پو پھٹنے سے لے کر سورج نکلنے تک کا وقت عجیب و غریب ہوتا ہے۔ سکوت، سکوت میں پرندوں کی چہچہاہٹ، دروازوں پر کرنوں کی دستک ۔ اُس نے تلاوت ختم کی تو آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ حج کی مٹھاس ابھی تک دل کی زبان پر تھی۔ اُس نے ایک سرد آہ کھینچی ”میرا دل کر رہا ہے کہ میں عمرہ کروں“ وہ قریب ہی بیٹھا تھا، بیوی کی سرد آہ اُس نے سُنی اور حسرت بھی۔ اُسی دن دوپہر کو وہ ٹریول ایجنٹ کے پاس پہنچ گیا۔ ”مجھے عمرہ کےلئے دو ٹکٹ چاہئیں، اپنا اور بیوی کا۔ ہم کل ہی روانہ ہونا چاہتے ہیں۔“
”کیا آپکے پاس عمرہ کے ویزے ہیں؟“ ٹریول ایجنٹ نے پوچھا۔
اُسے غصہ آ گیا۔ ”ہمیں کسی ویزے کی ضرورت نہیں، ہم نے اللہ کے گھر میں جانا ہے اور رسول کی چوکھٹ پر حاضری دینا ہے۔ یہ ہمارا حق ہے۔ اس میں ویزے کہاں سے آ گئے؟“
ٹریول ایجنٹ نے بات سُنی اور مسکرایا، اُس نے چائے منگوائی اور آرام اور پیار کے ساتھ سمجھانے لگا ”چودھری صاحب! آپکی بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے باوجود صحیح نہیں۔ دنیا کے سارے ملک قانون کے سہارے چل رہے ہیں، یہ درست ہے کہ آپ کو اللہ کے گھر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن سعودی قانون کی رو سے آپ کو ویزا درکار ہو گا، اگر میں آپ کو ویزے کے بغیر ٹکٹ دے بھی دوں اور جہاز آپکو لے بھی جائے تو آپ کو جدہ ائر پورٹ سے واپس بھیج دیا جائےگا۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصہ جیل میں بھی رکھیں، پھر ویزا لےکر بھی آپ ایک مخصوص مدت کےلئے ہی جا سکتے ہیں اور عمرہ یا حج کے ویزا پر آپ وہاں کوئی ملازمت بھی نہیں کر سکیں گے۔ صرف یہی نہیں، سعودی قانون یہ بھی ہے کہ آپ انفرادی طور پر عمرہ کےلئے نہیں جا سکتے، آپ کو گروپ کےساتھ جانا ہو گا اور وہاں گروپ کےساتھ ہی رہائش رکھنا ہو گی۔ اگر آپ وہاں الگ اپنی مرضی کی رہائش لینا چاہتے ہیں تب بھی گروپ والی رہائش کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا اور روانہ ہونے سے پہلے یہیں ادا کرنا پڑےگا۔“
آپ کا کیا خیال ہے کیا مسلمانوں پر انکے مقدس ترین مقامات کی زیارت کے حوالے سے پابندیاں عائد کرنا انصاف ہے؟ شاید دنیا بھر میں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہو جو ان پابندیوں کو زیادتی قرار دے، اس لئے کہ ہر ملک کے اپنے قوانین ہیں، اُن قوانین کی پابندی باہر سے آنےوالوں کےلئے لازم ہے۔ بُرے سے بُرا سعودی بھی ائر پورٹ پر کسی کو ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر اندر جانے دےگا‘ نہ ایسے شخص کو اپنے گھر پناہ دےگا! یہی حال دوسرے ملکوں کا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے لےکر مصر تک اور ملائیشیا سے لےکر مراکش تک کوئی ایک اسلامی ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان اسلام کا نام لےکر ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر داخل ہو جائیں اور سالہا سال تک رہیں، یہاں تک کہ وہاں جائیدادیں خرید لیں، شادیاں کر لیں اور ہر وقت مسلح رہیں۔!
تو پھر کیا پاکستان ہی ایسا لاوارث اور گیا گزرا ملک ہے کہ یہاں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال کی سب سے زیادہ ذمہ داری اُن اداروں پر ہے جو سرحدوں اور ہَوائی اڈوں پر کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم اُن اداروں نے اس ملک پر کیا ہے جو چند سکوں کے عوض غیر پاکستانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کر دیتے ہیں۔اخبارات نے بارہا ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے مسلمان، پاکستانی دستاویزات پر حج اور عمرے کرتے ہیں، حج کے موقع پر آپ کو حرمین شریفین میں اکثر و بیشتر ایسے لوگ ملتے ہیں (اور اس کالم نگار کو بھی ملے ہیں) جو پاکستانی نہیں ہوتے لیکن پاکستانی دستاویزات پر تضحیک کےساتھ پھبتیاں کس کس کر دکھاتے ہیں، خیبر پی کے میں پاکستانی بے روزگاری کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن غیر ملکی، پاکستان کے شناختی کارڈوں کےساتھ مزے سے ملازمتیں کر رہے ہیں اور ٹھسّے سے رہ رہے ہیں! تُف ہے اُن راشی اور بدقماش پاکستانی اہلکاروں پر جو چند سکوں کے عوض اپنے وطن کے شناختی کارڈ اور یاسپورٹ بیچ رہے ہیں!
