پاکستان کی معیشت ٹھیک کرنا کسی کی ترجیح ہی نہیں ۔
کل میں نے ترکی میں لوگوں کو ڈالر جلانے کی ایک تصویر دیکھی اور کل ہی مسلم لیگ نواز کہ paid رپورٹر سعید شاہ کا امریکہ کہ مشہور خبار وال اسٹریٹ جرنل میں IMF سے قرضے کی مجبوری پر تجزیہ ۔ چند امیر ، لٹیرے اور ڈاکؤں نے پاکستان کو مزاق بنا دیا ہے ۔ ان کی تعداد ۶۰ کی دہائ میں صرف ۲۲ تھی اور آج ۲۲۰۰۔ یہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہیں ۔ ہر راستہ انہی کہ دامن کو چُھوتا ہے ۔ دولت ، شہرت اور طاقت انہیں کہ ہاتھ ۔ یہ ٹھہرے ۲۲ کروڑ عوام کہ مالک ۔ ان کی زندگیوں کہ ٹھیکہ دار۔
اگلے دن مجھے ایک شخص نے میری ایک ٹویٹ پر تنقید کی وجہ سے مجھے شاہد رحمان کی کتاب “who owns Pakistan”
پھر پڑھنی پڑی ۔ میں ٹھیک تھا اس آدمی کی تنقید غلط۔ ہاشوانی نے پہلے زولفقار علی بھٹو سے ٹورزم کہ چکروں میں ہوٹل کا پرمٹ لیا ، یو بی ایل سرکاری بینک سے قرضہ لیا اور کھا گیا ۔ جنرل ضیاء نے باقاعدہ وائٹ پیپر میں اس کا تزکرہ کیا لیکن پھر ۱۹۸۵ میں ضیاء نے خود ہی پانچ ہوٹل خریدنے کے لیے ۱۲۰ ملین کا قرضہ دلوایا جو بعد میں ہاشوانی نے معاف کروایا ۔ زرداری نے جب ۱۹۸۹ میں ہاشوانی سے حصہ مانگا تو ہاشوانی دبئ دوڑ گیا اور پھر ۹۳ میں ہاشوانی نے بینظیر اور زرداری سے ایک نئ سیٹنگ کی، کچھ تیل اور مختلف کاروبار کے لیے ۔ نواز تو ضیاء کی اولاد ہونے کہ ناطے ہہلے ہی ہاشوانی کی پاکٹ میں رہا ۔ مشرف آیا تو ہاشوانی اس کی جیب میں اور آغا خان فاؤنڈیشن کو کوڑیوں کہ بھاؤ حبیب بینک دلوانے میں پیش پیش ۔
شاہد کی اس کتاب میں رزاق داؤد سمیت سب کو ننگا کیا گیا ہے کہ کس طرح محض licensing favor اور credit line access سے یہ rag to rich ہوئے ۔ یہ امریکہ کہ بل گیٹس یا اسٹیو جاب ، سے مختلف اسٹوری ہے ۔ امریکہ کہ کیس میں ان شخصیات کا دماغ ، آیڈیا اور محنت کار فرما ہوئ ان کو ارب پتی بنانے میں ۔ اسٹیو جاب کی قبر پر چھٹیوں میں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے یہاں منو اور سہگل کی قبروں پر الو بولتے ہیں ۔ پاکستانی کاروباری سیٹھ کی کامیابی کہ پیچھے crime ہے ، جتنا بڑا سیٹھ اتنا بڑا کرائم ۔
پاکستان کی معیشت کو سنبھالنا بہت آسان ہے اگر چند مندرجہ زیل اقدام اٹھائے جائیں ۔
۱۔ سارے معاف کیے ہوئے قرض واپس لیے جائیں فی الفور۔
۲۔ کھربوں کی ٹیکس evasion فورا روکی جائے اور پیسے ریکور کیے جائیں ۔
۳۔ پٹرول راشنگ کی جائے ۔ کسی کو یومیہ ۵ لیٹر سے زیادہ کی اجازت نہ ہو ۔ امپورٹ بل آدھے سے بھی کم ہو جائے گا ۔
۴۔ بیریوکریسی کی تطہیر کی جائے ۔ صرف کنٹریکٹ پر رکھا جائے ۔ ان کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جائیں ۔ پرفارمنس کی بنیاد پر صرف رہنے دیا جائے ۔ ٹارگٹز دیے جائیں وگرنہ فارغ کر دیے جائیں ۔
۵۔ فنانشل ایمرجینسی لگائ جائے ۔ نان ڈیولپمنٹ اخراجات سرے سے ختم کر دیے جائیں سوائے بنیادی قسم کہ تنخواہیں وغیرہ ۔
۶۔ اس سارے عمل سے امیر ، ایلیٹ اور ۲۲۰۰ لوگوں کو دس ہزار میل دور رکھا جائے ۔
پاکستان جیت جائے گا ۔ خان صاحب کو دعائیں دے گا ۔ غربت ختم ہو گی ۔ سب کہ لیے برابر ترقی کہ برابر مواقع ہوں گے ۔ خان صاحب کو پہلا دورہ بھوٹان کی ہاورڈ کی تعلیم یافتہ ملکہ سے ملنے کا کرنا چاہیے ۔ جس نے
Gross National Happiness (GNH)
کا معیار سیٹ کیا ۔ یہ ہے انسانیت اور روحانیت کا بنچ مارک ۔ زرا بھیجیں اسد عمر کو کو اس کہ پاس اسٹڈی کہ لیے ۔ کیکن ایسا ہوتا دکھائ نہیں دے رہا ۔ ابھی تک تو سارے status quo والے خان صاحب کو چمڑے ہوئے ہیں ۔ کسی نے بازو پکڑا ہوا ہے ، کسی نے ٹانگ ، تو کوئ تحریک انصاف کا جھنڈا گاڑی پر لگا کر پی ٹی آئ کو مافیا تنظیم کا رنگ دے رہا ہے ۔ عمران کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اس سارے معاملہ سے کیسے نبٹتے ہیں ۔ ان کو آج وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد !
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