اسی طرح غالب کا اپنے منھ بولے پوتوں (عارف کے بچوں باقر علی اور حسنین علی خان) کے لیے لکھا گیا اُردو قاعدہ ’’قادر نامہ‘‘ بھی بچوں کے ادب کا حصہ مانا جاتا ہے۔
انگریزی قبضے کے بعد سر سید، نذیر احمد، حالی اور محمد حسین آزاد کے نام آتے ہیں۔
حالی کی نظم ’’ساری دنیا کے مالک‘‘:
اے ساری دنیا کے مالک
راجا اور پرجا کے مالک
بے آسوں کی آس تو ہے
جاگتے سوتے پاس تو ہی ہے
اس کے علاوہ ان کی نظمیں برسات، امید، رحم، انصاف، حب وطن وغیرہ بچوں کے ادب کا ایک بڑا سرمایہ ہیں. حالی کی نظم وطن کا نشان، برکھا رت، وغیرہ بھی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’مسدسِ حالی‘‘ کے کئی اشعار مختلف عنوانات کے تحت بچوں کی درسی کتب (چھٹی سے دہم تک) میں شامل کیے گئے ہیں۔
سر سید احمد نے بچوں کے لیے نثر کے میدان میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کے زیر انتظام شائع ہونے والے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ میں بچوں کے لیے متعدد مضامین لکھے گئے جن میں ان کی اصلاح اور شعور بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی مثلاً خوشامد، اپنی مدد آپ، کاہلی وغیرہ۔
محمد حسین آزاد کی نظمیں شب قدر، حب وطن، ابر کرم اور صبح امید اگرچہ مشاعروں میں پڑھی گئیں لیکن یہ لکھی بچوں کے لیے ہی لکھی گئی تھیں۔
ڈپٹی نذیر احمد نے بچوں کے لیے بیش قیمت نثر لکھ کر ان کے ادب کو چار چاند لگائے انھوں نے بچوں اور بچیوں کی معاشرتی و اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان میں دین اور تعلیم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے بہت سے ناول لکھے جن میں ’’مراۃ العروس، توبۃ النصوح، بنات النعش، ابن الوقت، رویائے صادقہ، فسانہ مبتلا، ایامی‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔
اس دور میں انگریزی نصابی ضروریات کے تحت مشاعروں میں مظاہرِ فطرت پر نظمیں کہنے والے شعرا کی نظمیں بھی بچوں کے ادب کا حصہ ہیں اور ان میں بڑے بڑے نام آتے ہیں جن میں عدیل کنستوری، احمد علی شوق، تلوک چند محروم، واسطی، ہادی، ظفر علی خان، علامہ اقبالؒ، حالی، آزاد اور اسماعیل میرٹھی کی نظمیں انگریز سامراج کے دور میں نصاب کا حصہ رہیں۔
علامہ اقبالؒ کو اکثر لوگ صرف بڑوں کا شاعر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میرے خیال میں انھیں شاعرِ اطفال کہنا بے جا نہ ہوگا کیوں کہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا۔ ان کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ نسل در نسل یاد کروائی جاتی ہے۔ ابتدائی عمر میں اوصاف حمیدہ اختیار کرنے کی جتنی پر تاثیر تلقین اس نظم میں ہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے علاوہ ’’پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری، پرندے کی فریاد، جگنو، ہمدردی‘‘ وغیرہ بہت سی نظمیں لکھیں جن میں بچوں کی کایا پلٹنے اور ان کی بہترین تربیت کی کوشش کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کے بھی قائل تھے انھوں نے ایک مقالہ ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ بھی لکھا جو مخزن نے جنوری 1902ء کو شائع کیا۔
اصغر سودائی کی نظم ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کو خاصی شہرت ملی. اسی طرح میاں بشیر احمد جو کہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے بڑے عقیدت مند تھے، انھوں نے قائدؒ کے لیے نظم لکھی جسے خاصی پذیرائی ملی اور آج بھی بچے یوم قائدؒ پر پڑھتے ہیں ’’ملت کا پاسباں ہے، محمد علی جناحؒ، ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناحؒ‘‘
اس دور میں بچوں کے نثری ادب میں پریم چند کی کہانیوں میں ’’عبرت، عید گاہ، معصوم بچہ، گُلی ڈانڈا، طلوع محبت، کشمیری، سیب، سچائی کا انعام‘‘ اہم ہیں. ڈپٹی نذیر احمد، حسن نظامی، احمد قاسمی، نہرو، ڈاکٹر ذاکر، حامد حسن قادری، امتیاز علی تاج، اشرف صبوحی، حجاب امتیاز علی، ہاجرہ مسرور، رام لال اور کمال رضوی نے بھی گراں قدر اضافہ کیا۔
اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے دو درجن کے قریب کتب لکھیں جن میں سے اکثر انگریزی ادب سے ترجمہ کی گئیں. ان میں سے ’’بن باس، دیوی، بغداد کے جوہری، دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی، موصل کے سوداگر‘‘ اہم ہیں۔
امتیاز علی تاج اور ان کی بیگم حجاب نے بچوں کے لیے بہت کام کیا. امتیاز کے ڈرامہ ”انار کلی‘‘ کو عالمی شہرت ملی. چچا چھکن ان کاایک ایسا کردار ہے جو آج بھی بچوں کے لیے اہم ہے، اس کے علاوہ بچوں کے لیے جاسوسی سلسلہ ’’ انسپکٹر اشتیاق‘‘ کے نام سے شروع کیا۔
شاعروں میں صوفی تبسم کی خدمات ادب اطفال کے بارے کافی زیادہ ہیں۔ ان کی نظم:
منے کی امی نے انڈا ابالا
ہنڈیا میں ڈالا
دومنٹ گزرے
ڈھکنا اٹھایا
انڈا نظر نہ آیا
چمچہ تھا ٹیڑھا
اوندھی تھی تھالی
ہنڈیا تھی خالی
قسمت تھی کھوٹی
روکھی تھی روٹی
اسی طرح ’’میرا خدا‘‘ میں صوفی تبسم کہتے ہیں:
جس نے بنائی دنیا
جس نے بسائی دنیا
ہاں وہ میرا خدا ہے
صوفی کی نعت:
دل آرا محمدﷺ
ہمارا محمدﷺ
ہم سب کی آنکھوں کا تارا محمدﷺ
وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
اس کے علاوہ صوفی کی نظمیں ’’ہمارا دیس، قائداعظمؒ، ٹوٹ بٹوٹ کی آپا، مدرسہ، بادل، آیا بسنت میلہ، ریچھ والا وغیرہ بھی ہیں۔
بچوں کے ادب کے لیے اسماعیل میرٹھی کی خدمات کی بنا پر ان کو بابائے ادبِ اطفال کہنا بے جا نہ ہوگا. انھوں نے اپنی ساری زندگی بچوں کے ادب کے لیے لگا دی. بچوں کی سب سے پہلی باقاعدہ درسی کتب لکھنے کا اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے۔ ان کی نظم ’’ہماری گائے‘‘:
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اس کے مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
اسی طرح ’’حمد‘‘:
تعریف اس خدا کی، جس نے جہاں بنایا
کیسی زمین بنائی کیسا آسمان بنایا
ان کے علاوہ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں ’’پن چکی، تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہوتا ہے، بارش کا پہلا قطرہ، ایک وقت ایک کام، کوشش کیے جاؤ مرے دوستو، شب براۃ، برسات، بادل اور چاند، ٹھنڈی ہوا، چھوٹی چیونٹی‘‘ وغیرہ ہیں۔
حفیظ جالندھری کی دو کتابیں ’’بہار پھول، اور پھول مالا‘‘ بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔
حامد اللہ افسر کی نظم ’’درد جس دل میں ہو اس کی دوا بن جاؤں، کوئی بیمار اگر ہو تو اس کی شفا بن جاؤں‘‘ میں بچوں کے لیے بڑا سبق ہے. دیگر نظمیں ’’نندیا پور، چاند‘‘ وغیرہ ہیں.
قتیل شفائی کی نظم:
اے میرے خدا
تو مجھ کو سیدھی راہ دکھا
اس کے علاوہ ان کی نظمیں ’’ہر عمر سیکھنے کی عمر، آپس میں مت لڑو، گالی مت دو، روزہ، سویرا، مکھی وغیرہ، ہیں. شان الحق حقی کی نظمیں ’’سال گرہ، شہد کی مکھی‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔
صائمہ کامران کی نظم:
کہتا ہے آسمان
کہتی ہے زمین
ایاک نعبد، ایاک نستعین
ان کی نعت:
صبا جھومی کلی چٹکی غنچے مسکرائے ہیں
محمد مصطفیﷺ دنیا میں تشریف لائے ہیں
اس کے علاوہ ان کی نظمیں’’اچھا شہری، عید کی نرالی ابجد، سکول کی کتابیں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
مہر وجدانی کی نظم ’’اللہ اللہ ہر دم اللہ، ہم ہیں بندے وہ مولا‘‘
اس کے علاوہ ان کی نظم ”بھیا‘‘ بھی مشہور ہے۔ مسرور انور کی ’’سوہنی دھرتی‘‘، جمیل الدین عالی کا نغمہ ’’جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمھارے لیے ہیں، ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ہم مصطفوی ہیں ہم مصطفوی ہیں، میرا پیغام پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘ وغیرہ نے بہت شہرت حاصل کی اور یہ نغمات آج بھی بچوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
