پاکستان میں اچھے اور شاندار لوگوں کی کمی نہیں ۔
کل میں پریشان تھا پاکستان کا گرے لسٹ میں آنے پر ۔ دو بلاگ لکھ ڈالے ۔ دونوں اصل میں امید کی کرن تھے ، لیکن میرے استادوں نے اسے مایوسی کا پیغام کہا ۔ ایسا نہیں ۔
میں صرف دو باتیں کرتا ہوں اور ان پر قائم ہوں اور کٹہرے میں بھی اُن کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ نمبر ایک کہ ، پاکستان کی سمت ہی درست نہیں ۔ نمبر دو کہ ، ہمارے حکمرانوں نے دانستہ طور پر سمجھ بُوجھ ہوتے ہوئے یہ گناہ کیا اور کرتے جا رہے ہیں ۔ وہ اپنی اس پاک دھرتی سے عہد کی مسلسل بے وفائ کر رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کو آگ میں دھکیل رہے ہیں ۔ پاکستان کہ مسائل تو کچھ بھی نہیں ۔ اتنی زیادہ ریسورسز والا خطہ ، کیا کمال کا جغرافیائی محل وقوع ۔ کیا کمال کہ لوگ ۔ لیکن ہم حکمرانوں نے شیطانی کام کرنے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ نہ خود اچھا کرنا ہے نہ دوسروں کو کرنے دینا ہے ۔
میں نے ایک ٹویٹ کی کہ ارشد مرزا بدمعاش ہے کیونکہ گیرثن سٹی سے ہے اس لیے آخیر کی غنڈہ کردی کرتا ہے ۔ اربوں ڈالر کا کھابا لگایا اس نے تیل کی منسٹری سے ۔ رشتہ دار فوج میں بھی ہیں ، عدلیہ میں بھی اور سیاستدانوں میں بھی ۔سر عام کہتا ہے چوہان کو کہ دو پُٹ لو جو پُٹنا ہے ۔ ہمارے اور کلاسرا صاحب کہ پریشر پر ہٹایا تو گیا مگر میڈیا کا انچارج لگا دیا ۔ چلو وہاں دیہاڑی بھی لگاؤ ، طبلہ بھی بجاؤ اور دانشور بھی کہلواؤ ۔ شیما کرمانی اور نگہت چوہدری کا ڈانس کروانا ، چار ہیسے خود بھی بنانا اوروں کو بھی بنا کہ دینا ۔ نیب میں تاجور بیٹھا ہے سر پر ایک مربع میل کا محراب ماتھے پر سجائے ، کسی بابو کو اندر نہیں ہونے دے گا ۔
ارشد کی جگہ ، یوسف کھوکھر کو لگایا ہے ، ایک انتہائ شریف النفس اور قابل انسان ۔ لیکن کیا اس کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے گا ؟ مسئلہ تو یہ ہے ۔ حکمران تو اسے پسند کرتے ہیں جو ان کو بھی کما کہ دے اور خود بھی ہاتھ رنگے اس گند میں ۔ زاہد سعید ، فواد ، توقیر اوراحد چیمہ جیسا ۔ ہر ادارے میں زبردست لوگ موجود ہیں جس طرح سپریم کورٹ میں اعجاز الحسن ، جے آئ ٹی کہ ممبر ۔ اور پانی کہ سیکریٹری خواجہ شمائیل ۔ کس طرح اس اکیلے نے ولڈ بینک میں ڈیموں کہ پیسے کہ لیے لڑائ لڑی ۔ اشتر اوصاف تو گھٹنے ٹیک گیا تھا ۔ میڈیا کو چاہیے تھا اس کی تعریف کرتے ۔ اچھے لوگوں کا حوصلہ بلند کریں ۔ وہ فقیر آدمی ہے ، شہرت کا شوقین نہیں ۔ یہاں امریکہ بھی آیا کام کی وجہ سے مجھے بھی نہیں مل سکا ۔ خالد اخلاق گیلانی ایک اچھا افسر ریٹائر ہوا اسے الیکشن کمیشن کا سیکریٹری لگاتے الیکشن ہی صاف ہو جاتے یا تا حیات آصف باجوہ کی جگہ statistics division میں ۔
یہاں امریکہ میں پاکستان کہ نمائندوں کے شاہانہ اسٹائل دیکھیں ۔ مدیحہ لودھی شوفر driven گاڑی میں مینہیٹن پھرتی ہے اور وہ بھی BMW 8 سیریز ، اور رات کو کہاں ہوتی ہے وہ ایک الگ داستان ہے جو نیو یارک میں مقیم ہر پاکستانی کو پتہ ہے ۔ انہوں نے پاکستان کا کیس لڑنا ہے ؟ پاکستان کی حکومت نے اسے مینہیٹن میں ۳۰۰۰۰ ڈالر مہینے کرائے اپارٹمنٹ لے کہ دیا ہوا ہے ۔ جب شاہد خاقان عباسی جاتے ہوئے کشمیر آزاد ہونے کا نوٹیفیکیشن کر گیا تو مدیحہ یہاں کیا کر رہی ہے اس کا کام تو صرف UNO میں کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ اٹھانا تھا ۔ اگلے دن جب اس کی باری آئ فلسطین کہ مسئلہ میں تو Nikki Haley یہ کہ کر واک آؤٹ کر گئ کہ madam is sleeping . میرا برجستہ کمینٹ تھا کہ madam is too old now to advance Pakistani viewpoint
ایک ڈرامہ رچایا ہوا ہے باہر مقیم عہدیداروں نے ۔ ہم بندے نہیں گن سکے ۔ ہم الیکشن شفاف نہیں کروا سکے ۔ ہم ڈالر کو ۱۵۰ پر لے گئے ۔ آخر کیوں ؟ ہم چاہتے ہیں نہیں ۔ میں نے ۲۰۱۲ میں چیف منسٹر پنجاب اور چیف سیکریٹری کو لکھا تھا کہ میں آپ کو انہیں specs والا لیپ ٹاپ ۱۷۵۰۰ میں دیتا ہوں ۔ رحمت علی راضی نے نوائے وقت میں میری آفر بھی چھاپی ۔ مجھے جواب تک نہیں دیا اور ۳۸۰۰۰ پر لیپ ٹاپ بدستور لیتے رہے ۔ بتائیں اس میں پاکستانیوں کا قصور کیا ہے ؟ ۔ یہ بدمعاش زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ لوگ ہیں ان کو کسی سمندر میں پھینکے ، پھانسیاں لگائیں یا کالا پانی بھجوائیں ملک ایک ہفتہ میں ٹھیک ہو جائے گا ۔ وگرنہ یہ رنڈی رونا تا قیامت چلتا رہے گا ۔ جون ایلیا یاد آ گئے ۔ میرے لیے امریکہ میں بیٹھے یہ فکر کچھ اسی طرح ہے۔
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