بنگلہ دیش کے معروف فکشن نگار مرحوم شوکت عثمان کا ناول 'جننی' ١٩٥٨ء میں شائع ہوا تھا، تب وہ بنگلہ دیشی نہیں ہوئے تھے پاکستانی ہی تھے، لیکن ان کے ناول کا اردو ترجمہ کرنے کا خیال اس وقت کسی کو نہیں آیا ۔اور اردو ترجمے کا خیال 'مشعل لاہور' کو ١٩٩٦ء میں جب آیا بھی تو ترجمہ بجائے ناول کی اصلی زبان بنگالی سے کرانے کے ناول کے انگریزی ترجمے سے کرایا ۔شاید اب پاکستان میں بنگالی جاننے والے، جو ترجمہ کر سکیں، نہیں ہیں یا ہیں تو ترجمہ کرتے نہیں ہیں۔اردو میں یہ ناول ترجمے کا ترجمہ ہے، اور عموماً ترجمے کا ترجمہ اوریجنل تحریر کے رس کو پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے، لیکن اس ترجمے کی یہ خوبی ہے کہ پڑھنے والے اس میں بنگالی تہذیب، سماج اور دیہات کی خوشبو کو محسوس کر سکتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ ناول کے کرداروں کے ساتھ خود چل پھر رہے اور ان کے سکھ دکھ میں شریک ہو رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا نے ترجمہ کمال کا کیا ہے ،لیکن پروف کی غلطیاں ان کے ترجمے کی خوبیوں پر بعض اوقات پانی پھیر دیتی ہیں ۔ناول کا بنگالی نام 'جننی' ہے، انگریزی میں بھی اسی نام سے ترجمہ کیا گیا ہے لیکن مترجم نے اردو میں ناول کا نام 'دریا بی بی' رکھ دیا ہے جو اس ناول کا ایک مرکزی کردار ہے ۔حالانکہ لفظ 'جننی' اردو والوں کے لیے بھی عام فہم ہے ۔جننی لفظ جننے یعنی جنم دینے والی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے اس کا مطلب زمین اور عورت بھی ہوتا ہے۔ اس ناول میں جننی دریا بی بی ہے۔
دریا بی بی بقول مترجم ایک حساس اور مضبوط عورت کا کردار ہے ۔اس ناول کے پڑھنے والے یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اگر یہ سچ ہے تو اس وقت دریا بی بی کیوں کمزور پڑ گئی تھی جب رات کی تنہائی اور تاریکی میں یعقوب اسے دبوچتا ہے؟ سوال مناسب ہے لیکن اس کا جواب دریا بی بی کے کردار کی مضبوطی پر حرف آنے نہیں دیتا ہے۔دریا بی بی کی زندگی میں تین مرد آتے ہیں، ایک اس کے بیٹے مناظر حسین کا باپ، جو کھاتے پیتے کسان خاندان کا فرد تھا، تین ہل چلتے تھے لیکن ایک دن سانپ کے کاٹے سے وہ مر جاتا ہے، سسر پہلے ہی فوت ہو چکا ہے لہٰذا شرعاً اس کا بیٹا ورثے سے محروم قرار پاتا ہے اور وہ لڑ جھگڑ کر اپنے مائکے چلی آتی ہے ۔مناظر اس کی سسرال ہی میں رہ جاتا ہے ۔بس، پہلے شوہر کے ساتھ رہنے کی اتنی ہی کہانی ہے ۔دوسرا شوہر اظہر خان ہے، جس سے وہ تین بچوں امجد، نعیمہ اور شریفن کو جنتی ہے ۔سارا ناول دریا بی بی اور اظہر کے ارد گرد گھومتا ہے ۔کھیت، بکری اور گائے کا باڑہ، نعیمہ کی کمزور بینائی، امجد کی پڑھائی سے عدم دلچسپی اور اظہر کا بار بار بغیر دریا بی بی کوبتائے سنہرے مستقبل کی چاہ میں گھر سےنکل جانا اور مہینوں غائب رہنا اور سارے دکھ سکھ دریا بی بی کے دامن میں چھوڑ جانا، اس ناول کو آگے بڑھانے کے تانے بانے ہیں ۔شوکت عثمان گاوں ،دیہاتوں کی غربت اور بے رس زندگی کو غیر جذباتی ہو کر پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں ۔ دریا بی بی کی زندگی میں آنے والے تیسرے مرد یعقوب کے منظر پر آنے سے پہلے کئی کردار اور گاوں کی زندگی کے کئی واقعات سامنے آتے ہیں، چندر کوتل کا کردار بڑا دلچسپ ہیں، کھیتوں میں محنت کرنے والا، مچھلیاں فروخت کرکے روزی روٹی کمانے والا، غریب قلاش مگر زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھنے والا۔سوانگ کمپنی بھی اس کی زندگی کا ایک حصہ ہے ۔اور اظہر خان بھی، لیکن جب گاوں کے دو امیر، ایک ہندو اور ایک مسلمان اپنی شان قائم رکھنے اور زمینوں پر قبضے کے لیے سماج میں فرقہ وارانہ زہر گھولتے ہیں تو ہنس مکھ چندر کا دل و دماغ بھی کچھ عرصہ کے لیے مسموم ہوجاتا ہے ۔مگر اس کی جفا کش بیوی ایلوکشی اس زہر سے بچی رہتی ہے ۔ایک کردار کم ذات کی عورت شیرامی کا بھی ہے جو دوسروں کی عزت کو بڑی اہمیت دیتی ہے ۔اور ہاشو کا کردار ہے جو لٹھیت شاکر کی اپنی اولاد کے لیے تڑپتی کم عمر بیوی ہے۔اور بھی کردار ہیں ۔گاوں کے دو مالدار مسلمان جو اپنے کرتوتوں پر تقویٰ کا پردہ ڈالنے کے مسلکی تفرقہ پھیلانے سے گریز نہیں کرتے ۔یہ سب کردار اور واقعات دریا بی بی اور اظہر خان کی زندگی پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔لیکن ناول ایک نئے موڑ پر اس وقت پہنچتا ہے جب یعقوب کا دریا بی بی کے گھر آنا جانا شروع ہوتا ہے ۔یقوب مالدار ہے، دو بیویوں کا شوہر ہے، ایک بیٹے کا باپ ہے لیکن اس کی زندگی خوشیوں سے عاری ہے ۔وہ اظہر خان کا رشتے کا بھائی ہے لیکن اظہر اسے اس کی عادتوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتا ہے ۔وہ دریا بی بی کے گھر جب بھی آتا ہے مٹھائیاں، مچھلیاں اور گوشت وغیرہ لاتا ہے، دریا بی بی پر اس کی نظر ہے مگر اس کے مضبوط کردار کے سامنے اس کی ہمت ہمیشہ جواب دے جاتی ہے، لیکن اظہر کی موت کے بعد وہ ایک دن دریا بی بی کو دبوچ لیتا ہے ۔اقتباس ملاحظہ کریں :'' پھر اچانک وہ جاگ گئی ۔دریا بی بی کو لگا کہ کوئی اسے اس طرح بھینچ رہا ہے کہ چورا چور کر ڈالے گا ۔اس نے آنکھیں کھولیں تو یعقوب کو دیکھا۔اس نے تو بانس کا دروازہ پٹ کھلا چھوڑ دیا تھا مگر اب وہ بند تھا۔دریا بی بی کا سارا بدن جیسے ٹھنڈا پڑ گیا اسے صرف اتنا احساس تھاکہ کسی اور کی گرم سانس اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔اس نے آٹھ کے بیٹھنا جاہا، مگر دوسرے شخص کی گرفت اسے شکنجے میں کسے ہوئے تھی۔اپنی مجبوری و بےکسی میں وہ چپ رہی اور پھر اس نے آنکھیں نہ کھولیں ۔جیسے وہ اندھی ہو گئی ہو، اور ساری دنیا گھور اندھیرے کی لپیٹ میں ہو۔''
