"زندہ لوگ" کے سینتالیسویں اجلاس کی رُوداد
۔۔۔
آج کا اجلاس خاصا گرماگرم تھا۔ میں پہنچا تو بحث زوروں پر تھی۔شروع شروع میں مجھے موضوع کی مرکزیت کا اندازہ نہ ہوسکا لیکن کچھ ہی دیر میں بات واضح ہوگئی۔ دراصل آج کی گفتگو جنابِ افتخارعارف کے ایک سوال سے شروع ہوئی تھی۔انہوں نے پروفیسر فتح محمد ملک سے یہ سوال کیا کہ،
’’سوویت یونین بڑی تیزی سے جس نکتۂ نظرکودنیا میں پھیلا رہاتھا، اُس آئیڈیالوجی کا قلع قمع کرنے کے لیے امریکہ نے دنیا بھر میں مذہبی قوتوں کو استعمال کرکے اُس کا راستہ روکا ۔ اگرپاکستان کی مذہبی قوتیں اُس وقت امریکہ کی آلہ کار نہ بنی ہوتیں تو آج سوویت یونین موجود ہوتا اور دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا‘، اِس خیال پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟‘‘
اس پر فتح محمد ملک صاحب نے کچھ واقعات سنائے جن سے یہ تاثر ملا کہ ملک صاحب کا مؤقف افتخارعارف صاحب کے مؤقف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ البتہ استادِ محترم جناب جلیل عالی صاحب کا مؤقف یکسرمختلف تھا۔ عالی صاحب کا کہناتھا کہ اوّل تو سوویت یونین فقط پاکستان کی مذہبی قوتوں کی مدد سے تباہ نہیں ہوا، اس کے اپنے اندرونی حالات ہی ایسے ہوچکے تھے کہ وہ مزید باقی نہ رہ سکتاتھا۔ دوئم یہ کہ امریکہ نے فقط مذہبی قوتوں کو ہی استعمال نہیں کیا بلکہ اس وقت کی جدید مغربی سرمایہ داریت پسند لبرل قوتوں کوبھی استعمال کیا۔ امریکہ نے کمال ہشیاری سے قدامت پسندوں کے ہاتھ میں اسلام اور مغرب پسند جدیدیوں کے ہاتھ میں سوشلزم کا جھنڈا تھما کر ایک فیک تضاد ابھارا اور طبقاتی تضاد کو پیچھے کرا دیا۔
عالی صاحب کا مؤقف تھا کہ بھٹوکے چند اقدامات ایسے تھے جن سے امریکہ بھٹوسے ناراض ہوگیا۔مثلاً مسلم آئل ویپن (Muslim Oil Weapon)، کہُوٹہ پلانٹ، اسلامی سربراہی کانفرنس وغیرہ۔ ان اقدامات سے پہلے پہلے تک بھٹوامریکہ مخالف نہیں تھابلکہ بھٹوامریکہ کی ہی رضا سے آیاتھا۔امریکہ بھٹوکو جس مقصد کے لیے لایاتھا وہ مقصد تھا، خطے سے اُس سوچ کا خاتمہ جسےافتخارعارف صاحب نے سوویت یونین کا نکتۂ نظرکہاہے، یعنی کمیونسٹ طرزِ فکر۔بھٹونے امریکہ کا یہ مقصد بخوبی پورا کیا۔ اور دوسرا مقصدتھا ٹیک آف کے قریب پہنچی معیشت کی تباہی۔
افغان وار سے پہلے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مغرب زدہ آزاد خیال لوگ ترقی پسندوں کےساتھ مل کر مذہب پسندوں کی مخالفت کیا کرتے تھے۔اور صرف مذہب کی مخالفت ہی ترقی پسندی سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ جب بھٹو نے امریکہ کی مخالفت شروع کی تو نام نہاد اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد سوشلسٹ اور ازاد خیال سب بھٹو کےخلاف اکٹھے ہو گئے۔
غالباً اسی موقع پر جناب محبوب ظفرصاحب نے خالد احمد کی کسی کتاب کا حوالہ بھی دیا جو اُنہوں نے بھٹوکی زندگی پر لکھی تھی۔وہ انگریزی زبان میں لکھتے تھے، صحافی تھے اور بھٹوکے بہت قریب رہے تھے۔ خالداحمد کی اس کتاب میں واضح کردیا گیا ہے کہ بھٹوفی الاصل کالونیل دورکی نشانی تھا۔وہ اِمپیریل اورفیوڈل تھا۔وہ کمیونسٹ نہیں تھا۔
