(Last Updated On: )
آج – 30؍اکتوبر 2012
نظم نگار، مصنفہ اور پاکستان کی معیاری شاعری کے لیے مشہور شاعرہ” ثمینہ راجا صاحبہ“ کا یومِ وفات…
ثمینہ راجا پاکستان کی شاعرہ تھی وہ بہاولپور کے ایک جاگیردار گھرانے میں 11؍ستمبر 1961ء کو پیدا ہوئیں۔ بارہ تیرہ برس کی عمر سے شعر گوئی کا آغاز ہوا اور جلد ہی ان کا کلام پاک و ہند کے معتبر ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا۔ لیکن اپنے گھرانے کی روایات اور سماجی پابندیوں کے سبب ان کو شعری و ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع حاصل نہ ہو سکے لہذا ان کی شاعری ایک طویل عرصے تک صرف ‘فنون، نقوش، اوراق ،نیا دوراورسیپ، جیسے ادبی جرائد اور سنجیدہ حلقوں تک ہی محدود رہی۔ ایک عمر کی جدوجہد اور ریاضت کے بعد بالآخر وہ اپنے فن کو لوگوں کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کے خاندان میں مستورات کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا چنانچہ انہوں نے نہایت نامساعد اور نا موافق حالات میں پرائویٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے پاس کیا۔
1992ء میں انہوں نے “مستقبل” نام سے ایک ادبی جریدے کا اجرا کیا جو ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا۔ 1998ء میں ان کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے رسالے ماہنامہ کتاب کی مدیر مقرر کیا گیا اور 1998ء ہی میں انہوں نے ادبی مجلہ آثار کی ادارت سنبھالی اور پوری اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان وشناخت قائم کی۔ وہ کئی برس سے معروف ادبی جریدے آثار کی مدیر ہیں۔ ثمینہ راجا کا اردو شاعرات میں وہی مقام ہے جو ن ۔ م راشد کا اردو شاعروں میں۔ راشد کو شاعروں کا شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری کے مضامین، اوران کا مخصوص مفرس اسلوب عوام کی ذہنی سطح سے کافی بلند ہونے کے سبب عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا جو عام فہم اسلوب کے حامل شعرا کو آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ثمینہ بھی کچے پکے نسوانی جذبات کی شاعری سے بہت بلند فضا میں پرواز کے سبب سنجیدہ قارئین تک ہی محدود رہیں۔ جناب احمد ندیم قاسمی اور جناب احمد فراز کے علاوہ بے شمار مشاہیر کی ان کے بارے میں آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منفرد موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے اردوزبان کے نہ صرف موجودہ موجودہ بلکہ آئندہ منظرنامے میں بھی نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں۔ 1995 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ہویدا کے نام سے شائع ہوا۔ تب سے اب تک ان کے گیارہ مجموعے، ”ہویدا “،” شہر سبا “،” اور وصال “،” خوابنائے “،” باغ شب “،” بازدید“،” ہفت آسمان “،” پری خانہ “،” عدن کے راستے پر “،” دل ِ لیلٰی“ اور” عشق آباد“ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری دو ضخیم کلیات کی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے۔
30؍اکتوبر 2012ء کو ثمینہ راجا، اسلام آباد میں انتقال کر گئیں ۔
🌹✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•──┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈──•✦
💐💐 معروف شاعرہ ثمینہ راجا صاحبہ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت… 💐
ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں
اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں
زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں
ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں
❀◐┉══════════┉◐❀
شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی
سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس، گردِ راہ
میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی
کیا جانئے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر
کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی
دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس
رہوارِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی
❀◐┉═════ ✺✺═════┉◐❀
رہِ فراق کسی طور مختصر کیجے
جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے
ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے
نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے
یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا
پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے
یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے
اب آگے خواب ہے رک جائیے بسر کیجے
بنے تھے خاک سے ہم کو قیام کرنا تھا
ہوا ہیں آپ اڑا کیجئے سفر کیجے
ہم اپنے عہدِ تمنا پہ اب بھی قائم ہیں
ذرا شریکِ تمنا کو بھی خبر کیجے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
◼️ ثمینہ راجا◼️
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