سوال ہے کہ وہ دریا بی بی جو اپنے، اپنے بچوں اور اپنی عزت نفس کے لیے سب سے لڑ جاتی تھی، اپنے شوہر سے بھی، جسے زندگی کی کسمپرسی اور رسم و رواج کی بے بسی بھی نہیں کچل پاتی وہ یعقوب کے سامنے بےکس اور مجبور کیوں ہوئی؟ اس سوال کا جواب سوال ہی ہے، کیا شوہر کی موت نے اسے کمزور کر دیا ہے؟ یا کیا یہ بے بسی اور بے کسی اپنی اولاد کے لیے ہے؟ وہ یعقوب کی مہربانیاں بچوں ہی کے لیے تو برداشت کرتی ہے، اور پہلے شوہر کے بیٹے مناظر کو پڑھانے کے لیے ہی تو وہ یعقوب سے پیسے لینے پر آمادہ ہوتی ہے ۔تو کیا یہ بے عزتی وہ اولاد کے لیے برداشت کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب بظاہر تو 'ہاں' ہی ہے ۔یعقوب کی حرکت اسے ایک نئے عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے ۔وہ حاملہ ہو جاتی ہے لیکن اسے وہ لوگوں سے چپا لیتی ہے ۔اپنے جسم پر وہ کپڑے لپیٹ لیتی ہے لوگ سمجھتے ہیں شوہر کی موت کے بعد اس کا بدن سوج رہا ہے ۔اور پھر ایک رات وہ جو زچہ ہے اپنی دائی بن جاتی ہے، بچے کو جن کر وہ خود کو پھانسی لگا کر موت کی نیند سو جاتی ہے ۔سوال ہے کہ وہ بچے سے پہلے ہی کیوں چھٹکارا نہیں پا لیتی یا بچے کی ابتداء ہی میں کیوں اپنی جان نہیں لے لیتی؟ شاید اس لیے کہ وہ 'جننی' ہے، جنم دینے والی جان لینے والی نہیں۔دریا بی بی کا پھانسی لگانا ایک مضبوط کردار کے عین منافی ہے لیکن اس ناول کا ایک منظر شاید اسے پھانسی کے لیے اکساتا ہے۔ایک شب جب یعقوب دریا بی بی کے گھر ہوتا ہے، وہ اپنے کمرے سے باہر نیند نہ آئے کے سبب نکلتی ہے تو ایک سایہ بڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیتا ہے، وہ یعقوب ہوتا ہے ۔دریا بی بی گھبرا جاتی ہے اتنے میں اس کے بڑے بیٹے مناظر کی آواز آتی ہے کہ یہ کون ہے؟ سایہ کھس جاتا ہے، دریا بی بی جواب دیتی ہے کہ کوئی نہیں ہے ۔صبح جب وہ اٹھتی ہے تو پتہ چلتا ہے مناظر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔قارئین یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا مناظر یعقوب کو پہچان گیا تھااور اپنی ماں کے تئیں اس کے دل میں نفرت پیدا ہو گئی تھی، اسی لیے وہ چلا گیا؟ تو کیا دریا بی بی نے جان اسی اولاد کی خاطر دی جن کی خاطر اس نے بے عزتی کا داغ اٹھایا تھا؟ اس سوال کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ وہ چونکہ جننی تھی اس لیے اپنے پیٹ میں پل رہے بچے کو نہ مارنا چاہتی تھی اور نہ اس کی پیدائش سے پہلے خود مرنا چاہتی تھی۔اقتباس ملاحظہ کریں :'' مچان پر کھڑے ہو کر دریا بی بی نے چھت کی کڑی میں رسی باندھی ۔وہ صرف ماں اور دایہ ہی نہ تھی وہ ایک جلاد بھی تھی ۔وہ بچے کی طرف پلٹی وہ ابھی تک سو رہا تھا ۔ایک لڑکا۔چپکے چپکے اسے دو چار پیار کرکے وہ کھڑی ہو گئی ۔… دریا بی بی نے پھندے کو دیکھا ۔روز بھر کی تھکن اور پریشانیوں کو سولی دے کر خود چین سے سو جانا چاہتی تھی۔''
یہ ایک اچھا ناول ہے، اس کا مطالعہ شوکت عثمان کے دوسرے ناولوں کے مطالعے کے لیے اکساتے ہیں۔یہ ناول پاکستان میں لکھا گیا اب یہ بنگلہ دیشی ناول ہے۔مصنف کا ایک ناول '' غلام کا قہقہہ '' ایوب خان کی آمریت کے خلاف تھا، اسے پاکستان رائٹر گلڈز کا انعام ملا تھاجو یہ معلوم ہونے کے بعد کہ ناول حکومت کے خلاف ہے واپس لے لیا گیا تھا ۔پتہ نہیں اس ناول کا اردو ترجمہ ہوا ہے یا نہیں!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...