عالی صاحب نے بھی اسی نوعیت کی بات کی اور کہا کہ بھٹو نے نئی اُبھرتی ہوئی انڈسٹری کوختم کرکےقومی اثاثوں کو نیشنلائز کیا تو یہ فی الاصل سوشلزم کے ذریعے ، سوشلزم کی ہی نفی تھی۔کیونکہ کسی بھی ریاست کے اثاثے قومیائے جانے سے پہلے ریاست میں دوطبقات کا وجود لازم ہوتاہے۔سرمایہ دار اور محنت کش۔ پاکستان میں ابھی انڈسٹری اپنے ابتدائی دور میں تھی۔ یہ دونوں طبقات ابھی پوری طرح وجود میں آئے ہی نہیں تھے۔
بھٹوصاحب نے جب اُبھرتی ہوئی انڈسٹری کو تباہ کیا تو یہ پاکستان کےزوال کی طرف سفر تھا نہ کہ عروج کی طرف۔ اس موقع پر مسعود مفتی صاحب نے کہا کہ،
ایوب کے مارشل لا سے پہلے پاکستان کی تعمیروترقی کی مضبوط بنیادیں رکھ دی گئی تھیں۔ مارشل لاؤں نے بتدریج پورے ملک کو کنٹونمنٹ سیٹ اپ میں بدلنے کے منصوبے پر عمل کیا۔ پاکستان کی انتہائی تجربہ کار اور باصلاحیت بیوروکریسی کو بھی بتدریج بے دخل کردیاگیا اور دیگر ادارے بھی تباہ کردیے گئے۔
یوں گویا یہ بات سامنے آرہی تھی کہ ایوب سے پہلے پاکستان چونکہ انڈسٹری کی طرف جارہا تھا تو لامحالہ اب پاکستان تاریخ عالم کی رُو سے ترقی کے دوسرے فیز میں داخل ہونے والا تھا۔ یعنی کالونیل امپیریلزم سے انڈسٹریلزم کی طرف۔بھٹو نے انڈسٹری کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ دراصل سرمایہ دارانہ ممالک کا ہی ایجنڈاتھا ۔ یہ ایک جھوٹا تنازعہ (Fake Conflict) تھا جس کی آڑ میں امپریلزم یعنی جاگیرداری نظام کو اس لیے مضبوط کیا گیا کہ آگے چل کر اس کی مدد سے سوویت انقلاب کے راستے میں بند باندھا جانا تھا۔ عالی صاحب نے زوردے کر کہا کہ،
’’میں خود گواہ ہوں۔ بھٹوکی ایک تقریر میں نے خود سُنی۔ جس میں بھٹونے کہاتھاکہ ،
"میں نے جنوبی ایشیا میں کمیونزم کو روکنے کے لیے سی آئی اے سے بڑا کام کیا ہے‘‘
لیکن پھر عالی صاحب کا ہی یہ کہنا تھا کہ بھٹو کے چند ایسے اقدامات بھی تھے جو امریکہ کو کسی صورت گوارہ نہیں تھے۔جن میں عربوں کے تیل کا ہتھیار، اسلامی سربراہی کانفرنس اور کہوٹہ پلانٹ وغیرہ۔ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے امریکہ بھٹو سے ناراض ہوا اور ضیالحق کو لے آیا۔یہی وہ دور ہے جب مذہبی قوتوں کو انہی جاگیرداروں کے عہدِ اسمبلی میں سامنے لایا گیا جوانڈسٹریلزم کے ناکام ہوجانے کے بعدعوام کے واحد نمائندےبن جانے کے لیے وطنِ عزیز میں موجود تھے۔الغرض انڈسٹری کے مزدوروں اور مالکوں کے تنازعات بھٹودورکا مصنوعی اورجھوٹا تنازعہ ہے جبکہ مذہبی قوتوں کا استعمال جوضیادورمیں کیاگیا، فی الاصل ان حالات کا نتیجہ ہے جو بھٹوکے دور میں وجود میں آچکے تھے۔کیونکہ بھٹوکو ہٹانے کا ذمہ دار ضیالحق نہیں بلکہ وہ گروہ ہیں جو نوستاروں والے اتحاد میں جمع ہوچکے تھے۔ وہ نوستاروں والا اتحاد کس نے بنایاتھا؟ ظاہر ہے یہ اتحاد امریکہ کا بنایا ہوا تھا۔کیونکہ اس میں ایسی ایسی جماعتیں بھی شامل تھیں جو نظریاتی طورپرایک دوسرے کے شدید مخالفین تھے یعنی لیفٹیسٹ اور رائٹسٹ دونوں اکھٹے ہوگئے تھے۔ ۔یہ سب پارٹیاں بھٹوکو ہٹانے کی ذمہ دار ہیں۔ نوستاروں کا یہ اجتماع امریکہ کا منصوبہ تھا اور پھر جب ضیالحق برسراقتدار آ گیا تو اِسی "قومی اتحاد" کی آڑ میں اسے سوویت یونین کے خلاف جہاد کااعلان کرنے کا بھی موقع میسر آگیا۔
اس خیال سے فتح محمد ملک صاحب نے اختلاف کیا اور کہا کہ،
