پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان میں ترقی یافتہ صنعتیں یا بھاری مشنری کے کارخانے نہیں تھے۔ زیادہ تر صنعتیں چھوٹے پیمانے پر یا زراعت سے وابستہ تھیں۔ ایوب خان آئے تو انہوں نے ایک پنج سالہ منصوبہ بنایا۔ جس کے تحت ملک میں بڑی صنعتیں سرکاری شعبہ میں لگانے کی منظوری دی گئی اور ملک میں صنعتوں کا آغاز ہوا۔ اس پنج سالہ منصوبے دوسرے پنج سالہ منصوبے کے تحت ملک میں بہت سی بھاری مشینری کے کارخانہ قائم ہوئے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا وہ دور پاکستانی کی صنعتی ترقی کا سنہرا دور تھا۔ مگر سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ یہ صنعتی ترقی آگے کیوں نہیں بڑی اور سرکاری شعبے میں قائم صنعتیں رفتہ رفتہ تباہ ہوگئیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا انہیں تباہ کر دیا گیا۔
شروع میں ہمارے سرمایا کاروں نے اس مصنوعات کے کارخانے لگائے جو ہم باہر سے درآمد کرتے تھے مثلاً کاغذ اور مختلف صنعتیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس صنعتی ترقی کو ہمارے سرمایا داروں نے آگے نہیں بڑھایا۔ اگرچہ کچھ سرمایا کار بھٹو کے دور میں صنعتوں کو قومیانے لینے کی پالیسی کی وجہ سے بھی خوفزدہ ہوگئے اس لیے انہوں نے مزید دوسری صنعتوں سرمایا کاری سے گریز کیا اور اس کے بعد بھی سرمایا کاری کی گئی مگر چند مخصوص شعبوں میں مثلاً سمنٹ کے کارخانوں یا سوتی دھاگا یا کپڑا بنانے اور شکر کے کارخانوں میں۔ یعنی ایسے شعبوں میں سرمایا کاری کی گئی جن کا خام مال ملک میں ہی دستیاب ہے اور ان کی مارکیٹ اندون ملک بیرونی ملکوں میں بھی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمارے سرمایا کار رسک لینے سے گھبرا رہے تھے۔ ہنمارے ملک میں بھاری مشنری کی یا ان صنعتوں کو جو کہ ہمیں خود کفیل کرتی ہیں لگایا ہی نہیں گیا اور لگیں تو انہیں زندہ رہنے نہیں دیا گیا۔ ہماری یہاں دوسرے یا تیسرے درجہ کی صنعتوں کو زندہ رہنے دیا گیا جو کہ صرف ملک میں استعمال ہوتی ہیں اور انہیں برآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کی ایک اور بڑی بنیادی وجہ ہے جو آگے چل کر آپ پر واضح ہوگی۔
اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں غیر ملکی طاقتیں بھی ہماری معاشی اور صنعتی معاملات میں رخنہ اندازی بھی ہے۔ ان کی کوشش یہی رہی پاکستان ہماری پروڈکس کی مارکیٹ بنی رہے اور یہ صنعتی میدان میں ترقی نہ کرے۔ مثلاً پاکستان نے بال بیرنگ کے دو کارخانے لگائے تھے آر سی ڈی اور ایس کے ایف کے نام سے۔ یہ میرے لڑکپن کی بات ہے ان کے بیرنگ بڑے زبردست ہوتے تھے۔ جب کسی کاری گر کو بیرنگ کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ پاکستانی بیرنگ منگاواتا تھا یا امریکن اور یہ کہتا تھا جابانی بیرنگ بھول کر بھی نہیں لانا۔ پاکستانی بیرنگ بہت مشہور ہوئے یہ خلیج کی ریاستوں اور افریقی ممالک میں برآمد کیے جانے لگے۔ جاپانی بیرنگ پاکستانی بیرنگ سے سستا ہونے کے باوجود کوئی خریدتا نہیں تھا۔ اس لیے جاپان نے اپنے گرگوں کے ذریعے پاکستان کے ان ناخداؤں کے کان میں یہ بات ڈالی کہ پاکستان اگر پرانے بیرنگوں کی صرف گولیاں بدلے تو بیرنگ اور سستا پڑے گا اور اس کی قیمت میں مزید کمی ہوجائے۔ حالانکہ بیرنگ کی صرف گولیاں ہی نہیں گھستی ہیں بلکہ اندرونی حصہ بھی گھستا ہے۔ یہ تجویز منظور کرلی گئی اور پاکستانی کارخانوں میں پرانی بیرنگوں کی گولیاں بدلی جانے لگیں۔ مگر وہ بیرنگ اب کار آمد نہیں رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باہر تو کیا پاکستان میں بھی ان بیرنگوں کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ وہ وقت آگیا کہ کاری گر کہتا تھا پاکستانی بیرنگ مت لانا جاپانی بیرنگ لانا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خسارے کی وجہ سے ان کارخانوں کو بند کرنا پڑا۔
