یکم مئی کو "انٹر نیشنل لیبر ڈے" کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
اس دن کا پس منظر کچھ ایسا ہے کہ 1886 "شکاگو" میں مزدور اپنے حقوق ، اجرت ،اوقات کار اور دیگر مطالبات کر رہے تھے۔
پھر haymarket قتل عام میں ایک شخص نے پولیس پر بم پھینک۔ا اس کے نتیجے میں پولیس اور ورکرز میں لڑائی ہوگئی۔ فائرنگ میں کچھ مزدور بھی مارے گئے۔
پیٹر جے(Peter j -mc Guire)کار پینٹر اور لیبر یونین کا لیڈر بھی تھا۔ شکاگو واقعہ پر اس نے سوچا کہ امریکہ کے کارکنوں کو عزت اور وقار دیا جاۓ۔ کیونکہ اس میں ہر عمر کے لوگ خصوصاً غریب بہت غیر محفوظ تھے اور ان کے حقوق بھی استحصال ہو رہے تھے۔
امیگریشن والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ایسے خستہ حالات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ جس میں کئی پولیس والے اور ورکرز بھی قتل ہوۓ۔ان سے احساس ہمدردی اور ان کی اہمیت کا ایک خاص دن ہر سال منایا جاۓ۔جس کے نتیجے میں پہلے امریکہ اور اب تقریباً پوری دنیا "لیبر ڈے" مناتی ہے ۔
پاکستان "انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن" کا ممبر ہے ۔
پاکستان کی بات کی جاۓ تو ادھر غربت،بے روزگاری،مہنگائی،حقوق کا استحصال اور لوٹ مار جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان میں بھی "لیبر ڈے" پبلک ہولی ڈے ہوتا ہے۔
اس دن کو بڑے اچھے انداز میں منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں جلسے،جلوس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مختلف بینرز اور نعرے لگاۓ جاتے ہیں ۔
"یکم مئی" مزدور کے حوالے سے اخباروں کی سرخی بنا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا ٹیلی وژن پر پروگرامز چلاۓ جاتے ہیں ۔سیاسی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔
سیاسی کارکن کا جوش و جزبہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب تو مزدور کو حق دلاوا کر ہی رہیں گے۔
جیسے کل سے مزدوروں کو ان کے حقوق ان کی دہلیز پر مل جائیں گے۔ پر ایسا نہیں ہوتا رات گئی بات گئی والی صورتحال بن جاتی ہے۔
نیا دن نئی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔
پرانی تقاریر اور ریلیوں سے کم از کم "شکاگو" کے مزدوروں نے جو جان کے نظرانے پیش کیے وہ تو ضائع ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ کہ صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے ۔
ایک تلخ حقیقت ہے کہ مزدور کو اس کے پسینے کی قیمت برابر بھی اجرت نہیں ملتی۔ زیادہ تر لوگ کم اجرت اور زیادہ دیر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
کیونکہ بےروزگاری ہی اتنی ہے کہ انسان سوچتا ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
کسان بھی ایک طرح کا مزدور ہے دن رات ،سردی گرمی دیکھے بغیر کھیتوں میں کام کرتا ہے۔
کسان اناج اگاتا ہے۔ پورا ملک کھاتا ہے پر اس کی محنت کی قیمت اتنی کم ہوتی ہے کہ اپنے خوابوں کی تکمیل نہیں کر سکتا۔
اس سال 2020 میں یکم مئی اس جوش و جزبے سے نہیں منایا جاۓ گا۔ جس کی اہم وجہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا وبائی مرض کورونا ہے۔
اس کی وجہ سے کمزور اور غریب طبقہ جو دہاڑی لگا کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا بہت متاثر ہوا ہے۔
کیونکہ پوری دنیا نے لاک ڈاؤن کہیں جزوی اور کہیں مکمل لگا رکھا ہے۔
اس کا ترقی یافتہ ممالک پر تو زیادہ اثر نہیں لیکن ترقی پزیر پاکستان اور اس جیسے کئی اور ممالک پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
اگر پاکستان کو دیکھیں تو ہماری زیادہ آبادی کا انحصار مزدوری اور چھوٹے کاروبار پر ہے۔ جوکہ احتیاطی تدابیر کی بنا پر 14 مارچ سے تقریباً بند ہیں۔ لوگ گھروں پر بیٹھے ہیں ۔کوئی نہیں جانتا اور کتنا صبر کرنا پڑے گا۔
اگرچہ "وزیر اعظم پاکستان عمران خان" نے "احساس پروگرام" متعارف کروایا ہے ۔لیکن ابھی تک بہت کم تناسب سے لوگ اس سے مستفید ہوۓ ہیں ۔
ایسے حالات میں دعا اور امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔
جیسا کہ قرآن پاک میں بھی فرمان الٰہی ہے ۔
‘بے شک ہر مشکل کے ساتھ آ سانی ہے’
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...