پاکستان کی نئی حکومت کہ اہداف ۔
صرف تین ۔ پاکستان کی اسکیوریٹی ، فلاح و بہبود اور کڑا احتساب۔ بہت سادہ ۔ ادارے موجود ہیں ۔ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر جُت جائیں ۔ بند کریں سرکس اب ۔
پاک فوج بہت شاندار طریقے سے سیکوریٹی کہ معاملہ کو سنبھال رہی ہے ۔ حالیہ مجرم کی آمد اُس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ rent a crowd طریقہ فیل ہو گیا ۔ اگر میمو گیٹ اور ڈان لیکس نہ ہوتا تو شاید پاکستان کہ اندر سے دہشرتگردی کا مکمل صفایا ہو جاتا ۔ اب وقت ہے کہ میمو گیٹ کہ مرکزی کردار جسکی نشاندہی خود حسین حقانی نے کی ہے ، آصف علی زرداری کو سر عام پھانسی لگائ جائے اور اسی طرح ڈان لیکس کہ مرکزی ملزم نواز شریف کو تختہ دار پر لٹکایا جائے ۔ قدرت نے شاید اسی لیے عمران کو ۲۰۱۳ کا الیکشن نہیں جتایا تھا کہ ہہلے یہ غلاظتیں صاف ہو جائیں ۔ کچھ لوگ ننگے ہو جائیں ۔ اب پاک فوج آزاد ہے ۔ paradigm shift لائے اپنے فوکس پر ۔ نئے اتحادیوں کہ ساتھ کام کرے اور پرانوں کو بھی استمعال کرے ۔ پاکستان انشا ء اللہ ایک بہت بڑی عسکری قوت بن کر اُبھرے گا ۔ الیکٹرانک میڈیا کو بیشک اس سے سینکڑوں میل دُور رکھیں ، جس طرح ٹرمپ نے امریکیوں کو کیبل ٹی وی سے اجتناب کا کہا ہے ۔ صرف سوشل میڈیا on رہنے دیں ۔ اگر ڈٹرٹے فیس بُک سے جیتا تھا تو عمران کو بھی سوشل میڈیا جتا دے گا انشا ء اللہ ، جسے time magazine نے volcano کہا ہے ۔
آتے ہیں فلاح و بہبود کی طرف ۔ پاکستان قدرتی resources سے مالا مال ہے ۔ صرف اچھی پلاننگ اور ایماندار لوگوں کی ضرورت ہے ۔ جیسے ڈیم نہیں ponds یا جھیلیں چاہییں ۔ بجلی تو کئ اور چیزوں سے سستی بن جائے گی ۔ جیسا کہ ڈاکٹر فرخ سلیم نے اپنے حالیہ مضمون میں اشارہ کیا ہے ۔ صحت اور تعلیم کہ محکمے میں انقلاب لائیں ۔ لوگوں کو شعور دیں ، ۲۰۱۸ میں بھی ہمارا لٹریسی ریٹ ۶۰ فیصد ہے ۔ درخت لگائیں، ماحول کو بچائیں ۔ باہر سے پاکستانیوں کی خدمت حاصل کریں ۔ معدنیات نکالیں ۔ تیل اور قیمتی پتھروں کے لیے باہر کی کمپنیوں سے بات چیت کریں ۔ ملک کو ترقی دے جائیں چاہے ڈٹرٹے اور چنوچا کی طرح ڈکٹیٹوریل طریقہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے ۔ ہم نے جمہوریت کو چاٹنا نہیں ۔ اپنا کردار ادا کریں ۔ چنوچا آدھی پریس کانفرنس میں کرسی پر اپنا پورٹریٹ رکھ کر چلا جاتا ہے کہ اب یہ جواب دے گا ۔ طلعت اور اسماء شیرازی جیسے جرنلسٹ سے یہی ہونا چاہیے ۔ رات کو کو سرکس لگتا ہے بے شک اس پر بھی پابندی لگا دیں ۔ عوام بھوکہ مر رہے ہیں ۔ پینے کو پانی نہیں ، علاج کی سہولتیں نہیں ، روزگار نہیں ۔ یہ رات کہ شو امیروں کہ چونچلے ہیں ۔ میرے بیٹے نے بھی پچھلے دنوں کیبل ٹی وی بند کروا دیا ۔ سب کچھ سوشل میڈیا میں ہے ۔ ڈرامے ، فلمیں ، خبریں اور سیاست ۔ میرے جیسے ان پڑھ کہ بلاگ کہ لیے دنیا بھر سے پاکستانی انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کمر کس لیں ، نئے پالستان کی ہم سب آپ کہ ساتھ ہیں ۔