اس طرح جنرل ٹائر کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے ٹائر پاکستان کے علاوہ خلیج اور افریقی ممالک میں بھی بہت مقبول تھے اور جاپانی ٹائروں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ اس لیے جاپانیوں نے پاکستانی ناخداؤں کی مدد سے یہ تجویز پیش کی گئی کے پرانے ٹائر کو ہی ری اسٹیکچر کیا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان تائروں کی کارکردگی خراب ہوگئی اور لوگوں نے ان ٹائروں کو خریدنا بند کردیا گیا۔ ایسے بہت سی مثالیں ہیں پاکستان میں ریلوے کی بوگیوں اور انجن کو اسمبلڈ کرنے کا کارخانہ بنایا گیا۔ جس میں بعد میں انجن بنائے جانے کا پروگرام تھا۔ مگر اسے بھی چلنے نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ انجن اور بوگیاں تیار کرنے والے ممالک نے اپنے ملک کے انجن اور بوگیاں خریدنے کے لیے پاکستان کو قرضہ اور امداد دی۔ جس سے یہ انجن اور بوگیاں پاکستان کے تیار کردہ انجن اور بوگیوں سے سستے پڑ رہے تھے۔ اس طرح اس کارخانے میں کوئی کام رہا کام کرنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے تنخواہ وصول کرتے رہے۔ آخر کار نقصان کی وجہ اس کارخانے کو بھی بند کرنا پڑا۔ پاکستان نے پہلا تجارتی بحری جہاز کا العباس 1968ء پانی میں اتار تھا اور اس میں مزید کام روک بلکہ مختلف طریقوں سے رکوا دیا گیا۔ ہمارے یہاں کاروں کے کارخانے لگائے گئے کہ ابتدا میں یہاں کاریں اسمبلڈ ہوں گی اور بعد میں ان میں یہیں تیار ہوں گیں۔ ہماری کامیابیوں کی داستان جتنی طویل ہے مگر اس سے زیادہ طویل انہیں تباہ کرنے کی ہے۔ کل جو ہمارے ساتھ جاپان کر رہا تھا آج وہ ہمارے ساتھ چائنا کر رہا ہے۔ پاکستان انٹرنشنل ٹریڈ آرگنائشن کا میمبر بنا یا گیا۔ اس کے تحت ہم بیرونی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا نہیں سکتے ہیں لیکن ملکی صنعتوں پر جتنی چاہے ڈیوٹی بڑھا سکتے ہیں۔
ہمارے بہترین معاشیات دانوں کو دلڈ بینک اپنے پاس کھنچ لیتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں استعمال کرتا ہے ۔ یہ ہمارے ملک میں آکر ہمارے ملک کی معشیت درست راہ پر متعین کرنے کے بہانے آتے ہیں اور ان سے پاکستان کی معشیت میں وقتی طور پر درست ہوتی نظر آتی ہے ۔ مگر کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان کو آکسیجن سلینڈر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کے مشورے اور اقدامات سے ترقی پزیر ممالک کی معیشت سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی جارہی ہے ۔ حالانکہ انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے وہ اپنی ریفام کے ذریعے ملک کو ترقی راہ پر گامزن کریں گے ۔ لیکن ہمیشہ ہی توقعات کے برعکس ہوتا ہے ۔ کیوں کہ یہ ماہرین جس قسم کے فیصلے کرتے ہیں ان سے مہنگائی کا طوفان اور بین القوامی مارکیٹ میں پاکستانی کرنسی کی قدر گر جاتی ہے ۔ ان کے فیصلوں میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا یا ایکسائیڈ ڈیوٹی بڑھانا شامل ہوتا ہے ۔ انہوں نے کبھی زراعت پر انکم ٹیکس یا وراثت پر ٹیکس کی بات نہیں کی ۔ اس کی بنیادی وجہ انہیں ایلٹ طبقہ کا تحفظ ہے ۔ جس میں وہ خود بھی شامل ہوتے ہیں ۔ اس طرح آئی ایم ایف ان کے ذریعے اپنی پالیسیاں پر عمل کرواتا ہے یعنی مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرواتا ہے اس سے ترقی یافتہ ملکوں میں عالی مالیاتی اداروں کی اجارداری قائم رہتی ہے ۔