’’بھٹوسائنٹفک سوشلسٹ نہیں تھا بلکہ بھٹواسلامک سوشلسٹ تھا۔اُنہوں نے اپنا ایک واقعہ بھی سنایا جس میں انہوں نے واضح طورپر یہ کہا کہ جب بھٹودور میں اُنہیں کسی بڑے قومی جریدے کی ایڈیٹرشپ دی گئی تو ساتھ ہی یہ بھی بتادیاگیاکہ آپ کو اِس لیے چنا گیا ہے کیونکہ آپ اسلامک سوشلسٹ ہیں، اور یہ کہ ہمیں سائنٹفک سوشلسٹ ایڈیٹر نہیں چاہیے۔‘‘
اس پر عالی صاحب نے کہا کہ اسلامی سوشلزم بھی صنعتی ترقی کو روک کر امریکی منشا تو پوری نہیں کر سکتا۔جب کہ عملی طور پر یہی ہوا۔
مسعود مفتی صاحب نے کہاکہ،
’’پاکستان میں مذہبیوں کے عمل دخل کا آغاز تو قراردادِ مقاصد کی وجہ سے دوبارہ بحال ہوا۔ ورنہ مولوی تو پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ سوائے مولانا شبیراحمد عثمانی کے، کون تھا جو قائدِ اعظم کے ساتھ کھڑا تھا۔ اگرلیاقت علی خان نےقراردادِ مقاصد نہ بنوائی ہوتی تو مولویوں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں تھی۔‘‘
اس بات سے عالی صاحب نے بھی اختلاف کیا اور پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے بھی اختلاف کیا۔ ملک صاحب کا یہ مؤقف تھا کہ قراردادِ مقاصد مولویوں کے ممکنہ عمل دخل کو روکنے کے خلاف ایک بند کے طورپر وضع کی گئی تھی۔ آپ قراردادِ مقاصد کی شقیں پڑھیں تو آپ پر واضح ہوجاتاہے کہ پاکستان کے حقیقی اہداف کو مذہبی شدت پسندی سے بچانے کی غرض سے قراردادِ مقاصد پیش کی گئی۔ پھر یہ قرارداد اس وقت کی اسمبلی سے منظوربھی کروائی گئی۔ بلامنظوری اِسے آئین کا حصہ نہیں بنایاگیا۔ عالی صاحب نے ملک صاحب کی بات سے اتفاق کیا۔
اس دوران حمید شاہد صاحب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئےکہاکہ،
’’دراصل پاکستان میں جو کچھ بھی ہوتاہے، وہ جمہوری طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ امریکی مداخلت سے ہوتاہے۔ کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی کسی بڑے ادارے کا سربراہ امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتا۔ اس پر مستزاد یہ زمانہ آئیڈیالوجیوں کا زمانہ نہیں ہے۔ آئیڈیالوجی ہرکہیں پِٹ رہی ہے۔‘‘
اس بات کے ساتھ سب نے اتفاق کیا۔ ملک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ ہرفوجی آمرامریکہ کی ہی مرضی سے آیا ہے۔افواجِ پاکستان کا سربراہ بھی امریکی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا۔ عالی صاحب کا البتہ یہ مؤقف تھا کہ امریکی مرضی والی بات میں تھوڑی سی لچک رکھی جائے۔ وہ اِس طرح کہ امریکی مرضی کے ہوتے ہوئے ہماری بھی مرضی موجود رہتی ہے۔ کچھ کام وہ ہم سے دھونس کے ذریعے کرواسکتے ہیں اور کچھ کام وہ دھونس کے ذریعے بھی نہیں کرواسکتے اور پیار کے ذریعے بھی نہیں کرواسکتے۔ ایوب نے امریکہ سے بڈا بیت کا اڈا خالی کرا لیاتھا اور دیگر بڑے ممالک سے تعلقات بنانے کی راہ اپنا رہا تھا۔ تبھی تو امریکہ بھٹوکو لایا تھا اور ابھی تازہ صورتحال میں ہی دیکھ لیں۔ جب عسکری سر براہ کو ایکسٹینشن دی گئی تو یہاں ہم نے امریکہ کی مرضی تو قبول کرلی لیکن ساتھ ہی اپنی مرضی کا اظہار ہماری عدالت کے ذریعے ظاہر بھی کردیاگیا۔ یقیناً ہماری مقتدر قوتوں میں دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ امریکی مفادات کے خلاف سوچ رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ فقط یہی نہیں کہ صرف امریکی مفادات کے حامی ہی حامی ہیں سب۔
