ناموس رسالت کا مسٔلہ ہو یا مقبوضہ کشمیر پر کمزور موقف یا پھر افغانستان میں امریکی اثرورسوخ کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی امریکہ کے ساتھ معاونت کی بات ہو، پاکستان کی حکومت کی جانب سے ان تمام کی وجوہات مسلسل معاشی مجبوریاں بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن حکومت نے ہی پاکستان کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ساتھ نتھی کیا ہوا ہے جبکہ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں امریکا نے جنگ عظیم دوئم کے بعد اس لیے تشکیل دیا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک کی معیشت، مالیات اور سیاست کو اپنے اثر و رسوخ کے اندر رکھ سکے۔ وہ ممالک جنہیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہوتا ہے آئی آیم ایف ان کی "ادائیگیوں کے توازن"(balance of payment)کو برقرار رکھنے کے لیے ڈالر فراہم کرتا ہے ۔ اس وجہ سے ریاستیں اسی ڈالر کے حصول کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں جس سے دنیا میں ڈالر کی بالادستی برقرار رہتی ہے۔ جبکہ عالمی بینک یہ کام "تعمیر و ترقی" کے منصوبوں کی آڑ میں کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملک ایک ایسی معاشی سمت میں چلے کہ اس پر استعمار ی ممالک کی بالادستی ہمیشہ کے لیے برقرار رہے۔
ورلڈ بینک کی جانب سے 1994 میں متعارف کرائی گئی توانائی (پاور) کی پالیسی اور دیگر استعماری معاشی پالیسیوں نے منظم طریقے سے پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا ہے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے نام پر عالمی بینک نےاس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان "ٹیک اور پے" (take or pay) معاہدوں پر دستخط کرے۔ یہ معاہدے پاکستان کی حکومت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو "کپیسٹی پیمنٹس" (Capacity Payments)ادا کرے جب پاکستانی صارفین بجلی استعمال نہ بھی کر رہے ہوں، جس کے نتیجے میں موجودہ پہاڑ جیسا گردشی قرضہ کھڑا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی بینک نےاس بات کو یقینی بنایا کہ یہ استعماری معاہدے روپے سے نہیں بلکہ ڈالر سے منسلک ہوں تا کہ مستقل بنیاد پر ڈالر ملک سے باہر جاتے رہیں اور استعمار پر انحصار کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔
1950 ءسے اب تک پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 22 پروگراموں میں شامل ہوچکا ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں نہ تو پاکستان کی پیداواری استعداد میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور نہ ہی صنعتی ترقی پر منتج ہوتی ہیں۔ 1950 ء سے پاکستان کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ کم قیمت ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر مشتمل چلا آرہا ہے جبکہ ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی بھاری مشینری زرمبادلہ یعنی امریکی ڈالر کے عوض درآمد کی جاتی ہے ۔ ایک طرف عالمی بینک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملک میں آنے والے ڈالر ہمیشہ ملک سے باہر جانے والے ڈالر کے مقابلے میں کم رہیں، جیسا کہ اوپر" کپیسٹی پیمنٹس" کی مثال سے واضح کیا گیا ہے جس سے " ادائیگیوں کے توازن" کا مسٔلہ جنم لیتا اور سنگین سے سنگین تر ہوتا ہے، تو دوسری جانب آئی ایم ایف اسی " ادائیگیوں کے توازن" کو برقرار رکھنے کے لیے کڑی شرائط کے عوض ڈالر فراہم کرتا ہے ۔ ریاستیں یہ ڈالر سودی قرضے کے طور پر حاصل کر کے اپنے آنے والے کئی سالوں کے بجٹ کا اکثر حصہ عوام پر خرچ کرنے کی بجائےان سودی قرضوں کی واپسی پر صرف کر دیتی ہیں۔یوں ریاستیں ڈالر کے اس گھن چکر میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ آئی ایم ایف کی پالسیوں کے نتیجے میں بجٹ خسارا کم کرنے کے نام پر ترقیاتی بجٹ کم کردیا جاتا ہے اور تسلسل کے ساتھ ایسا کیے جانے سے ملک پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ پھر مفلوج کردینے والی مالیاتی پالیسی ملک کو روکتی ہے کہ وہ اپنی صنعتی صلاحیت کو مکمل استعداد کے مطابق استعمال کر سکے ۔ ایسے میں یہ مالیاتی پالیسی جلتے پر تیل کا کام دیتی ہے۔
نئے مالیاتی سال 2021-22 کے لیے آئی ایم ایف پاکستان کے لیے محاصل کے حصول کے ہدف میں 12.7کھرب روپے کا اضافہ چاہتا ہے اور ساتھ ہی پورے اعتماد سے یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں کم ہی اضافہ ہوگا۔محاصل کے حصول کا آئی ایم ایف کا یہ طریقہ کار بھی نہایت بھونڈا ہے۔ جب لوگ اچھا کما رہے ہوں تو محاصل خود بخود بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس پیداوار محدود ہوجائے، آمدن کم اور ٹیکس زیادہ ہوں جیسا کہ آئی ایم ایف کی قرضوں سے منسلک کڑی شرائط کے نتیجہ میں لازماً ہوتا ہے ،تو یہ صورتحال معیشت کو تباہ کرنے کا سیدھا سادہ فارمولہ ہے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک وہ استعماری ادارے ہیں جن کو بنایا ہی اسی مقصد کے لیے گیا ہے کہ ہم معاشی طور پر کبھی مستحکم نہ ہوسکیں اور پاکستان مغربی مفادات کو پورا کرتا رہے۔ موجودہ آئی ایم ایف کا پروگرام واضح طور پر پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرے جس کےتحت مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو فراہم کی جانے والی حمایت کو ختم کرنا ہے تاکہ مودی کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ اب پاکستان کی قیادتیں توہین رسالت کرنے والی فرانسیسی حکومت سے سفارتی تعلقات ختم نہ کرنے کی وجہ بھی معاشی مجبوریاں بیان کررہی ہیں کیونکہ یورپ پاکستان پر برآمدات کے حوالے سے پابندیاں لگاسکتا ہے۔ یعنی پہلے پاکستان کے حکمرانوں نے خود ایسے اداروں کی پولیسیوں کو اختیار اور نافذ کیا ہے اور اب وہ انہی پولیسیوں کے نتیجہ میں برپا ہونے والی معاشی بدحالی کو پاکستان کی کمزوری کی وجہ بیان کر رہے ہیں۔ تو بھلا اس معاشی کمزوری کا قصور وار کون ہوا؟ ظاہر ہے وہی حکمران جو ملک کے لیے ان مہلک اور جان لیوا پالیسیوں کو اختیار اور نافذ کرتے آئے ہیں اور آج بھی نافذ کر رہے ہیں اور نتیجتاً پاکستان کو معاشی غلامی میں مسلسل جھونکتے چلے آئے ہیں۔
اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ عوامی استحصال پر مبنی مغرب کے مالیاتی اداروں میں شرکت کو مسترد کیا جائے ۔ پاکستان، افغانستان، مشرق وسطی ٰاور وسطی ایشیا کے تیل و گیس کی دولت کو یکجا کیا جائے جو کہ دراصل پوری امت کی مشترکہ دولت ہے نہ کہ صرف ان ممالک میں رہنے والے باسیوں کی دولت۔ مسلمانوں کے فوجی و معاشی وسائل کو اسلامی امت اور اسلام کے مفاد میں خرچ کرنے کے لیے یکجا کیا جائے۔بھاری صنعت میں خود مختاری کے حصول کو ہدف بنایا جائے ۔اور عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید دوئم کی طرح تلوار کو نیام سے نکال کر توہین رسالت کرنے والی بے باک آوازوں کو خاموش ، اور گستاخ ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے۔