں ہے ان اداروں کا اسٹیکچر اتنا مظبوط تھا کہ ان کا خسارہ بہت بعد میں ظاہر ہوئیں اور یہ ادارے کسی نہ کسی طرح چلتے رہے۔ ان اداروں میں ٹیکنکل اور مجیمنٹ پوسٹوں پر ناہل لوگوں کو گنجائش سے زیادہ بھرتی کی گئی۔ اس سے رفتہ رفتہ ان اداروں کا سارا اسٹیکچر تباہ کردیا گیا۔ جو بھی افراد ان اداروں کے سربراہ بنائے گئے وہ سیاسی دخل اندازی اور ناحل کارکنوں کی اکثریت کی وجہ سے ادارے کو بحران سے نہیں نکال سکے اور یہ ادارے اب تک سمبھل نہیں پائے ہیں اور وہ اب بھی مسلسل خسارے میں ہونے کی وجہ سے حکومتی امداد سے چل رہے ہیں۔ ان کے بڑھتے ہوئے خسارے کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان کی نج کاری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ان اداروں میں اپنے وقت کے بہترین ادارے جن میں ریلوے کے علاوہ واپڈا، پی آئی اے اور اسٹیل میل جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ اور بھی کچھ ادارے ہیں جن کا کام صرف وصول کرنا ہے اس لیے ان کی نجارکاری کی باتیں نہیں کی جاتی ہیں۔ مثلاً کستمز، ایف بی آر، بندرگاہ اور پولیس وغیرہ شامل ہیں۔ ورنہ ہر ایک جانتا ہے کہ اس میں کس قدر مداخلت اور کرپشن ہوتی ہے۔
سیاسی مداخلت ناہل اور سفارشی لوگوں کی بھرتی کی روایت ایسی شروع ہوئی جو اب تک مسلسل جاری ہے۔ اس سے کرپشن میں اضافہ ہوا اور دوسرے طرف ریلوے خسارے میں جانے لگی اور یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا۔ کیوں کہ سیاسی مداخلت اور بے تحاشہ افرادی قوت اور ناہلیت اور کرپش کی بدولت ریلوے کی کارگردگی مسلسل خراب ہوتی رہے اور ٹرینیں اکثر خراب اور مسلسل لیٹ ہونے لگیں۔ یہ سب باتیں ریلوے کے خسارے کو کم کرنے میں مانع تھی۔ یہاں تک نواز شریف صاحب نے ریلوے کے خسارے کو کم کرنے لیے خسارے پر چلنے والی ٹرینوں، روٹوں اور ستشنوں کو بند کروا دیا اور بعض ٹرینیں چلوائیں۔ مگر اس کے بعد بھی ریلوے کا خسارہ کم نہیں ہوا۔ اگرچہ اس سلسلے میں دعوے تو بہت کئے گئے لیے لیکن اب تک ریلوے خسارے سے نہیں نل سکی ہے۔ اب کچھ ان اداروں کی بات ہوجائے جو کہ تباہ کردیے گئے۔
جب پاکستان بنا تو اس وقت سرکاری ایرلائن اورنٹ ایر لائن تھی جو کہ فوکر جہاز چلاتی تھی اور اس کی رسائی بہت کم روٹوں تک تھی۔ یہ زیادہ تر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان مسافروں کو لانے لیجانے کا کام کرتی تھی۔ بعد میں اس کا نام بدل کر پاکستان انٹر نیشنل ایر لائن کردیا گیا اور ادارے میں ترقی دینے کا مصوبہ بنایا گیا۔ اس کے بیڑے میں بوئنگ اور جمبو جٹ طیارے شامل کئے گئے اور اس کے لیے بین الاقوامی روٹ حاصل کئے گئے۔ اس طرح پی آئی اے کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا اور چند سالوں میں ہی اس کا شمار دنیا کی بہترین ایر لائنوں میں ہونے لگا تھا۔ اس زمانے کی اس کی ٹیکنکل مہارت اس قدر شاندار تھی کہ جب ترقی پزیر ممالک اپنی ایر لائن بنانا چاہتے تو اس کو اسٹیبلش کرنے کے لیے پی آئی اے کی خدمات لی جاتی تھیں۔ پی آئی اے نے سب سے پہلے مالٹا ایر لائن کو اسٹبلش کیا اس کے بعد پی آئی کے پاس لائن لگ گئی۔ ان میں سنگارپور ایرالائن، سعودیہ ایر لائن، عمان ایر لائن اور خلیج ایر لائن وغیرہ شامل ہیں کو اپنے پیرو پر کھڑا کیا۔ مگر بعد میں سیاسی مداخلت نے اور ناحلوں کی بہرتی نے اس بہترین ادارے کو تباہ کردیا گیا۔
