پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کہیں زیادہ تیزی سے ملکی وسائل کو ہڑپ کرتی جارہی ہے ۔بے ہنگم اور بے لگام آبادی میں اضافہ کسی انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے ۔خوراک کی کمی ، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور بہتر صحت کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی پاکستان تو کیا دنیا کے کسی بھی معاشی طورپر مستحکم ملک کے لیئے ممکن نہیں ہے ۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جیسا ملک جو پہلے معاشی مشکلات کا شکار ہے اور اس کی ایک بہت بڑی آبادی بنیادی ضروریات زندگی کو ترس رہی ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا متحمل ہوسکتا ہے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ بالکل نہیں ہوسکتا۔تو ایسے میں کیا کرنا ہوگا؟ ایسے میں ریاست کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے اس موضوع پر بات کرنی ہوگی قوم کو ایک لائحہ عمل دینا ہوگا ۔ عوام کو شعوری طورپر کم بچے خوشحال گھرانہ کے نعرہ پر عمل کرنے کے لیئے تیار کرنا ہوگا۔محض نعروں سے یا لفاظی سے اس سنجیدہ مسلئے سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ اس کو ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی۔
پاپولیشن کونسل کی اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ ایک میٹنگ میں پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے بتایا کہ حالیہ ڈیجٹل مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 241.50ملین بتائی گئی ہے ۔اس کے مطابق پاکستان میں میں بارآوری کی شرح سب سے زیادہ 3.6 فیصد ہے ۔اور بارآوری کی بلند شرح کی وجہ سے 40 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے اور 18 فیصد بچے غذائی قلت کاشکار اور 29 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو 2040 تک مزید 15.5 ملین گھروں کی ضرورت ہوگی اور 2040 تک مزید 104 ملین یعنی دس کروڑ چالیس لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوگی اور 57 ہزار نئے پرائمری سکول کھولنے پڑیں گے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جیسا ملک یہ ضروریات پوری کرسکتا ہے ؟اگر نہیں کرسکتا تو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا ہوگا۔
آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاپولیشن کونسل نے بڑھتی ہوئی آبادی پر مشاورت کے لیئے میڈیا کے ساتھ میٹنگ منعقد کی ۔اور اس میٹنگ کے اختتام پر پاپولیشن کونسل کی طرف سے حکومت کو تجویز دی گئی کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مناسب سطح پر لانے کے لیئے پرائیوٹ سیکٹر اور کمیونٹی مڈوائف کو خاندانی منصوبہ بندی پر مل کر کام کرنا ہوگا۔
پاپولیشن کونسل کی میڈیا کولیشن میں ملک کے تما م حصوں سے صحافی شامل ہیں اوراس کولیشن کا مقصد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے زندگی کے تمام شعبوں پر پڑنے والے اثرات کو میڈیا میں رپورٹنگ اور کوریج کے ذریعے اجاگر کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاپولیشن کونسل سہ ماہی بنیادوں پر کولیشن کی میٹنگ کا انعقاد کرتی ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کےسینئر ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ حالیہ مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 2.55 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھتے ہوئے چوبیس کروڑ سے بڑھ چکی ہے جس کی ایک بڑی وجہ خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات تک رسائی میں کمی ہے ۔ اس رسائی میں اضافے کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کے مرد ڈاکٹروں کے ذریعے خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ اسی طرح کمیونٹی مڈوائف کے ذریعے خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات کے استعمال میں بہتری لائی جاسکتی ہے کیونکہ یہ گاوں اور دیہات میں حمل و زچگی کی سہولیات فراہم کرتی ہیں اور اس دوران خواتین اور ان کے خاندان کو منصوبہ سازی کے بارے میں آگاہی دینا اور سہولیات کے استعمال کا مشورہ دینا آسان ہوتا ہے۔ میڈیا اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اس حوالے سے پالیسی سازی کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے تاکہ وہ پرائیویٹ سیکٹر اور کمیونٹی مڈوائف پروگرام کے ذریعے مانعِ حمل طریقوں کے استعمال میں اضافہ کروائے اور ملک کی آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کیا جاسکے۔
پاپولیشن کونسل دونوں ریسرچ سٹڈیز سے ثابت کیا کہ یہ دونوں طریقے خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات میں اضافے کیلئے مفیدثابت ہوسکتے ہیں اور اگر حکومتی سرپرستی ملے تو ایسے پراجیکٹس سے ملکی آبادی میں اضافے کی شرح کو پائیدار سطح تک لا کر ترقی کے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے میڈیا کے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں دیہی اور غریب خواتین تک خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات پہنچانے کیلئے اپنی کوریج میں ان مسائل کو اجاگر کریں کیونکہ غریب اور دیہی خواتین کی مانعِ حمل طریقوں کی پوری نہ ہونے والے ضروریات کی شرح دیگر تمام طبقات سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر نعمان صفدر،ٹیم لیڈ اینڈ سیکٹر سپیشلسٹ ہیلتھ، پاپولیشن کونسل نے پرائیویٹ سیکٹر سٹڈی کے اعدادوشمار دکھاتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں فیملی فزیشن کے وسیع نیٹ ورک کے علاوہ مقامی فارمیسزکو خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات میں شامل کیاگیا جس سے ان سہولیات کی رسائی میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے پراجیکٹس کی سرپرستی کرے تاکہ مانعِ حمل طریقوں کے استعمال کی موجود شرح میں اضافہ کیا جاسکے ۔ مانعِ حمل طریقوں کی رسائی میں کمی کی وجہ سے بچوں کے درمیان وقفہ کم ہوتا ہے جس سے ماں اور بچے کی صحت متاثر ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تولیدی عمر کی 42فیصد مائیں خون کی کمی کا شکار ہیں ۔آبادی اور وسائل کے درمیان توازن کا قیام ایک اہم چیلنج ہے جس کے حصول کے لئے خاندانی منصوبہ سازی کے فروغ کیلئے میڈیا کے ذریعے فیصلہ سازوں تک آواز پہنچائی جاسکتی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتار کو کم کرنے کے لیئے حکومت کو ہر سطح پر سنجیدہ اقداما ت کرنے ہوں گے وگرنہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ملکی وسائل کو صدیوں میں نہیں سالوں میں چٹ کرجائے گی ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...