ان آنے والوں میں ایک بڑی مثال شوکت عزیز صاحب کی ہے ۔ جنہوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ انہوں غیرملکی سرمایا داروں بجائے صنعتیوں میں سرمایا کاری کہ تین شعبوں یعنی اسٹاک ایکسچننج ، بینکنگ اور ریل اسٹیٹ میں سرمایا کاری کی دعوت دی ۔ جس کی وجہ سے ملک میں پیسے کی ریل پیل دکھائی دی جانے لگی ۔ مگر اس کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگائی کہاں سے کہاں جا پہنچی اور ان کے جاتے ہیں اس کے اثرات واضح ہوگئے اور ہ میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا ہوں کیوں کہ ان کی پالیسیوں پر پہلے ہی میں لکھ چکا ہوں ۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے بہترین معاشیات دانوں کو اپنے پاس کھنچ لیتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں استعمال کرتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی یہ پاکستانی معاشیات دان عالمی مالیاتی اداروں کے لیے خطرے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ جیسے کہ حسن عابدی کے ہاتھوں ان مالیاتی اداروں کی اجارداری خطرے میں پڑھ گئی تھی ۔ اس کا اندازہ بخوبی بی سی سی آئی بینک کی کہانی سننے سے کیا جاسکتا ہے جسے حسن عابدی نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ۔ اس لیے اسے سازش کے تحت تباہ کردیا گیا ۔ اس سے پہلے پاکستانی معاشیات دان عالمی مالیاتی اداروں کے لیے کسی خطرے کا باعث بنیں اس سے پہلے انہیں اپنے پاس کھیچ لیا جائے ۔ اس لیے پاکستانی معشت دانوں کی کثیر تعداد عالمی مالیاتی اداروں کے پاس کام کرتی رہے ہے ۔
بی سی سی آئی بینک کی کہانی کچھ یوں ہے بی سی سی آئی بینک خلیجی ممالک نے اپنے سرمائے سے اسی کی ڈھائی میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا سربراہ پاکستان کے حسن عابدی کو بنایا گیا تھا ۔ انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں اس بینک کو اس بڑے پیمانے پر ترقی دی کے اس کا شمار بین الاقومی بینکوں میں ہونے لگا اور اس نے دنیا کی معشت میں ایک اہم اور مستحکم جگہ بنالی ۔
یہ بینک جب تک عام لین دین اور سرمایا کاری کرتا رہا تو اسے بظاہر سراہایا جاتا رہا ۔ لیکن جب بی سی سی آئی نے جمیکا کو قرض دیا تو امریکہ اور دوسرے بین مالیاتی الاقوامی اداروں کو ہوش آیا ۔ کیوں کہ اس طرح وہ بی سی سی آئی عام بینک سے بڑھ کر آئی ایم ایف کے مقابلے پر آگیا تھا اور وہ آئی ایم ایف کی معاشی پالیسیوں میں رخنہ ڈالنے لگا تھا ۔ جمیکا جب قرض کی ضرورت پڑی تو وہ اس کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا ۔ آئی ایم ایف نے حسب معمول اپنی پالیسی کے مطابق شرائط رکھیں کہ وہ ملکی معیشت میں بہتری لائے ۔ اس کے لیے ٹیکسوں ، بجلی ، گیس اور دوسری چیزوں کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے کہاگیا ۔ مگر جمیکا نے انکار کر دیا اور قرض کے لیے اس نے بی سی سی آئی سے رجوع کیا ۔ بی سی سی آئی نے اسے قرض دینا منظور کرلیا اور قرض کے لیے ایک معمولی سی شرط رکھی کہ جمیکا جو بین الاقوامی لین کرتا ہے وہ لین دین کے لیے بطور ایجنٹ بی سی سی آئی کے ذریعے کرے گا ۔ اس سے بین الاقومی مالیتی اداروں کے کان کھڑے ہوگئے کہ بی سی سی آئی ان کے مد مقابل آرہا اور ایسی صورت میں وہ دنیا کی مالیات پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔ لہذا اس کو بلاک کرنے کا موقع تلاش کرنے لگے ۔
قدرت نے انہیں یہ موقع جلد فراہم کر دیا اور کچھ عرصہ کے بعد ہی حسن عابدی بیمار ہوگئے اور ان کی بیماری اتنی بڑھی کہ وہ بینک کے امور سمبھالنے کے قابل نہ رہے ۔ اس لیے بینک کی سربراہی غالباً ابو ظہبی کے کراوَن پرنس نے سمجھال لی ۔ جنہیں بینک کاری کو کوئی تجربہ نہیں تھا اور اس سے امریکہ کو ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا اور انہوں نے اپنے گرگوں کے ذریعے کراوَن پرنس سے امریکہ میں لوگوں کو سرمایا کاری کے لیے متوجہ کرنے کے لیے کچھ ایسی سہولتوں کی فراہمی پر دستخط کروالیے جو کہ امریکہ قوانین کے منافی تھیں ۔ جب بینک نے اس کا پرچار کیا تو امریکہ میں ایف بی آئی اور دوسرے عہداروں کو موقع مل گیا اور وہ حرکت میں آگئے ۔ انہوں نے بی سی سی آئی کو کام کرنے روک دیا اور اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ بینکاری کے امریکہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ یہاں تک کہ بینک پر بھاری جرمانہ لگایا اور اسے بینکاری سے بھی روک دیا گیا ۔ اس سے بی سی سی آئی دیوالیہ ہوگیا اور بینک کو بند کرنا پڑا ۔ جب کہ اس بینک میں قانونی ماہرین کی فوج تھی جس نے کراوَن پرنس کو بتایا نہیں کہ یہ سہولتیں امریکہ قانون کی خلاف ورزیاں ہیں اور امریکہ اس پر حرکت میں آسکتا ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے یہ سب سازش کے تحت ہوا تھا ۔
ترقی یافتہ ممالک نے جب تک خود ترقی نہیں کی تھی اس وقت تک اپنے سکے کی رسد و طلب کے قانون کے مطابق نہیں بلکہ اس کی قدر خود مقرر کرتے تھے۔ اس طرح غیر ملکی زرمبادلہ سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ کسی کو بھی باہر جانے والے کو بھی مقررہ زرمبادلہ ادا کیا جاتا تھاکہ لوگ زیادہ زر مبادلہ لے کر باہر عیاشی میں نہیں گنوائیں۔ بلکہ اس کی بدلے صرف ضرورت کی وہ چیزیں برآمد کی جائیں جو کہ ملکی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
خود پاکستان میں بھی یہی بھٹو کے دور تک یہی طریقہ کار تھا۔ باہر سفر کرنے والے لوگوں کو مقررہ زرمبادلہ دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے باہر پاکستانیوں کی جائیدادیں نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے باہر اکاونٹ تھے۔ باہر جانے والے پاکستانیوں محدود زرمبادلہ دیا جاتا تھا۔ اس لیے وہ وہاں بڑی کھینچ تان کر گزرہ کرتے تھے اور زیادہ مدت رہنے والوں کو کوئی کام دھندہ کرنا پرتا تھا۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کو اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے مارکیٹوں کی ضرورت تھی۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملکوں میں زرمبادلہ کی سخت پابندیوں کی وجہ سے ان کا سامان فروخت نہیں ہوتا تھا۔ اس انہوں نے آزادنہ معیشت اور آزادنہ تجارت کا نعرہ لگایا گیا اور ترقی پزیر ملکوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھی یہی طریقہ کار اپنائیں اور وہ اپنے سکے کی قدر کو مارکیٹ میں توازن ادئیگی یعنی رسد و طلب کے قانون کے تحت آزدانہ چھوڑ دیں اور زرمبادلہ کی پابندیوں کو ختم کردیں۔ انہیں ولڈ ٹریڈ آرگنائشن پر دستخط کرنے کی صورت ان کی تجارت بڑھنے کے سنہرے خواب دیکھائے گئے۔ کہ اس سے ان کے تجارت پر کوئی روک ٹوک نہیں رہے گی۔ وہ اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ان کے پاس دنیا میں فروخت کرنے کے لیے ہے کیا؟ جس سے وہ ان ترقی یافتہ ملکوں کا مقابلہ کریں۔ اس کے لیے انہیں امداد، قرضوں اور اپنی تجارت بیرون ملک بڑھنے کی امید میں ان معاہدوں پر دستخط کر دیے۔
دوسری طرف ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے سامان کے فروخت کے لیے ان ملکوں کو مختلف طریق سے راغب کیا کہ وہ بھی اپنے ملک میں لوگوں لگژری آسائیش مہیا کریں اور بجٹ کا کم از کم تیس فیصدی ترقیاتی کاموں کے لیے مخصوص کریں۔ اس کے لیے ترقی یافتہ ملکوں قرض اور امداد دی۔ اس میں شک نہیں ہے ترقیاتی کام لوگوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ مگر اس کی آڑ میں لوگوں لگژری آسائیش کی طرف راغب کیا گیا کہ وہ مغرب کی طرح گھریلوں کاموں کے لیے بجلی کے آلات کا استعمال اور آمد و رفت کے لیے بہترین درآمد شدہ گاڑیاں چلائیں۔ اس کے لیے باقیدہ مہمیں چلائیں گئیں اور اس میں این جی او نے خاص کردار ادا کیا۔ ان این جی اوز نے ٹی وی مذاکروں میں اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ ان سے باہر کے لوگ کہتے ہیں آپ اپنی سہولت کے لیے فلاں بجلی کے آلات استعمال کیوں نہیں استعمال کرتے ہیں؟ یا پاکستانیوں کے پاس اچھی گاڑیاں کیوں نہیں ہے؟
