غالبا” دو ہزار بارہ یا تیرہ کی بات ہے۔ میں نبجی فیصل آباد میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ نیچے تصویر میں نظر آنے والے ڈاکٹر طارق صاحب بھی نبجی کے ہی پرانے طالبعلم ہیں۔ ایم فل نبجی سے کرنے کے بعد جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاک کے سلسلے میں تقریبا” آٹھ دس برس گزار کر انہی دنوں پاکستان واپس لوٹے تھے۔
ان کی پی ایچ ڈی تحقیق epigenetics پر ہے۔
Epigenetics سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں یہ مطالعہ کیا جاتا ہے کہ کسی بھی جاندار کا ماحول اور زندگی میں درپیش آنے والے واقعات اس کے ڈی این کی بنیادی ساخت کو تبدیل کئے بغیر ڈی این اے میں کچھ ایسی کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں جس سے جاندار کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر سویڈن کے کچھ علاقوں میں غالباً سو ڈیڑھ سو سال پہلے ایک قحط پڑا۔ قحط زدہ علاقوں میں رہنے والوں کی تیسری نسل کا جب مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ کمزور ہیں، موٹاپے کا شکار جلدی ہو جاتے ہیں اور ان میں کانفیڈنس بھی کم ہوتا ہے بنسبت ان علاقے کے لوگوں کی اولاد کے جہاں قحط نہیں پڑا تھا۔ یعنی تیسری نسل جو کبھی قحط کی صورتحال سے براہ راست متاثر نہیں ہوئی، اس پر بھی قحط کے اثرات پڑے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ قحط کے ماحول نے ان لوگوں کے ڈی این اے کی بنیادی ساخت کو تبدیل کئے بغیر اس کے اوپر کچھ مخصوص کیمیکل تبدیلیاں پیدا کردی تھیں جس کی وجہ سے ان کی تیسری نسل تک متاثر ہوئی۔ بہرحال یہ شاخ ابھی بہت ابتدائی سطح پر ہے اس لئے ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ epigenetics نے nature or nurture کا پرانا سوال حل کر دیا ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس نے راہ دکھائی ہے کہ کیسے ہمارے اردگرد کا ماحول ہمارے جسم اور شخصیت پر بذریعہ ڈی این اے میں کیمیکل تبدیلیوں کے بھی اثر ڈال سکتا ہے، اور یہ کہ کیسے یہ تبدیلیاں اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہو سکتی ہیں۔
تو ڈاکٹر طارق صاحب کا قصہ یہ ہے کہ یہ ان دنوں نبجی میں لیکچر دینے آئے۔ اپنے لیکچر میں انہوں نے اپنی سائنسی تحقیق پر بات کی یا نہیں، یہ تو یاد نہیں لیکن جو یاد ہے وہ یہ کہ ان صاحب نے ملک کے چوٹی کے سائنسدانوں سے بھرے ہال میں یہ بتانا شروع کیا یہ لاہور کے ڈاکٹروں سے مل کر ایک تحقیق کر رہے ہیں۔ تحقیق کا موضوع یہ ہے کہ کیسے قاری باسط اور دیگر خوش گلو قاریوں کی آواز مریضوں کے صحت یاب ہونے کی رفتار اور ان کی عمومی صحت پر اثر ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ چارٹ بھی دکھائے اور ان کی مدد سے یہ ثابت کیا اس کا بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔ یوں انہوں نے دعوی کیا کہ ہم نے سائنسی طریقے سے قرآن کے طبی فوائد ثابت کر دیے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن کی تلاوت سننے سے ہم میں مثبت epigenetic تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
میں بھلا کہاں چپ رہ سکتا تھا۔ سوال جواب کی باری آئی تو میں نے اجازت لے کر پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا آپ نے مریضوں کو اچھے اور ان کے پسندیدہ گلوکاروں کی آواز میں گانے سنوائے ہیں، یا کسی غیر مسلم کو سورہ یسین سنوا کر اس کے اثرات جانچے ہیں، یا پھر کسی بدگلو قاری کی آواز میں قرآن کی تلاوت سنوائی ہے۔ جواب یقیناً نہیں تھا۔ جس پر میں نے جواب دیا کہ پھر آپ اس تحقیق کو سائنسی نہیں کہہ سکتے۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑا جزبز ہوئے، پورے ہال میں چہ مگویاں شروع ہوئیں، ایک ڈاکٹر صاحبہ نے میرے موقف کی ہلکی پھلکی تائید بھی کی۔ لیکن بات بس یہیں ختم ہوگئی۔
اس کے بعد ان ڈاکٹر صاحب سے زندگی میں کئی بار ٹاکرا ہوا۔ ہر بار ان کے رویے سے یہی محسوس ہوا کہ انہیں وہ واقعہ اچھے سے یاد ہے۔ بلکہ ایک دو مواقع پر غالباً انہوں نے اپنی خار مجھ پر نکالی بھی (زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا)
آج ان کو اس حالت میں دیکھ کر افسوس بھی ہوا کہ تشدد کی کسی صورت کا میں حمایتی نہیں ہوسکتا۔ لیکن دل میں ایک اطمینان ہے کہ آج تک جس کو برا سمجھا ہے وہ برائی کا پورا پیکج ہی نکلا ہے۔ ان ڈاکٹر صاحب جیسے اساتذہ ہی وجہ ہیں کہ آج ہماری نوجوان نسل اور تعلیمی معیار کا یہ حال ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...