احمد فراز کا نغمہ آج بھی بچے گاتے پھرتے ہیں: ’’ہم سچے پاکستانی ہیں‘‘
خالد بزمی کی ’’پاکستان کا پرچم ، قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ، میری امی، اُردو، علم کتاب، سنہری باتیں، درخت، دریا، مور، مچھر‘‘ وغیرہ نظمیں بچوں کے لیے ہیں۔
وطن سے محبت کے حوالے سے نظموں میں صہبا اختر کی نظم ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘ بہت مشہور ہے۔
اسی طرح کلیم عثمانی کی نظم ’’یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے‘‘ بھی شہرت کی حامل ہے۔
اسحٰق جلال پوری کی نظمیں ’’میری گڑیا بھولی بھولی، نیلی نیلی آنکھوں والی‘‘، ”کٹ کٹ کرتی آئی مرغی‘‘ بچوں کو آج بھی یاد ہیں۔
چراغ حسن حسرت کی اس نظم کو دیکھیے، وہ کس خوب صورت انداز میں بچوں کو آسمان کی سیر کرنے، خلا کی تسخیر کرنے کا سبق دے رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مصنوعی روشنیوں کے اس دور میں بچوں کا تعلق رات کے آسمان کے ساتھ کچھ کمزور سا ہو گیا وہ اسے پھر سے جوڑنا چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں
آؤ ہم بن جائیں تارے
ننھے منے پیارے پیارے
دھرتی سے آکاش پہ جائیں
چمکیں دمکیں ناچیں گائیں
بادل آئے دھوم مچاتے
لے کے کالے چھاتے
آؤ ہم بھی دھوم مچائیں
ان کے پروں میں چھُپ جائیں
چندا ماموں بچوں کے ادب میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، ان کا ذکر بے شمار نظموں میں پایا جاتا ہے.
آغا شید کاشمیری کی نظم ’’بلاوا‘‘:
چندا ماموں ہنس ہنس کر
اپنے پاس بلاتے ہیں
لیکن ہم کب جاتے ہیں
اتنی دور بھلا کوئی
تنہا اور کیسے جائے
پھر واپس کیوں کر آئے
احمد کلیم فیض پوری کی نظم:
چندا ماموں دُور کے
دیکھیں ہم کو گھُور کے
اسی طرح:
چنداماموں آؤ نا
ساتھ ہمارے کھاؤ نا
بدلی میں چھپ بیٹھے ہو
اپنا روپ دکھاؤ نا
قیوم نظر کی نظمیں ’’مؤذن، دعا، خاک وطن، ملو ملاؤ، سچ بولو، چوزے مرغی کے، کوئل، جگنو، کوا بولا، چڑیا کے بچے، طوطے کا بچہ، جنگلی کبوتر‘‘ وغیرہ ہیں. ان کی سب سے مشہور نظم ’’بلبل کا بچہ‘‘ ہے جسے بچے آج بھی پسند کی نگاہ سے دیکھتے اور شوق سے پڑھتے ہیں:
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
ایک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
میں نے اُڑایا
واپس نہ آیا
مولانا ظفر علی خاں نے بھی بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، ان میں سے ان کی نظم ’’ماں باپ کا ادب‘‘ کو بہت سراہا گیا۔
بچوں کے نثر نگاروں میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، احمد عباس، شوکت تھانوی، قراۃ العین حیدر (ان کا ناول جن، حسن عبدالرحمٰن مشہور ہیں)، مائل خیر آبادی، یوسف ناظم، ڈاکٹرمظفر حئی، شفیقہ فرحت، عطیہ پروین، کرنہ شبنم، وغیرہ اہم ہیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ایک معتبر نام جنا ب مسعود احمد برکاتی کا بھی آتا ہے جنہوں نے ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت بچوں کے لیے تقریباً تین عشرے اپنی خدمات سر انجام دے کر بہت کام کیا۔ ان کی کتب میں بچوں کا پہلا سفر نامہ ’’دو مسافر، دو ملک‘‘ شائع ہوا. اس کے علاوہ’’ پیاری سی پہاڑی لڑکی، چور پکڑو، تین بندوقچی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
مسعود احمد برکاتی کے علاوہ اختر عباس بھیا نے بھی بچوں کے لیے ایک سفر نامہ لکھا. وہ ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی خدمات بچوں کے ادب کے حوالہ سے گراں قدر ہیں۔ شوکت پردیسی نے غزل کو مزاحیہ انداز میں پیش کرکے بچوں کے بعض جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے، بچوں کے لیے لکھا ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی چھٹی نظر آتی
حلوہ ملتا ہے پر نہیں ملتا
چائے آتی ہے پر نہیں آتی
امتحان کیا قریب ہے یارو
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