کچھ یہی حال اسٹیل میل کا ہوا۔ ایسا ادارہ جو بہترین انداز میں چل رہا تھا۔ اس میں اندھا دھند بھرتیاں اور سیاسی مداخلت کی گئی اور اس ادارے کو اس حال میں پہنچایا دیا گیا کہ اس کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے پیسے بھی وفاق کو رقوم ادا کی جاتی ہے۔ اسٹیل میل کو بچانے کے لیے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ ان شپ بریکنگ انڈیسٹری پر پابندی لگادی گئی جو کہ جاپان کے بعد سب سے بڑی شب بریکنگ انڈیسٹری تھے۔ جس سے یہاں کی صنعتوں کو سستا خام مال مل رہا۔ اسٹیل میل کے مال کی قیمت بڑہادی گئی۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ یہ ادارے حد سے زیادہ افرادی قوت کو برداشت کر رہا تھی۔ ضیاالحق کے دور اور بعد میں نواب شریف کے دور میں بہت سے فالتو اور ناہل لوگوں کی چھانٹی ہوئی اور ان کی ملازمتیں ختم کردی گئیں۔ 2008ء میں جب پی پی پی کی حکومت آئی تو اس نے ان تمام نکالے گئے ملازموں کو دوبارہ ان تاریخوں سے بحال رکھ لیا گیا جب ان کی ملازمتیں ختم کی گئیں۔ اس طرح ان کی اس عرصہ کی تنخواہ بھی ادا کی گئیں۔ حلانکہ بشتر ملازم دوسری جگہوں پر ملازمت کر رہے تھے۔ حالانکہ اسٹیل مل سخت بحران کا شکار تھی اور اس کی تنخواہیں وفاق کی مدد سے دی جارہی تھیں۔
جب پاکستان بنا تو اس وقت بس چلانے کی ہر شخص اجازت نہیں تھی اور اس کے لیے پرمنٹ لینا پڑتا تھا ۔ پاکستان بنے کے شروع شروع میں بسوں کے پرمنٹ سیاسی رشوت کے لیے بھی استعمال کئے گئے ۔ بسوں پر پرمنٹ کی پابندی ایوب خان کے زمانے میں ہی اٹھائی گئی تھی ۔ ابتدا میں شہروں میں کراچی کے علاوہ اربن ٹریفک کا انٹظام نہیں تھا ۔ زیادہ تر شہروں میں آمد و رفت اور بار برداری کے لیے پیدل ، سائیکل ، ٹانگے اور گدھا گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں ۔ اس وقت اندون لاہور میں آمد و رفت کا واحد ذریعہ ٹانگے تھے ۔ لیکن اس کی نسبت کراچی بہت زیادہ ترقی یافتہ تھا ۔ یہاں بسوں کے علاوہ ٹرام وے جو اس وقت محمد علی ٹرام وے کمپنی کہلاتی تھی اور ایم اے جناح روڈ اور صدر سے ٹاور کیماڑی تک چلا کرتی تھی ۔
ایوب خان دور میں بڑے شہروں اور مختلف شہروں کے درمیان اربن ٹرانسپوٹ چلانے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ اس منصوبے کے تحت ایک ٹرانسپوٹ اٹھارٹی قائم کی گئی ۔ جس نے مختلف شہروں کے درمیان بسیں چلائیں ۔ اس کے علاوہ کراچی ، لاہور اور حیدرآباد میں بھی اربن ٹرانسپوٹ شروع کی گئی ۔ ان میں عام بسوں کے علاوہ ڈبل ٹیکر بسیں بھی چلائیں گئیں تھیں ۔ یہ ان شہروں میں رہنے والوں کو ایک اچھی سروس فراہم کرتی تھیں ۔ شہروں کے درمیان جن روٹوں پر گورمنٹ کی کی بسیں چلتی تھیں وہاں لوگ سرکاری بسوں میں اپنی بہتر سروس کی بدولت سفر کرنا پسند کرتے تھے ۔ یہ تیز رفتار تھیں اور ان کے عملے کا روئیہ لوگوں کے ساتھ بہت بہتر ہوتا تھا ۔ جب کہ پرائیوٹ بسوں میں مسافروں کے علاوہ سامان و جانور وغیر بھی بھرے جاتے تھے ۔ یہ پرائیوٹ بسیں ہر جگہ مسافروں کو بھرنے کے لیے یا بے مقصد کھڑی ہوجاتی تھیں ۔ مگر گورمنٹ کی بسیں ٹائم کی پابند تھیں ۔ اس وقت اربن ٹرانسپوٹ کا قانون تھا کہ بس دو لاکھ میل چلنے کے بعد اپنی لاگت نکلال لیتی ہے اور اس کے بعد انہیں چلانا نقصان دہ ہے ۔ اس لیے جو بس دو لاکھ کا سفر طہ کرلیتی تھی اسے اسکریپ میں شامل کر دیا جاتا تھا اور بعد میں انہیں نیلام کردیا جاتا تھا ۔ گو بعد میں یہ اصول ختم کردیا گیا اور خستہ حال بسیں بھی چلتی رہیں ۔ پرائیوٹ بس مالکان ان پرانی بسوں کو خرید کر انہں ریپر اور رنگ و روغن کرا کر سڑکوں پر چلایا کرتے تھے ۔ یہ ان بسوں کو مرمت کروا کر مسلسل چلاتے رہتے تھے اور رفتہ رفتہ ان کی حالت بہت خستہ حال ہوتی تھیں ۔