جو پاکستانی بیرون ممالک میں روزگار کے لیے گئے ہوئے تھے اور وہ زرمبادلہ اپنے پیسے باہر بھیجتے تھے۔ ان کے لیے کوئی ایسا پروگرام ہمارے پاس نہیں تھا کہ وہ سرمایا کاری کریں۔ ان پیسوں سے ان کے گھر والے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے لگے تھے اور یا کچھ جائیدادیں خرید لیا کرتے تھے۔ ان پاکستانیوں کو ترقی یافتہ ملکوں نے مختلف ترغیبات کے ذریعے اپنی اشیاء لینے پر مائل کیا۔ ایک معمولی چیز پر قیمتی تحفہ مفت دیے جاتے تھے۔ اس لیے یہ پاکستانی اس لالچ میں زیادہ سے زیادہ ان اشیا کی خریداری کرنے لگے اور جب یہ اشیاء وہ پاکستان میں لانے لگے تو عام پاکستانیوں کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ اشیاء بازار سے خریدنی شروع کردی۔ اگرچہ اس کے پیسہ کی ضرورت تھی اس طرح ملک کرپشن کا آغاز ہوگیا۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ پیسہ حاصل کرکے ان اشیاء کی خریداری کرکے معاشرے میں اپنا مقام بلند کرے۔ اس طرح ملک میں کرپشن بڑھی اور ملک کا ہر طبقہ ہر چیز جس ذرائع سے بھی حاصل ہو حاصل کرنا چاہتا تھا اور ملک کرپشن کی دلدل میں بڑی طرح پھنستا چلا گیا۔ جب ملک میں گھریلو اشیاء کے استعمال کی وجہ بجلی کا استعمال بڑھا۔ جب کہ اس کی نسبت صنعتوں میں بجلی استعمال میں نہایت معمولی اضافہ ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بجلی کی شدید کمی ہوگئی اور وہ بحران کا شکار ہوگیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر رہ گیا اور اس ہر دفعہ کچھ عرصہ کے بعد بیرونی ادائیگیوں اور قرضوں کی ادائیگوں کے لیے قرض کی ضرورت ہوتی تھی اور اس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا۔ آئی ایم ایف حسب معمول ہمیں اپنے محصولات، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھانے کے تجویز پیش کرتی ہے۔ اس سے ہماری معشت سدھرنے کے بجائے اور مزید بگڑ رہی ہے۔
پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہونے کا ایک سبب ملک کے سیاسی حالات بھی رہے ہیں۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو مظبوط کرنے اور سیاسی حمایت کے لیے اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کو فنڈ مخصوص کر دیئے کہ وہ ان فنڈ سے اپنی پسند کے ترقیاتی کام کراسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں کے قرض بھی معاف کیے گئے۔ اسمبلی کے اراکین نے اس سے فائدہ اٹھایا اور اپنے ہاتھ خوب رنگے۔ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک مذہبی جماعت کے ایک رکن نے کہا کہ اپنی پسند کے ٹھیکدار سے کام کرانا ہمارا استحقاق ہے۔ اس بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان ترقی کاموں میں اس کا حصہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ہمارے ملک میں پالیمانی نظام ہے اور اس میں حکومت اسمبلی میں اکثریت کے بل بوتے پر حکومت کرتی اور کوئی بھی حکومت اپنے اسمبلی کے ممبروں کو ناراض نہیں کرسکتی ہے اور حکومت کو خطرہ ہوتا ہے ان کے اراکین ناراض ہوگئے تو ان کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ اس لیے میں پالیمنٹ کے اراکین حکومت کو بلیک میل کرکے سہولتیں اور پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لیے سینٹر بنے کے لیے بعض افراد کروڑوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے باقیدہ بولیاں لگتی ہیں۔ اس سلسلے میں فاٹا اور بلوچستان کے اسمبلی کے رکن فائد اٹھاتے رہے ہیں۔ یہاں تک بلوچستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ۵۴ رکنوں میں ۴۴ وزیر تھے۔ یہ اسمبلی کے ارکان کیسے بکتے رہے ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں سینٹ کے چیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے پالیمٹ کے اراکین کو جو سہولتیں دی جاتی ہیں اس پر کڑورں نہیں اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ پالیمٹ ہماری معشت پر بوجھ بن چکی ہے۔ دلچسپ بات ہے جب پالیمنٹ کے ممیمروں کی تنخواہ یا دوسرے سہولتوں کی بات ہوتی ہے تو باوجود سب اختلاف کے اس وقت اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہمارے یہاں اسمبلی کے اراکین نے ہمیشہ پالیمانی نظام کی حمایت کی ہے اور اسے وفاق کی علامت قرار دیا۔ لیکن انہیں یہ نظام اس لیے پسند رہا ہے کہ اس میں وہ اپنے ہاتھ خوب رنگ سکتے ہیں۔ اس نظام کی بدولت صرف پیسہ خرچ کرنے والے ہی پالیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی درمیانہ طبقہ کا فرد کسی طرح اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے وہ جلد اس کا شمار اشرافیہ میں ہونے لگتا ہے۔
یاد رہے کرپشن اگر چھوٹے پیمانے پر تو وہ ملکی ترقی کا باعث ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ پیسہ ایسا ہوتا ہے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا ہوتا ہے اور یہ پیسہ لینے والے ملکی اشیاء کی خریداری کرتے ہیں جس سے ملک میں روز گار کے ذرائع پیدا کرتا ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر یہ کرپشن ملکی معشیت کو کھوکھلا کر دیتی ہے کیوں کہ یہ پیسہ باہر چلا جاتا ہے۔ اب جب کہ زر مبالہ لے جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں رہی اب ہر شخص اپنی ضرورت کا زرمبادلہ حاصل کرکے باہر جائیدایں خرید سکتا ہے اور اکاونٹ کھول سکتا ہے۔ اس سے کرپشن کو فروغ حاصل ہوا اور یہ کرپشن اب ناسور بن گیا اور پھیل کر بہت بڑے پیمانے پر ہونے لگا ہے۔ اس دولت کو بیرون ملک جائیداد خریدنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ باہر جائیدایں خریدنے والوں میں جاگیردار، پولیس افسر، صنعت کار، جج، بیروکریٹ، ٹی وی اینکر، جنرل اور دوسرے لوگ شامل ہیں بھی شامل ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھ نہیں سکتا ہے کہ ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ رہا نیپ تو اس کا روئیہ ہمیشہ غیر حقیقی اور جانب دارانہ رہا ہے۔ اس کے قانون میں یہ بات شامل ہے کہ کوئی سرکاری افسر کرپشن کی وجہ سے پکڑا جائے تو اگر وہ بارگین کرلیتا ہے تو اسے کوئی سزا نہیں ہوتی اور وہ دوبارہ اپنے عہدے پر واپس آجاتا ہے۔ اس طرح دوبارہ وہ کرپشن کرنے میں آزاد ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے دہ دوبارہ پکڑا گیا تو پھر باگین کرکے آزاد ہوجائے گا۔
مغربی ممالک میں ٹیکس کے سخت قوانین نافذ ہیں اور ایک ایک پیسہ کا حساب دینا پڑتا ہے کہ کہاں سے آیا ہے اور اس پر ٹیکس دیا ہے کہ نہیں۔ مگر جب ان ملکوں میں ترقی پزیر ملکوں سے یہ پیسہ آتا ہے تو وہ آنکھ بند کرلیتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ یہ پیسہ انہوں نے کیسے کمایا ہے۔ یہی وجہ ہے دن بدن پاکستانیوں اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کا ان ملکوں میں جائیداد خریدنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ہماری طرز زندگی کو لگژری آسائیش عادی بنادیا گیا اور اب ہم ان سہولتوں کے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں۔ یہ آسائشیں ہماری پیدا کی ہوئی نہیں ہے بلکہ باہر سے درآمد ہوئیں ہیں۔ اب ہمارا معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ وہ ان آسائش کے حصول کے لیے جانز ناجائز کی پروا نہیں کرتا ہے۔ کرپشن کرنے والے کی عزت کی جاتی ہے، پیسے کی نمائش ہمارا اسٹس بن چکا ہے۔ مہنگی چیزیں خریدنا اور مہنگی جگہوں پر ہم فخریہ خریداری کرتے ہیں۔ منگے کپڑے، مہنگی خریداری، مہنگی جوتے چپل کی خریداری، مہنگے کھانے ہمارا سمبل بن چکی ہیں۔ غیر ملکی سرمایا داروں نے صنعتوں میں سرمایا کاری کی نہ کی مگر انہوں نے میک ڈونلز جیسی صنعتیں ضرور لگائیں ہیں۔ جہاں ایک برگر ایک ہزار میں لوگ فخریہ خریدتے ہیں۔ اس طرح ہم لوگ آسائش کا عادی اور ہم لوگ سہل پسند تگ آسان ہوچکے ہیں۔ ہم اب دولت کمانے کے لیے محنت نہیں آسان راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ہم اپنا وزن کم کرنے لیے جوگنگ کرتے ہیں لیکن آنے جانے کے پیدل اور خاص کر ہمارے بچے سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ معمولی آدمی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتا ہے۔ اس کا اندازہ رمضان اور عید میں بآسانی ہوجاتا ہے۔ عزت نفس، خداری اور ایمانداری کی ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ درست بات یہ ہے ایماندار وہی رہا جس میں فائدہ اٹھانے کا حوصلہ نہیں ہے یا اسے موقع نہیں ملتا ہو۔
نواز شریف صاحب نے بظاہر ملک میں بہت سے ترقیاتی کئے ہیں۔ مگر یہ ایسے کام نہیں تھے جس سے ملک خود کفیل ہوسکے اور ان سے زرمبادلہ حاصل کیا جاسکے۔ اس میں شک نہیں ہے ان کی پالیسوں کی بدولت ملک میں ہی بہتری آئی ہے اور لوگوں کو روزگار بھی ملا ہے۔ مگر ان کے ترقیاتی کاموں میں ایسی صننعتیں نہیں تھیں جن کی بدولت ملک کو خود کفیل ہونے میں مدد ملتی یا ان سے زر مبادلہ حاصل ہوتا۔ ان کے بشتر ترقیاتی منصوبے مواصلات پر تھے جس میں سڑکوں کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا پاکستان حکمرانوں نے ہمیشہ ہی بیرونی سرمایاداروں سے یہ توقع لگائے بیٹھے رہے ہیں کہ وہ ملک میں آکر کارخانے لگائیں گے۔ مگر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ غیر ملکی سرمایا کار ملک میں لمبی مدت کے لیے سرمایا کاری کیوں کرے گا جہاں معاشی اور سیاسی استحکام نہ ہو؟ وہ اگر سرمایا کاری کرے گا بھی ان شعبوں میں سرمایا کاری کرے گا جن سے سرمایا نکالنا بہت آسان ہو۔ مثلاً اسٹاک ایکسچینج یا ریل اسٹیٹ یا اسی طرح کے دوسرے منصوبوں میں۔
ہمیں نواز شریف صاھب کی نیک نیتی پر شک بہ شبہ نہیں۔ کیوں کہ وہ بھی ملکی اقتصادی پالیساں بنانے والے ان ماہرین کے رحم و کرم پر رہے ہیں جو کہ عموماً آئی ایم ایف کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ ٹیکس کا نظام اور ان کی وصولی کو بہتر بنایا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں دولت کی گردش ترقی کو جنم لیتی ہے۔ ان کی عقل و فہم میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ ہم ملکی مالیاتی امور کو بہتر کرکے ملکی مالیات چلا کو چلا سکتے ہیں مگر ان سے ہم زرمبادلہ نہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ جب کہ ہماری صنعتیں ملک کی بنیادی ضرورتیں ہی پوری کرتی ہوں اور ہم بشتر اشیاء باہر سے مانگاتے ہیں اور ہمارے پاس چند گنی چنی اشیاء کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسے ہم بیرونی منڈی میں فروخت کرکے زرمبادلہ حاصل کرسکیں۔ ان اقدامات سے ہم ملکی مالیات میں بہتری نہیں لاسکتے ہیں آخر میں ہمیں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوتا ہے۔
ترقی پزیر ملکوں کو آئی ایم ایف اور دوسرے مغربی ماہرین یہ بآور کرویا جاتا ہے کہ ہم ساتھ ساتھ اپنے عوام کا معیار زندگی بلند و بہتر کریں اور انہیں مختلف سہولتیں مہیا کریں۔ اس سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی اور وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔ پاکستان کو موٹر وے، بے شمار سڑکیں، قیمتی گاڑیاں، گرین بسیں کے منصبوبوں جسے منصوبوں کے لیے آئی ایم ایف اور دوسرے ملکوں نے دل کھول کر قرض دیا۔ اس میں شک نہیں ہے ان منصوبوں سے عوام کو روزگار بھی ملتا ہے اور ملا ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں لوگوں کے پاس جب پیسہ آیا تو وہ قیمتی اشیاء تعیش، گاڑیاں اور اس طرح کی دوسری بیرونی اشیاء خریدنے لگے ہیں اور اس بھی ہماری ادائیگی کو توازن کو شدید دھچکہ پہنچا۔ ایسی صورت ہم کیسے کہہ سکتے ہیں ان ترقیاتی منصوبوں سے ملک میں معاشی استحکام ّآیا اور اس سے کیا ہماری معشیت مضبوط ہوئی ہے۔ ان پالیسوں کی بدولت اور ترقیاتی کاموں سے ان ملکوں کا فائدہ ہوتا ہے جہاں سے ہم ان اشیاء کو مانگاتے ہیں۔ لہذا وہ اس کے لیے مزید قرض دیتے رہتے ہیں کہ ان مال فروخت ہو رہا ہے۔ اس کا تاریک پہلو یہ ہے ملک مزید قرضوں تلے دب جاتا ہے اور ملکی معشت میں مزید بدحالی آتی ہے۔ ہمارے سامنے مصر کی مثال ہے جس نے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل کرکے اپنی ملکی مالیات کو تباہ کرلیا۔ ولڈ بینک، ّآئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے اس طرح کی پالیسوں کے زریعے ترقی پزیر ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے مغربی ملکوں کی صنعتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی پالیسیون کی بدولت ترقی یافتہ ملک کا سامان فروخت کرتا ہے۔ وہ اپنے سامان کی فروخت کے لیے ترقی پزیر ملکوں کو مزید قرض فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ بینکوں کے ذریعے عوام کو قرض کی پیشکش لوگوں کو سنہرے خواب دیکھائے گئے اور قرض داروں ایسے جال میں جکڑ لیا جاتا ہے اور اس وجہ سے خودکشی اور تشدد کے کتنے واقعات ہوئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہم اپنی آمدنی سے بڑھ کر قرض لے کر گھر میں نئی نئی چیزیں لاتے رہیں تو اس کا آخر انجام ہماری تباہی ہوگا۔ کیوں کہ جب ہماری آمدنی کچھ نہ ہو تو ہم قرض کیسے ادا کریں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے معیار زندگی بڑھانے یا ترقی یافتہ ملکوں کی نقل میں عوام کو مختلف سہولتیں فراہم کرنے سے ہماری معیشت مظبوط نہیں ہوگی۔ اپنے ملک میں ترقی یا تجارتی سرگرمیاں بڑھانے سے ملکی کرنسی مظبوط نہیں ہوتی ہے بلکہ مزید اس کی قدر گرتی رہتی ہے اور ادائیگی کا توازن گرتا رہے گا۔ جس علاج صرف اور یہی سمجھا گیا ہے کہ کرنسی کی قدر مزید گرادی جائے۔ سہولتیں بھی ضروری ہیں لیکن اس میں اعتدال ہونا چاہیے۔ سہولتوں کی فراہمی کے لیے امداد سے کام لیا جاسکتا ہے مگران کے لی قرض ملکی معیشت کو کھوکھلا کردیتی۔ملکی معشیت کی بہتری کے لیے قرض صرف صرف ان اشیاء کے صنعتی کارخانوں کی تعمیر کے لیے لیں جو کہ ہم باہر سے منگاتے ہیں یا انہیں دنیا میں فروخت کرسکیں۔ لیکن ہماری فروخت کی نسبت بیرونی خریداری زیادہ ہو تو ہمارا ادائیگی کا توازن بگڑتا رہے گا اور اس کے نتیجے میں ہماری کرنسی کی قدر گرتی رہے گی۔ لیکن ہمارے پاس بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کے لیے سامان نہیں ہو اور ہم اشیاء تعیش درآمد کرتے رہیں تو ہماری معشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم الف نے ملکی مالیات میں ترقی کی جتنی بھی تجویزیں پیش کیں ہیں ان سے ملکی مالیات میں بہتری کے بجائے مزید پستی میں چلی جائے گی۔ لہذا ہمیں ان صنعتی اشیاء کے کارخانوں کی تعمیر کی شدید ضرورت ہے جو کہ ترقی کے لیے ضروری ہیں، مثلاً ہیوی مشنری جو کہ ہم باہر سے منگاتے ہیں۔ ورنہ ہم دوسروں کے محتاج اور ان کے احکامات ماننے پر مجبور ہوں گے۔ جیسا کہ حال میں عرب ملکوں نے کشمیر کے مسلے پر بھارت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا بلکہ مودی کو اعزاز سے نوازا ہے۔ مگر ہم احتجاج بھی نہیں کرسکے۔ کیوں کہ ہم نے حال ہی ان سے قرض حاصل کیا ہوا ہے۔ جب تک ملک میں صعنتی انقلاب نہیں آئے گا قرض کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑیں گے