بس ریاضی کو دیکھ کر چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’سالگرہ‘‘ بھی بچوں کے ادب کے لیے اچھا اضافہ ہے۔
پاکستان میں بچوں کے لیے ڈرامے اور پروگرام لکھنے والوں میں عملی کام کی وجہ سے سب سے زیادہ شہرت ’’فاروق قیصر عرف انکل سرگم‘‘ کو ملی۔ ان کا پروگرام ’’کلیاں‘‘ کافی عرصہ تک بچوں کا سب سے پسندیدہ رہا۔ انھوں نے پُتلیوں کے ذریعے بچوں کے بے شمار پروگرام اور ڈرامے لکھے۔ ان کے بعض کردار آج بھی بچوں کو یاد ہیں مثلاً انکل سرگم، رولا، ماسی مصیبتے۔ اسی طرح بچوں کے پروگراموں اور ڈرامہ کے لیے فاطمہ ثریا بجیا کا نام بھی آتا ہے۔
ڈرامہ نگاروں میں امتیاز علی تاج، نورالہٰی محمد، ہر چند اختر، ڈاکٹر عابد، مرزا ادیب، عبدالغفار مدھول، اظہر افسر وغیرہ شامل ہیں. اس کے علاوہ بچوں کے ڈرامے ’’بہادر علی‘‘ اور ’’عینک والا جن‘‘ نے کمال شہرت پائی۔
بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں میں راشد الخیری، سراج انور، کرشن چندر، انور عنایت اللہ، عزیز اثری، نظر زیدی، لطیف فاروقی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ان میں سے راشد الخیری نے خصوصاً بچوں اور بچیوں کے مسائل اور دکھوں کی عکاسی کرکے ’’مصورِغم‘‘ کا لقب پایا۔ ان کی کتب میں ”سمرنا کا چاند، صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی، نوحہ زندگی، حیات صالحہ، آمنہ کا لعل، بنت الوقت، سیدہ کا لعل، نانی عشو‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ایک نام امتیاز علی کا شامل کیے بغیر بچوں کے ادب کی تاریخ شاید نا مکمل رہ جائے. انھوں نے بچوں کے لیے سو سے زائد کتب تخلیق اور مرتب کیں اور خود اپنے ادارے سے انھیں شائع کر کے بچوں کے ادب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا۔
بچوں کے لیے اکیسویں صدی میں لکھنے والوں اور نام کمانے والوں میں ابصار عبدالعلی، افق دہلوی، علی عمران ممتاز (دو بارصدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں اور تقریباً ایک عشرے سے زائد عرصہ سے بچوں کے لیے ماہ نامہ ’’کرن کرن روشنی‘‘ شائع کر رہے ہیں ان کی کتابوں میں ’’روشن روشن میرا دیس اور نور کامل صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں جب کہ ان کی کتاب ’’پیارے اللہ جی‘‘ کو خاصی پذیرائی مل چکی ہے)، امان اللہ نیر شوکت (ان صاحب نے تو اپنی زندگی ہی بچوں کے ادب کے لیے وقف کر رکھی ہے یہ پچھلے چار پانچ عشروں سے زائد عرصہ سے بچوں کے لیے شاعری اور نثر لکھ رہے ہیں. ان کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں، اس کے علاوہ ماہ نامہ ”بچوں کا پرستان‘‘ بھی شائع کر رہے ہیں)، محبوب الہی مخمور (محبوب صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ماہ نامہ ”انوکھی کہانیاں‘‘ کے مدیرِاعلی ٰ ہیں. ان کی تقریباً ایک درجن کے قریب کتب مختلف اداروں سے ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں. اس کے علاوہ ان کا ادارہ ’’الہٰی پبلیکیشنز‘‘ دیگر کتب کی اشاعت کے علاوہ بچوں کے ادب کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہا ہے جو اب تک مختلف ادبا کی بچوں کے لیے سو سے زائد کتب شائع کر چکا ہے) وغیرہ شامل ہیں.
میں ’’دعوۃ اکیڈمی، شعبہ بچوں کا ادب‘‘ کے سربراہ جناب ڈاکٹر افتخار کھوکھر کو بابائے ادب اطفال کہنے میں ذرا بھی عارمحسوس نہیں کرتا کیوں کہ ان کی بچوں کے ادب کے حوالے سے بیش بہا خدمات ہیں. ان کی ایک کتاب ’’روشنی کا سفر‘‘ شائع ہوئی جو بچوں کے ادب کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ اس میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے بے شمار رسائل، تنظیموں اور کتب کا تذکرہ ملتا ہے جس سے بچوں کے ادب کی تاریخ لکھنے اور اسے محفوظ کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے. نہ صرف یہ بلکہ یہ کتاب بچوں کے ادیبوں کے لیے ایک راہنما سے کم