تیسرا بڑا معاملہ احتساب کا ہے ۔ وہ چیف جسٹس اور چیرمین نیب اپنے زمے لیں ۔ جنہوں نے قرضے معاف کروائے ان سے قرضے واپس لیں ۔ لُوٹی ہوئ دولت واپس لائیں ۔ سیاست سے غلاظتوں کو پاک کریں جس طرح آپ نے جہانگیر ترین کو فارغ کیا ہے باقی سب لوگوں کو بھی فارغ کریں ۔ جعلی encounter میں ملوث لوگوں کو پھانسیاں دیں ۔ شہباز شریف اور اس کے حواریوں سے اربوں ڈالر لُوٹا ہوا واپس لیں ۔ کل میں ٹویٹر پر دیکھ رہا تھا کہ چیف جسٹس آپ کو شمع جونیجو نے گالی دی ، کس طرح ہزاروں لوگوں نے اس کی ماں بہن ایک کر دی ۔ لوگ آپ کو چاہتے ہیں ، کچھ کر دکھائیں ۔ سارے پالستانیوں کی نظریں آپ پر لگی ہوئ ہیں ۔ قدرت آپ کہ ساتھ ہے ۔ ہم اتنے تنگ بیٹھے ہیں کہ مسیحا کے لیے دعا کر رہے ہیں جیسے کیفی اعظمی نے
ابن مریم میں آہ و پکار کی ۔
تم خدا ہو
خدا کے بیٹے ہو
یا فقط امن کے پیمبر ہو
یا کسی کا حسیں تخیل ہو
جو بھی ہو مجھ کو اچھے لگتے ہو
مجھ کو سچے لگتے ہو
اس ستارے میں جس میں صدیوں کے
جھوٹ اور کذب کا اندھیرا ہے
اس ستارے میں جس کو ہر رخ سے
رینگتی سرحدوں نے گھیرا ہے
اس ستارے میں جس کی آبادی
بوتی ہے جنگ کاٹتی ہے
رات پیتی ہے نور مکھڑوں کا
صبح سینوں کا خون چاٹتی ہے
تم نہ ہوتے تو جانے کیا ہوتا
تم نہ ہوتے تو اس ستارے میں
دیوتا راکشش غلام امام
پارسا رند راہ بر رہزن
برہمن شیخ پادری، بھکشو
سبھی ہوتے مگر ہمارے لیے
کون چڑھتا خوشی سے سولی پر
جھونپڑوں میں گھرا یہ ویرانہ
مچھلیاں دن میں سوکھتی ہیں جہاں
بلیاں دور بیٹھی رہتی ہیں
اور خارش زدہ سے کچھ کتے
لیٹے رہتے ہیں بے نیا زانہ
دم مروڑے کہ کوئی سر کچلے
کاٹنا کیا وہ بھونکتے بھی نہیں
اور جب وہ دہکتا انگارہ
چھن سے ساگر میں ڈوب جاتا ہے
تیرگی اوڑھ لیتی ہے دنیا
کشتیاں کچھ کنارے آتی ہیں
بھنگ گانجا، چرس شراب، افیون
جو بھی لائیں جہاں سے بھی لائیں
دوڑتے ہیں ادھر سے کچھ سایے
اور سب کچھ اتار لاتے ہیں
گاڑ ی جاتی ہے عدل کی میزان
جس کا حصہ اسی کو ملتا ہے
یہاں خطرہ نہیں خیانت کا
تم یہاں کیوں کھڑے ہو مدت سے
یہ تمہاری تھکی تھکی بھیڑیں
رات جن کو زمیں کے سینے پر
صبح ہوتے انڈیل دیتی ہے
منڈیوں ،دفتروں ملوں کی طرف
ہانک دیتی دھکیل دیتی ہے
راستے میں یہ رک نہیں سکتیں
توڑ کہ گھٹنے جھُک نہیں سکتیں
ان سے تم کیا توقع رکھتے ہو
بھیڑیا ان کے ساتھ چلتا ہے
تکتے رہتے ہو اس سڑک کی طرف
دفن جن میں کئی کہانیاں ہیں
دفن جن میں کئی جوانیاں ہیں
جس پہ اک ساتھ بھاگی پھرتی ہیں
خالی جیبیں بھی اور تجوریاں بھی
جانے کس کا ہے انتظار تمہیں
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
جس کو کوڑوں کی چھاؤں میں دنیا
بیچتی بھی خریدتی بھی تھی
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
جس کو کھیتوں سے ایسے باندھا تھا
جیسے میں ان کا ایک حصہ تھا
کھیت بکتے تو میں بھی بکتا تھا
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
کچھ مشینیں بنائیں جب میں نے
ان مشینوں کے مالکوں نے مجھے
بے جھجک ان میں ایسے جھونک دیا
جیسے میں کچھ نہیں ہوں ایندھن ہوں
مجھ کو دیکھو کہ میں تھکا ہارا
پھر رہا ہوں جگوں سے آوارہ
تم یہاں سے ہٹو تو آج کی رات
سو رہوں میں اسی چبوترے پر
تم یہاں سے ہٹو خدا کے لیے
جاؤ وہ وتنام کے جنگل
اس کے مصلوب شہر زخمی گاؤں
جن کو انجیل پڑھنے والوں نے
روند ڈالا ہے پھونک ڈالا ہے
جانے کب سے پکارتے ہیں تمہیں
جاؤ اک بار پھر ہمارے لیے
تم کو چڑھنا پڑے گا سُولی پر ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