میں یہاں کراچی کے ٹریفک حوالے حوالے سے بحث کروں گا ۔ کیوں یہ شہر دوسرے شہروں کی نسبت بڑا اور اس کی آبادی بھی مسلسل پھیلتی بھی رہی ہے ۔ اس لیے اس شہر میں ٹریفک کے مسائل زیادہ تھے ۔ اگرچہ ماضی میں انہیں حل کرنے کی بھی سنجیدہ کوشش کی کیں گئیں تھیں ۔ کراچی اربن ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بہت ترقی یافتہ تھا اور جب پاکستان بنتا تو یہاں بسیں ، ٹرام اور چل رہی تھیں ۔ بعد میں ایوب خان کے دور ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلنے شروع ہوئے ۔ ان ٹیکسیوں اور رکشہ کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا گیا تھا ۔ ان کے ریٹ مقرر تھے اور ان میں سیل شدہ میٹر بھی نصب تھے اور رکشہ ڈرائیور ان کے مطابق کرایا لینے کے پابند تھے اور زیادہ کرایا لینے پر ان یا ان کی سیل ٹوٹنے پر چلان ہوجاتا تھا ۔ مگر رفتہ رفتہ سب بدل گیا ۔ اس شہر میں ایک ایسی ٹریفک مافیا پیدا ہوگئی تھی جو کہ شہر میں اپنی اجار داری قائم رکھنا چاہتی تھی ۔ پہلے یہاں ٹراموں اور پھر لوکل ٹرین کو بند کیا گیا ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اس کے لیے یہ جواز بنایا گیا کہ یہ ٹریفک میں خلل ڈالنے کا سبب بن رہی ہیں ۔
لوکل ٹرین کے بند ہونے کا نقصان اور اس کی افادیت کا احساس شاید کراچی کے شہریوں کو اس وقت نہیں ہوا ۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل نے انہیں یاد لایا کہ کراچی میں لوگل ٹرین کتنے آمد و رفت کے بڑے مسلے کو حل کرتی تھی اور یہ آمد رفت کا ایک بڑا ذریعہ تھی ۔ یہ ٹرین جب کسی اسٹیشن پر کھڑی ہوتی تھی تو وہاں سیکڑوں مسافر اترتے اور چڑھتے تھے ۔ اس کا بند کرنا بھی سازش تحت ہوا ۔ جس میں ٹرانسپوٹ مافیا اور قبضہ مافیا دونوں اس میں شریک تھیں ۔ ورنہ مسائل کا حل نکالا جاسکتا تھا ۔ اس کے بند ہونے سے شہر میں ٹرءفک کے مسائل بڑھے ۔ جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی چاندی ہوگئی اور قبضہ مافیا نے اس کی زمینوں پر قبضہ کرلیا اور پٹریوں کو بیچ کر کھاگئے ۔ اگرچہ لوکل ٹرین کو چلانے کی بات کئی دفعہ کی گئی ہے ۔ مگر ہر دفعہ یہی کہا گیا ہے کہ ریلوے کی زمینوں پر لوگوں کا قبضہ ہے اور ان سے چھڑوانا بڑا مسلہ ہے اور یہ تجویز کو در گزر کردی گئی ہے ۔ کیوں کہ اس ٹرین کو چلانے سے قبضہ مافیا اور ٹرانسپورٹ مافیا کے علاوہ بہت سے سرکاری عہداروں کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے ۔ جو مختلف طریقہ سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں ۔
ستر کی دھائی کے وسط میں بسوں کی خستہ حالی کے سبب شہر میں مختلف روٹوں پر ویگنوں کو چلانے کا فیصلہ ہوا ۔ بعد میں چھوٹی بسیوں یعنی منی بسوں کو بھی اجازت مل گئی ۔ ان منی بسوں کو چلانے والا ایک خاص طبقہ تھا جو کہ آنکھ بند کر خدمات ادا کرتا تھا اور ان چھوٹی بسوں بشتر مالکان کا تعلق پولیس سے تھا ۔ شروع میں اس کی سروس اتنی بری نہیں رہی ۔ کیوں کہ شہر میں پرائیوٹ اور گورمنٹ کی بسیں چل رہی تھیں ۔ مگر جلد گورمنٹ بسوں اور ادارے کو بند کردیا گیا ۔ اس کی وجہ بھی خسارہ بتائی گئی ۔ اس سے ٹرانسپورت مافیا نے فائدہ اٹھایا اور بسیں روڈوں پر کم چلاتے تاکہ بسوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ یہ بسیں مسافروں کے رش کے حساب سے چلنا شروع ہوگئیں ۔ یعنی انہوں نے اپنا ایسا شیڈول بنالیا کہ کم سے کم چکر میں زیادہ سے زیادہ مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر لیں ۔ یہ منی بسیں مسافروں کی کم تعداد کے پیش نظر بیچ میں کئی جگہ اسٹے کرنے لگیں اور اس میں اکثر لوٹا ماری ہونے لگی ۔ اس طرح یہ منی بسیں لوگوں کے لیے عذاب بن گئی تھیں اور ان حالت دن بدن خستہ ہوتی گئی ۔