پاکستان کی سرحدیں مقدس ہیں! اگر امریکی ہیلی کاپٹر ہماری سرحدوں کا تقدس پامال کر کے آئے اور خیریت سے واپس چلے گئے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ بالکل اسی طرح کسی سعودی، کسی برطانوی، کسی مصری، کسی مراکشی، کسی چیچن اور کسی ازبک کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سرحدوں کا تقدس اپنے پیروں تلے روندے، ہمارے وطن میں رہے اور وہ بھی مسلح ہو کر! اگر کسی ضیا ءالحق نے مردِ مومن مردِ حق ہونے کے زعم میں غیر ملکی مداخلت کاروں پر اپنی سرحدیں کھولیں تو اُس نے ملک کےساتھ بے وفائی کی اور اگر کسی مشرّف نے دونوں ہاتھوں میں دو کتے پکڑ کر…. امریکیوں کو بغیر کاغذات کے اندر آنے دیا تو اُس نے بھی ملک کےساتھ غداری کی۔ اسی طرح اگر کوئی پاکستانی، غیر قانونی طور پر آئے ہوئے امریکیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو وہ بھی پاکستان کا غدار ہے اور اگر کوئی غیر قانونی طور پر اندر گُھسے ہوئے دوسرے غیر ملکیوں کو خواہ وہ برطانوی ہیں یا عرب، ازبک ہیں یا مصری یا بھارتی…. تحفظ فراہم کرتا ہے تو وہ بھی مادرِ وطن کی بے حرمتی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
آج قاضی حسین احمد فخر کے ساتھ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ ""عرب ممالک نے پاکستان کی حکومت کو
CONDUIT
(پائپ) بنا کر افغان مجاہدین کی مدد شروع کی تھی اور یہ کہ اس دوران بڑی تعداد میں عرب مجاہدین اور عرب شیوخ مذہبی لباس میں اور مخیر تاجروں کے لباس میں پاکستان آئے تھے۔ "" لیکن قاضی حسین احمد اور ان جیسے""محبّان وطن"" یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ یہاں سے واپس نہیں گئے۔ فارن باڈی
(FOREIGN BODY)
انسانی جسم برداشت کر سکتا ہے نہ انسانی آبادیاں…. ہاں اگر کوئی غیر ملکی، صحیح دستاویزات کے ساتھ، ہمارے قوانین کا احترام کرتے ہوئے یہاں رہتا ہے تو سر آنکھوں پر۔ وہ ہمارا مہمان ہے اور اُس کا احترام ہمارا اخلاقی اثاثہ ہے۔لیکن اگر کوئی غیر قانونی طور پر ہماری سرحدی علاقوں میں مشکوک انداز سے رہتا ہے، مسلح ہے، ہماری حکومت اور ہمارے شہریوں کےلئے تکلیف کا سبب بنتا ہے اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کا خواب دیکھتا ہے تو وہ امریکی ہے یا عرب، ہمارے لئے قابل برداشت نہیں ہونا چاہیے!
یہ وہ دور ہے جو پاکستانی عوام کےلئے ان کی تاریخ کا بدترین حصہ ہے۔ گرانی آسمان تک جا پہنچی ہے۔ دیانت دار پاکستانی دو وقت کی روٹی کےلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ زرعی ڈھانچہ فرسودہ ہے، صدیوں پرانا جاگیر دارانہ نظام جاتا نظر نہیں آ رہا، سرداروں نے ملک کے ایک بڑے صوبے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور عام آدمی کو غلام بنایا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں اقتدار کی بندر بانٹ ہو رہی ہے، امریکی ہر طرف دندنا رہے ہیں، دہشت گردوں کے سرغنے کبھی ایک شہر سے پکڑے جاتے ہیں کبھی دوسرے سے، دھماکوں سے پاکستانی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنےوالے علانیہ نقل و حرکت کرتے پھرتے ہیں۔مولانا حسن جان، مولانا نعیمی، ڈاکٹر فاروق احمد اور کئی دوسرے عالم اور دانشور شہید کئے جا چکے ہیں۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی ہمارے کچھ کوتاہ اندیش رہنما پاکستان کے عوام سے زیادہ ارد گرد کے ملکوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہی ان کی سوچوں کا محور ہے۔ آج کے مجبور، مقہور اور مظلوم پاکستانیوں ہی کےلئے تو غنی کاشمیری نے کہا تھا
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشہ کُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
کنعان کے بوڑھے کی حالتِ زار دیکھو، اُسکی آنکھوں کا نور، زلیخا کی آنکھوں کو روشن کرتا پھر رہا ہے!