عالی صاحب نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف کون سب سے پہلے میدان میں آیاتھا؟ وہ بڑے ریٹائرڈ آرمی آفیسرز ہی تھے جنہوں نے نمایاں احتجاج کیا تھا۔وہ لوگ آرمی کے اندرسے ہی آئے تھے لیکن وہ امریکی مفاد کی مخالفت میں تھے۔
بات لمبی ہو رہی ہے۔ مختصراً یہ کہ زندہ لوگ کا سینتالیسواں اجلاس اس لحاظ سے نہایت اہم تھا کہ اس میں پاکستان کی صورتحال، ماضی و حال اور مستقبل کے آئینے میں زیربحث لائی گئی۔ مذہبی طبقے کی سیاست وحکومت میں مداخلت کے اسباب، امریکی مفادات اور آرمی کے زیراثرپیدا ہونے والی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے تذکرے وغیرہ پر مشتمل یہ نشست ایک بار اس وقت تھوڑی دیر کے لیے رکی جب محترمہ حسینہ جلیل (مسزعالی صاحب) نے مہمانوں کو چائے اور ریفریشمنٹ کے لیے بلالیا۔
کسی حد تک بات چائے کے میز پر بھی بات جاری رہی۔لیکن یہ طولانی قصہ ایک مختصر رپورٹ میں سمویا نہیں جاسکتا اس لیے اسی بات پر ختم کرتاہوں کہ مسعود مفتی صاحب نے کہا،
آج کل حمید گل کی پرانی ویڈیوز کو سامنے لایا جارہاہے اور ہمیں یہ باور کروایا جارہاہے کہ دیکھیے! جنرل حمید گل کی پیشگوئیاں کتنی درست تھیں اور یہ کہ آج وہی ہورہاہے جو جنرل حمید گل نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ ہوگا۔ہم سب جانتے ہیں کہ حمید گل کس قسم کا پاکستان چاہتاتھا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ پھر اسی طرف جارہی ہے جس طرف افغان وار میں چلی گئی تھی؟ کیا ویسے ہی کوئی مقاصد پھر درپیش ہیں؟
اس پر عالی صاحب نے کہا کہ،
’’پاکستان کے کردار سے امریکہ واقف ہے۔ اس حوالے سے وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم افغان امریکہ معاہدے کے لیے کس قدر اہم ہیں کیونکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہم فقط اس کے ہی وفادار نہیں ہیں بلکہ خصوصاً افغانستان کے معاملے پر ہم اپنی پسند کو بھی شاملِ حال رکھتے ہیں۔اس معاہدے میں امریکہ نے پاکستان سے کیوں مدد لی؟ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ پاکستان کے تعلقات خود امریکہ کی نظر میں بھی افغان مزاحمت کاروں کےساتھ درست ہیں۔ اگر فرض کریں ہمارے تعلقات افغان مزاحمت کاروں یعنی طالبان کے ساتھ درست نہ ہوتے تو وہ ہم سے یہ اُمید کیوں رکھتا کہ ہم اس معاہدے میں اس کی مدد کریں۔ اور اگر ہمارے تعلقات طالبان کے ساتھ اچھے ہیں تو پھر اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتاہے کہ ہم کم ازکم افغانستان کی سرزمین پر ہی سہی امریکہ کے کسی حد تک مخالف بھی ہیں؟ دراصل کوئی بھی ریاست اپنے پہلو میں کسی سپرپاور کا وجود برداشت نہیں کرسکتی۔ جیسے ہم نے روس کا وجود برداشت نہیں کیاتھا، ویسے ہی امریکہ کا بھی تو برداشت نہیں کرسکتے۔
بہرحال ایسے ہی موضوعات تھے ۔ چائے کے بعد کچھ لوگوں نے اجازت چاہی تو سب کا ہی ارادہ بن گیا کہ مجلس برخواست کردی جائے۔ چنانچہ سینتالیسواں اجلاس بعض باتوں کے ادھورا رہ جانے کے باوجود بھی ایک شاندار اور زبردست اجلاس تھا۔