پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں اردو کا لیکچر تھا۔ پروفیسر ثروت اللہ قادری ’زون‘ میں تھے۔
بھئی کیا نام کہ کسی لکھاری کے قبولِ عام و عوام ہونے کی اس سے بڑھ کر کیا سند ہوگی کہ اس کا کہا کوئی شعر، کوئی مصرعہ، کوئی فقرہ ضرب المثل بن جائے۔
ہم آپ اکثرسنتےہیں کہ بچےہمارے عہد کے چالاک ہو گئے، یہ خوبصورت ترکیب پروین شاکرکامصرعہ ہےاورکیانام کہ پوراشعرذرا ملاحظہ کیجیے
جگنوکودن کےوقت پرکھنےکی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کےچالاک ہوگئے
اب ذری اسی غزل کاایک اورشعردیکھیے
بستی میں سگ گزیدہ جتنےتھےسب کےسب *
دریاکےرُخ بدلتےہی تیراک ہوگئے
آپ کو معلوم ہے کہ ہائیڈروفوبیا، پانی کا خوف کتے کے کاٹنےکے نتیجےمیں پیدا ہونے والی کیفییت ہے۔ سگ گزیدہ کیا نام کہ وہ شخص جسے کتے نے کاٹ کھایا ہو اور دیکھیے غالب نے اسی ترکیب کے ساتھ کیا عمدہ مضمون باندھا ہے
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئنے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اور بات پانی کی آ ہی نکلی ہے تو پروین کا ایک اور خوبصورت شعر دیکھیے، ان کی غزل کا مطلع ہے
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
صاحبو، دسمبر1994کی وہ شام آج بھی یاد ہے جب پاکستان ٹیلیوژن کے خبرنامے میں پروین شاکرکی سناؤنی آئی انٹرمیڈیٹ کے فارغ التحصیل طالبعلم نےاسوقت تک لاھورسے آگے کا پاکستان نہیں دیکھا تھا
لنک
اسلام آبادکےسفرکاستارہ طلوع ہونے اورپروین شاکرکی آرام گاہ پرفاتحہ پڑھنےکے وعدے کووفا ہونےمیں کئ سال لگ گئے
اسلام آباد کے H-8 قبرستان میں جنازہ گاہ والے گیٹ سے داخل ہوں تو تھوڑا آگے پروین شاکر ابدی نیند سورہی ہیں
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
حواشی
ـــ
* یہ غزل پروین شاکر کے مجموعے خوشبو میں شائع ہوئی اور اصل مصرعے میں لفظ سگ گزیدہ نہیں آب گزیدہ ہے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
صاحب ایک تو ہمیں اسوقت علم نہیں تھا اور ہوتا بھی تو استاد کو ٹوکنے کی ہمت بھلا کس میں تھی اورایمان سےبتائیےکہ اگرٹوک دیتےتو غالب کےباندھےدلکش مضمون اورپروین کی ایک اور دلفریب غزل کے تعارف سے محروم نہ رہ جاتے!
مرشدی نےبھی تو آب گم کے شہرِ دوقصہ میں جہاں اپنے استاد ماسٹر فاخر حسین کا ذکر آیا یہ کہہ کر سٹارٹ لیا ہے کہ ’صاحب! اگلے وقتوں کےاستادوں کی شان ہی کچھ اور تھی!‘
اور پھر مطلب کی بات پر آتے ہوئے بشارت کے منہ سے کہلواتے ہیں کہ اپنی فاش غلطی میں بھی عالمانہ شان پیدا کرنے کے لیے غلطی کو تسامح اور التباس کہنا انہوں نے ماسٹر فاخر حسین سے ہی سیکھا۔ نامعلوم کا لفظ استادوں کو شوبھا نہیں دیتا کہ ماسٹر فاخرحسین ہی کے الفاظ میں ہمارے یہاں نامعلوم و ناتحقیق تو صرف ولدیت ہوا کرتی ہے۔ اب ’آب گزیدہ‘ کی جگہ ’سگ گزیدہ‘ اور مصرعے کے الفاظ کا معمولی سا ہیر پھیر پروفیسر ثروت اللہ قادری کا تسامح تھا یا التباس، اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
تھریڈ کے آغاز میں پروین شاکر کی تصویر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انکی طالبعلمی کے دنوں کی ہے اور Flickr ویب سائٹ پر ڈاکٹر غلام نبی قاضی نے بشکریہ ونٹیج پاکستان اسے اپنی کولیکشن میں شامل کیا ہے۔